آرمی چیف کی مداخلت سے دھرنوں کے معاملات کچھ صحیح سمت بڑھتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ مجھے ان دوستوں سے اتفاق ہے جن کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی جماعتوں کے ذریعہ حل کرنا ہی بہتر تھا اور فوج کو زحمت نہیں دینا چاہیے تھی، مگر جس طرح کا ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے، اس کو ختم کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کی دلچسپی پر بہرحال اطمینان محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں یا فریقین میں بے اعتمادی بلکہ بد اعتمادی کی اس انتہا کا لازمی نتیجہ ہے جو سامنے آیا ہے۔ اور اس کی ذمہ داری باہمی بد اعتمادی کی اس انتہا تک معاملات کو لے جانے والوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس لیے الیکشن میں بدعنوانی کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوگیا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کے درمیان اس درجہ کی بے اعتمادی کے اسباب کیا ہیں اور اس آگ میں تیل ڈالنے اور ڈالتے چلے جانے والے عناصر کون کون سے ہیں؟ بہرحال ہماری دعا ہے کہ فوجی قیادت کی یہ دلچسپی معاملات کو سلجھانے تک ہی محدود رہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالہ سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور انتخابی نظام کو دھاندلیوں کے امکانات سے پاک کرنے کی خواہش جو پوری قوم کی اجتماعی خواہش ہے، جلد از جلد پوری ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔
اس مرحلہ پر مجھے وہ مذاکرات یاد آرہے ہیں جو ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیؐ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہوئے تھے۔ حکومتی ٹیم وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، مولانا کوثر نیازی مرحوم، اور جناب عبد الحفیظ پیرزادہ پر مشتمل تھی۔ جبکہ اپوزیشن یعنی پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے مولانا مفتی محمودؒ ، نواب زادہ نصر اللہ خانؒ ، اور پروفیسر عبد الغفورؒ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے۔ ان میں سے پیرزادہ صاحب کے علاوہ سب وفات پا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائیں اور پیر زادہ صاحب محترم کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔ انتخابی دھاندلیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابات کے دوبارہ انعقاد پر اتفاق رائے ہو چکا تھا مگر اس نکتہ پر بات پھنس گئی تھی کہ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت وزیر اعظم بھٹو مرحوم سے یہ کہہ کر استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی تھی کہ ان کے وزیر اعظم رہتے ہوئے دوبارہ انتخابات کے شفاف ہونے پر اطمینان نہیں ہے۔ وزیر اعظم سے استعفیٰ دینے کے اس مطالبہ پر مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے تھے اور اس وقت کے آرمی چیف نے ایک مرحلہ پر مذاکرات میں شرکت کرکے یقین دلایا تھا کہ وہ آئین اور دستوری حکومت کا تحفظ کریں گے، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ قوم کے سامنے ہے۔
میں ان مذاکرات کا براہ راست حصہ تو نہیں تھا لیکن پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے تحریک نظام مصطفٰیؐ کا سرگرم کردار تھا اور مذاکرات کے سلسلہ میں ہونے والی باہمی مشاورت کے نظام میں بھی شریک تھا۔ اس لیے اب جو کچھ ہو رہا ہے اس میں میرے لیے کوئی بات نئی نہیں ہے اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے یا جس کی کچھ عرصہ کے بعد توقع کی جا سکتی ہے وہ بھی میرے لیے کوئی حیران کن بات نہیں ہوگی۔ بات کو اس سے زیادہ آگے بڑھانے کی بجائے سر دست قارئین کے منہ کا ذائقہ دو تین لطیفوں کے ذریعہ کچھ نہ کچھ تبدیل کرنے کی کوشش کروں گا جو ان مذاکرات کے دوران رونما ہوئے تھے اور مولانا مفتی محمودؒ نے ہمیں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے راہ نماؤں کے ایک اجلاس میں سنائے تھے۔ مفتی صاحبؒ نے بتایا کہ جب مذاکرات میں انتخابی دھاندلیوں کو تسلیم کر لیا گیا اور دوبارہ الیکشن پر بھی اتفاق ہوگیا تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ مفتی صاحب! میں نے آپ کے دونوں مطالبات مان لیے ہیں اس لیے آپ استعفیٰ کے مطالبہ پر اصرار نہ کریں اور کوئی بات تو میری بھی مان لیں۔ کیونکہ مذاکرات ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کے اصول پر ہوتے ہیں اور مجھے بھی اپنی پارٹی کو مطمئن کرنا ہے۔ مفتی صاحبؒ نے جواب دیا کہ بھٹو صاحب آپ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ میں مولوی ہوں اور مولوی صرف لینا جانتا ہے، دینا اس کی لغت میں ہی نہیں ہے۔ اس پر مفتی صاحبؒ نے بھٹو مرحوم کو ایک لطیفہ بھی سنایا کہ ایک مولوی صاحب کسی گاؤں کے قریب ایک کنویں میں گر گئے جہاں سے نکلنا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ شور مچایا تو قریب سے ایک دو نوجوان آگئے اور ایک نوجوان نے اپنا ہاتھ آگے کر کے کہا کہ مولوی صاحب اپنا ہاتھ مجھے دو تاکہ میں آپ کو کھینچ کر باہر نکالوں۔ مولوی صاحب نے ہاتھ دینے سے انکار کر دیا جس سے عجیب صورت حال پیدا ہوگئی کہ نوجوان اس مولوی صاحب سے ہاتھ پکڑانے کا تقاضہ کر رہا ہے اور مولوی صاحب اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اتنے میں کچھ اور لوگ اکٹھے ہوگئے اور ایک پرانے تجربہ کار بزرگ نے منظر دیکھ کر اس نوجوان سے کہا کہ بیٹا مولوی صاحب سے یہ نہ کہو کہ اپنا ہاتھ دو، وہ کبھی نہیں دیں گے۔ بلکہ ان سے یہ کہو کہ میرا ہاتھ لو۔ نوجوان نے جونہی کہا کہ مولوی صاحب میرا ہاتھ پکڑو تو انہوں نے فورًا پکڑ لیا اور انہیں کھینچ کر باہر نکال لیا گیا۔
دوسرا لطیفہ بھی انہی مذاکرات کے حوالہ سے مفتی صاحبؒ نے سنایا کہ گفتگو کے دوران ایک دفعہ بھٹو مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے پوچھا کہ یہ پچاس نمازوں کا کیا معاملہ ہے کہ پہلے پچاس نمازیں فرض کی گئی تھیں، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مداخلت سے پانچ رہ گئیں۔ مفتی صاحبؒ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا واقعہ بیان کیا کہ نمازیں پچاس ہی فرض ہوئی تھیں مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام راستہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار عرش الٰہی کی طرف واپس بھیجتے رہے کہ اتنی نمازیں آپ کی امت نہیں پڑھ سکے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ سے ان کی تعداد کم کرنے کی درخواست کریں۔ چنانچہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بار بار درخواست پر یہ نمازیں پانچ رہ گئیں۔ اس پر بھٹو صاحب مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ تکلف کیوں فرمایا، نمازیں پچاس ہی رہتیں تو بہتر تھا، آپ مولوی لوگ شب روز نمازوں میں مصروف رہتے اور ہم آرام سے حکومت کرتے۔
لطیفوں کی بات چلی ہے تو میرا خیال ہے کہ مفتی صاحب مرحوم کا بتایا ہوا ایک اور لطیفہ بھی بیان کر دیا جائے جو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ ان کے دور صدارت میں ہونے والے مذاکرات کے ایک مرحلہ میں مفتی صاحبؒ نے شرکاء محفل کو سنایا۔ ان باتوں سے قارئین کو اتنا اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ مفتی صاحب مرحوم خشک مزاج مولوی نہیں تھے بلکہ بذلہ سنج اور خوش ذوق بزرگ تھے اور بہت سی نا گفتنی باتوں کو لطیفوں کے ذریعہ گفتنی بنا دینے کے فن سے آشنا تھے۔ انہوں نے لطیفہ یہ بیان کیا کہ سرجری نے اس قدر ترقی کر لی کہ دماغوں کی تبدیلی بھی اس کے دائرہ میں آگئی اور مرنے والوں یا حادثہ کا شکار ہونے والوں کے دماغ محفوظ کر کے سرجری کے ذریعے انہیں دوسروں کے سروں میں منتقل کرنے کی صلاحیت میڈیکل سائنس نے حاصل کر لی۔ اس حوالہ سے ایک شو روم میں مختلف دماغ سجے ہوئے تھے اور ان پر قیمتیں درج تھیں۔ مولوی کا دماغ آٹھ ڈالر، سیاستدان کا دماغ دس ڈالر، وکیل کا دماغ بارہ ڈالر، تاجر کا دماغ پندرہ ڈالر وغیرہ۔ لیکن سب سے مہنگا دماغ جنرل کا تھا جس کی قیمت سو ڈالر درج تھی۔ ایک گاہک نے یہ دیکھ کر کاؤنٹر پر کھڑے شخص سے پوچھا کہ جرنیل کا دماغ سب سے مہنگا کیوں ہے؟ اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ ’’اوریجنل ہے، استعمال نہیں ہوا۔‘‘