بڑا دلچسپ واقعہ ہے، امام بخاریؒ بیان فرماتے ہیں۔ بدر میں حضرت زینبؓ حضورؐ کے گھر میں ہیں اور خاوند کافر قیدیوں میں ہیں، نکاح باقی ہے، نکاح قائم ہے، فدیہ کا فیصلہ ہوا، ابوالعاص بن ربیع کے پاس کچھ دینے وینے کو تھا نہیں کہ میں فدیہ میں کیا دوں گا۔ اہلیہ محترمہ گھر میں ہیں، مدینہ منورہ میں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا، ان کو پتہ چلا کہ میرا خاوند قیدی ہے، فدیے کا فیصلہ ہوا ہے، فدیے کے پیسے نہیں ہیں، تو اپنا ہار گلے سے اتارا، کسی ذریعے سے بھجوایا کہ ابوالعاص کو دے دو تاکہ اپنا فدیہ ادا کر دے۔ مسلمان بہت بعد میں ہوئے ہیں۔ اپنا ہار دیا کہ جا کر ابوالعاص کو دے دو کہ وہ اپنا فدیہ ادا کر کے رہا ہو جائے گا۔ ابوالعاص نے دیکھ لیا کہ میری بیوی کا ہار ہے، بیوی نے بھیجا ہے۔ تو وہ حضورؐ کی خدمت میں جب پیش کیا، اوہو! حضورؐ کی تو انکھیں بھر آئیں۔ یہ ہار اصل میں حضرت خدیجہؓ کا تھا۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار تھا جو انہوں نے شادی کے موقع پر بیٹی کو ہدیہ کیا تھا۔ تو حضورؐ کو وہ پرانا دور سارا یاد آگیا کہ یہ تو خدیجہؓ کا ہار ہے، بیٹی کے پاس ہے، اب بیٹی نے خاوند کو بھیجا ہے آزاد ہونے کے لیے۔ تو حضورؐ نے سفارش کی۔ عام طور پر حضورؐ سفارشیں اس قسم کی نہیں کیا کرتے تھے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ دیکھو بھئی! یہ خدیجہؓ کا ہار ہے، بیٹی کے پاس ماں کی نشانی ہے، اگر تم اجازت دو تو یہ زینبؓ کو واپس کر دوں؟ یا رسول اللہ! حاضر ہے پیش کر دیں۔
جاہلیت کے زمانے میں کافر اور مسلم کا نکاح ہوتا تھا۔ بلکہ ایک اور واقعہ بھی بخاری شریف میں ہی ہے۔ حضورؐ ابوالعاص کی بڑی تعریف کیا کرتے تھے کہ یہ بڑا جری جوان ہے، شریف جوان ہے، بڑی تعریف کرتے تھے کہ بڑا وفادار نوجوان ہے، حالانکہ کافر تھا، اس نے بھی پھر وفاداری نبھائی۔ خیر، ایک دفعہ ابوالعاص قیدی بن کر آ گئے۔ کسی معرکے میں قیدی ہو گئے کہ کافر تھے لڑتے تھے۔ قیدی بن کر مدینہ منورہ آگئے۔ نبی کریمؐ کا ضابطہ یہ تھا کہ فیصلہ ہونے تک قیدی کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا جاتا تھا۔ ستون سے باندھ دیا کہ صبح فیصلہ کریں گے۔ بیوی کو پتہ چل گیا کہ میرا خاوند پکڑا ہوا آیا ہے اور ستون سے بندھا ہوا ہے، صبح اس کے مقدر کا فیصلہ ہونا ہے۔ فیصلہ قتل بھی ہو سکتا تھا، فیصلہ رہائی بھی ہو سکتی تھی، فیصلہ جرمانہ بھی ہو سکتا تھا، فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ صبح نماز کے بعد زینب رضی اللہ عنہا گھر سے آئیں، دروازے کے اوٹ میں کھڑی ہوئیں، یا رسول اللہ! اس قیدی کو میں نے پناہ دے دی ہے۔ قیدی کون ہے، خاوند ہے۔ اس قیدی کو میں نے پناہ دے دی ہے۔ حضورؐ نے سنا، دیکھا، مسکرائے اور فرمایا ’’قد اجرنا من اجرت‘‘ جس کو تو نے پناہ دے دی ہے، ہم نے بھی دے دی ہے۔ قانون ضابطہ یہ تھا کہ کسی قیدی کو، کسی کافر کو، کسی دشمن کو، عام آدمی بھی اگر پناہ دے دے تو ہو جاتی تھی۔ تو ان کو پتہ تھا مسئلے کا کہ میں اگر پناہ دوں گی تو بچ جائے گا ورنہ پتہ نہیں کیا فیصلہ ہو گا اس کے بارے میں۔