مسجد کے اعمال کو زندہ کرنے کی ضرورت

   
مسجد ارشد جاوید، سینسرہ گورائیہ، گوجرانوالہ
۲۴ جون ۲۰۲۲ء

(نمازِ مغرب کے بعد نمازیوں سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ! میں سب سے پہلے اس مسجد کی تعمیر پر آپ حضرات کو مبارکباد دینا چاہوں گا، اس کے سنگ بنیاد کی تقریب میں بھی حاضری ہوئی تھی اور آج تین منزلہ شاندار عمارت دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ بنانے والوں، تعاون کرنے والوں اور اہلِ علاقہ سب کے لیے اس کارِ خیر کو دنیا و آخرت کی کامیابیوں کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔ اس کے بعد میں ’’مدرسہ اصحابِ صفہ‘‘ کے قیام اور سرگرمیوں پر مسرت کا اظہار کروں گا اور اس پر مبارکباد دوں گا کہ آج طالبات کے لیے ’’درّاساتِ دینیہ‘‘ کے کورس کا آغاز ہو رہا ہے جو ایک اچھی پیشرفت ہے، اللہ تعالیٰ مسلسل کامیابیوں سے نوازیں۔

مسجد کا ہمارے معاشرے میں مقام اور کردار کیا ہے، اس حوالے سے آج کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ ہمارے تبلیغی بھائی اکثر اوقات ایک جملہ کہا کرتے ہیں کہ ہماری جدوجہد کا ایک مقصد مسجد کے اعمال کو زندہ کرنا بھی ہے، یہ بالکل درست ہے اور ضروری بات ہے۔ اس لیے کہ خیرالقرون میں مسجد میں جو کام ہوا کرتے تھے، مسجد کے اصل کام وہی ہیں، جن میں سے آج بہت سے کام مسجد میں نہیں ہو رہے۔ چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ مسجد کے کاموں کی طرف توجہ دیں اور ان میں سے جن کاموں کا ماحول ہم بنا سکتے ہیں اس کی کوشش کریں۔

اس سلسلہ میں ایک روایت پیش کرنا چاہوں گا کہ ایک دفعہ مسجدِ نبویؐ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے مسجد میں ایک طرف پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ صحابہ کرامؓ نے اسے روکنا چاہا تو حضورؐ نے انہیں اس سے منع کر دیا۔ وہ فارغ ہوا تو اسے بلا کر نرمی سے سمجھایا کہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ وہ نماز، ذکر اور تلاوت کلامِ پاک کے لیے بنائی جاتی ہیں۔

چنانچہ مسجد کے بنیادی کام تین ہیں:

  • ایک یہ کہ اس میں نماز کا اہتمام ہو کیونکہ نمازیں مسجد میں ادا کرنے کا حکم ہے۔ البتہ عذر اور ضرورت کے وقت دوسری جگہ پڑھی جا سکتی ہے۔ مردوں کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ اہتمام سے نماز پڑھیں اور اگر کوئی عذر یا مجبوری ہو تو گھر میں، دکان پر یا کسی اور جگہ میں بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ مگر ہمارا ماحول یہ بن گیا ہے کہ اگر وقت، گنجائش اور سہولت ہے تو مسجد میں چلے جاتے ہیں ورنہ اگر پڑھنی بھی ہے تو جہاں ہوتے ہیں وہیں پڑھ لیتے ہیں، گویا ہم نے آج کل یہ معاملہ الٹ کر رکھا ہے۔
  • دوسرا کام قرآن کریم کی تلاوت و تعلیم ہے جس کا اہتمام مسجد میں ہونا چاہیے اور اکثر مساجد میں اس کا اہتمام ہوتا ہے۔
  • تیسرا کام ذکر ہے جس سے مراد ذکر و اذکار بھی ہے، وعظ و نصیحت بھی ہے اور دعوت و تبلیغ بھی اس کا حصہ ہے۔

مگر خیر القرون میں اس کے علاوہ بھی بہت سے کام مساجد میں ہوتے تھے جو آج نہیں ہو رہے اور ان کاموں کو مسجد کے ماحول میں واپس لانا میرے خیال میں مسجد کے اعمال کو زندہ کرنے کا اصل مفہوم ہے، مثلاً:

  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ کے دور میں عدالت مسجد میں لگتی تھی اور مقدمات وہاں بیٹھ کر سنے جاتے تھے۔ آج اگر وہ سارا کام مسجد میں واپس نہیں لایا جا سکتا تو کم ازکم یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ محلہ میں ہونے والے باہمی تنازعات کو مصالحت کے ذریعے حل کرانے کا کوئی نظم مسجد میں بنایا جائے۔ اگر مسجد کی کمیٹی اور محلہ کے ذمہ دار افراد کوئی ایسا ماحول بنالیں کہ اس علاقہ میں ہونے والے تنازعات اور جھگڑوں کو مسجد میں پنچایت اور مصالحت کے انداز میں نمٹا دیا جائے تو بہت سے لوگ تھانہ کچہری کے چکروں اور اخراجات سے بچ جائیں گے اور عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ یہ کام پنچایت، کونسلنگ اور مصالحت کے عنوان سے دنیا کے مختلف ممالک میں ہو رہا ہے اور پاکستان کا دستور و قانون بھی اس کی گنجائش دیتا ہے، اس لیے میری گزارش پر مسجد کی کمیٹی اور منتظمین سے یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول اور ضروریات کے دائرے میں اس کی کوئی صورت بنائیں۔
  • دوسرا کام رفاہِ عامہ کا ہے جس کے لیے مسجد سب سے بہتر مرکز ہو سکتی ہے اور خیر القرون میں مسجد ہی اس کام کا مرکز رہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھ کر ضرورتمندوں کی باتیں سنتے تھے اور انہیں پورا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ محلہ کے لوگوں کو اپنے اردگرد کے ضرورتمندوں کا زیادہ علم ہوتا ہے اور وہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں کہ کس شخص اور خاندان کو مدد کی ضرورت ہے اور کس حد تک ہے۔ اس سے فریب اور دھوکے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں جو آج کل عام ہوگئے ہیں۔ اور بھیک مانگنے والوں کے ہجوم میں اصل ضرورتمند محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لیے مساجد کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ مسجد کے باقی شعبوں کے ساتھ محلہ کے ضرورت مندوں کا خیال رکھنے اور ان کی ضرورت کے مطابق امداد کو بھی اپنی ذمہ داریوں میں شامل کر لیں۔ ان کاموں کا مرکز اگر مسجد ہو گی تو اس میں برکت ہو گی اور صحیح راہنمائی بھی میسر آئے گی۔

چنانچہ مسجد کے اعمال میں (۱) نماز (۲) قرآن کریم کا درس و تعلیم (۳) ذکر و اذکار (۴) دعوت و تبلیغ (۵) مصالحت و پنچایت اور (۶) ضرورتمندوں کی دیکھ بھال کے ساتھ (۷) باہمی ربط و تعاون کا ماحول بڑھے گا تو معاشرے کی مجموعی صورتحال پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا جو آج کی ایک اجتماعی ضرورت ہے۔

ان گزارشات کے ساتھ میں اس علاقہ کے تمام مسلمان بھائیوں کے ساتھ ساتھ مسجد و مدرسہ بنانے والوں اور اس کا انتظام چلانے والے دوستوں کو مبارک باد دیتا ہوں، خدا کرے کہ ہم ضرورت کی ہر جگہ میں اس قسم کا ماحول بنا کر اپنی نئی نسل کو بے راہ روی سے بچاتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور ان کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلا سکیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ جولائی ۲۰۲۲ء)
2016ء سے
Flag Counter