یکم اگست ۱۹۸۸ء کو صوبہ سندھ کے چار روزہ دورہ پر سکھر پہنچا تو اخبارات کے ذریعہ یہ المناک خبر ملی کہ الحاج مولانا محمد زکریا گزشتہ روز طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں اور انہیں کراچی میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بے حد صدمہ ہوا اور یہ خیال ذہن میں بار بار ابھرنے لگا کہ اس دفعہ کراچی جانے پر مولانا مرحوم سے ملاقات اور مخصوص بے تکلفانہ انداز میں گفتگو نہیں ہوگی۔
مولانا محمد زکریا مرحوم کے ساتھ میرے روابط اور مراسم کا سلسلہ بہت پرانا تھا۔ وہ جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے ان پرجوش، متحرک اور بے لوث ارکا ن میں شامل رہے جنہوں نے ایوبی مارشل لاء کے بعد جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کو ایک متحرک سیاسی قوت بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیے، اور وسائل کی کمی بلکہ فقدان کے باوجود اپنی جدوجہد کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ مجھے ان کے ساتھ ان گنت اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا، وہ بحث میں پرجوش حصہ لینے اور دوٹوک رائے دے کر اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کے عادی تھے۔ بہت سے مسائل پر ان سے بحث و مباحثہ کا سلسلہ ضرورت سے زیادہ دراز ہو جاتا تھا مگر رائے کے اختلاف کے باوجود ان کی گفتگو میں خلوص اور جماعتی مفاد کی جھلک نظر آتی تھی۔بہت سے تنظیمی و سیاسی دوروں میں ان کے ساتھ رفاقت رہی، وہ تھکتے اور اکتاتے نہیں تھے بلکہ اپنی بذلہ سنجی کو دوسرے رفقاء کی اکتاہٹ دور کرنے کا ذریعہ بنائے رکھتے تھے۔
مولانا محمد زکریا مرحوم دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد تھے۔ کچھ عرصہ کراچی میں کھڈہ کے قدیمی علمی مرکز میں بطور استاذ رہے، بعد میں فیڈرل بی ایریا میں مدرسہ انوار العلوم کے نام سے ایک مستقل علمی ادارہ قائم کر لیا جو ان کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہے۔
جماعتی حلقوں میں تو مولانا مرحوم کا تعارف بہت پرانا تھا لیکن ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران جرأت و عزیمت کے اس بے مثال واقعہ نے انہیں قومی بلکہ عالمی سطح پر شہرت بخشی جو انہوں نے فوج کی مقرر کردہ وہ سرخ لائن کو عبور کر کے تنی ہوئی سنگینوں کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ تحریک نظام مصطفٰیؐ کا وہ لمحہ بلاشبہ ایک یادگار اور ممتاز حیثیت کا حامل ہے جب فوج نے قومی اتحاد کے جلوس کے راستہ میں سرخ لکیر کھینچ کر وارننگ دے دی کہ اس لائن کو عبور کرنے والے کو گولی مار دی جائے گی مگر مولانا محمد زکریا وارننگ کی پروا کیے بغیر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ریڈ لائن کو عبور کر گئے اور چاروں طرف سے ریڈ لائن کا نشانہ لیے ہوئے رائفلیں اس ایمانی جرأت کے سامنے زیادہ دیر تک تنی نہ رہ سکیں۔ اس واقعہ نے جہاں ملک بھر میں قومی اتحاد کے کارکنوں کو ایک نیا حوصلہ بخشا وہاں گولی کی قوت کو بھی اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کی ضرورت کا احساس دلایا۔
تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران اسی قسم کا ایک واقعہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں بھی پیش آیا جہاں قومی اتحاد کا جلوس والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالی کی قیادت میں روانہ ہونے والا تھا۔ فیڈرل سکیورٹی فورس کے کمانڈر نے جلوس روکنا چاہا مگر جلوس کے قدم نہ رکے۔ کمانڈر نے راستہ میں ایک لکیر کھینچی اور فورس کے جوانوں کو پوزیشن لینے کا حکم دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر اس لکیر سے کوئی آگے بڑھا تو اسے گولی مار دی جائے گی۔ والد محترم نے یہ اعلان سنا اور کلمہ طیبہ کے ورد کے ساتھ یہ کہتے ہوئے لکیر سے آگے بڑھ گئے کہ ’’میں مسنون عمر پوری کر چکا ہوں اور اب شہادت ہی کی آرزو ہے‘‘۔ ان کے ساتھ لکیر کو عبور کرنے والے دوسرے بزرگ میرے استاذ محترم قاری محمد انور صاحب ہیں جو آج کل مدینہ منورہ میں محترم قاری محمد خلیل کشمیری صاحب کے مدرسہ میں مدرس ہیں۔
سماجی خدمت مولانا محمد زکریاؒ کے روز مرہ معمولات کا ایک اہم حصہ تھی۔ عوامی مشکلات کو دور کرنے کی تگ و دو اور ضرورت مند لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی محنت میں وہ شب و روز مصروف رہتے۔ ان کے پاس ایسے حضرات کی آمد مسلسل جاری رہتی جن کے مسائل مختلف محکموں میں حل طلب ہوتے اور وہ مولانا مرحوم کے پاس اس امید سے آتے کہ وہ ان کے مسائل کو حل کروا دیں گے۔ مسائل حل ہوتے یا نہ ہوتے مگر انہیں مولانا محمد زکریا کی توجہ اور دلچسپی سے مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ بارہا ایسا ہوا کہ پنجاب سے دوستوں نے کراچی میں کسی کام کے لیے کہا اور میں نے مولانا محمد زکریا کے نام رقعہ لکھ دیا، ان دوستوں نے واپسی پر مولانا مرحوم کے رویہ اور طرزِ عمل کی تعریف کی۔ مولانا مرحوم سندھ اسمبلی کے رکن رہے ہیں اور اس دوران بھی ان کی توجہات اور تگ و دو کا اصل میدان عوامی مسائل کا حل ہی تھا جس کے لیے وہ شب روز مصروف اور متحرک رہے۔
مذہب اہل سنت اور مسلک علماء دیوبند کی ترویج و تحفظ میں مرحوم کو ذاتی دلچسپی تھی اور وہ اس کے لیے کسی مصلحت کی پروا نہیں کرتے تھے۔ کراچی میں سوادِ اعظم اہل سنت کی تحریک منظم ہوئی تو مولانا محمد زکریاؒ اس کے سرگرم رہنماؤں میں سے تھے۔ بعد میں پاکستان سنی اتحاد کے نام سے الگ تنظیم قائم کر لی مگر مسلکی کاموں میں باہمی اشتراک و تعاون کے جذبہ سے کام کرتے رہے۔
جمعیۃ علمائے اسلام میں وہ ایک عرصہ تک کراچی کے ناظم اعلیٰ رہے پھر امیر بھی بنے۔ صوبائی عہدیدار بھی رہے اور ایک مرحلہ میں مرکز کے ناظم بھی رہے۔ جمعیۃ کے ساتھ ان کی ذہنی اور فکری وابستگی لازوال تھی مگر کچھ سیاسی مصلحتیں آخر عمر میں انہیں گھیر گھار کر مسلم لیگ میں لے گئیں۔ مسلم لیگ میں جانے کے اعلان سے پہلے انہوں نے جن دوستوں سے مشورہ کیا ان میں راقم الحروف بھی شامل ہے۔ میں نے ان کے اس ارادے سے اختلاف کرتے ہوئے انہیں اس کے سیاسی و مذہبی نقصانات سے آگاہ کیا مگر وہ اپنی رائے پر ڈٹ جانے والے بزرگ تھے۔ بالآخر مسلم لیگ میں چلے گئے لیکن ایسا کرنا انہیں راس نہ آیا کہ جو سیاسی مجبوریاں انہیں دھکیل کر مسلم لیگ میں لے گئی تھیں وہ بدستور قائم رہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں کراچی آیا تو ان سے مدرسہ انوار العلوم میں ملاقات ہوئی اور نیو کراچی میں ایک جماعتی دوست حافظ احمد علی کی قیام گاہ پر بھی گفت و شنید ہوئی۔ وہ اپنے فیصلہ کے نتائج سے پریشان تھے اور ’’گھر واپسی‘‘ کی باتیں کر رہے تھے۔ اس دفعہ میرا ارادہ تھا کہ کراچی حاضری کے موقع پر ان سے ملاقات کر کے اس سلسلہ میں کوئی حتمی بات طے کر لی جائے مگر میرے کراچی پہنچنے سے پہلے ہی وہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا محمد زکریا مرحوم اب ہم میں نہیں ہیں، وہ اپنی زندگی پوری کر کے خالقِ حقیقی کی بارگاہ میں واپس جا چکے ہیں۔ اب ان کی یادیں باقی رہ گئی ہیں اور ان کا دینی مشن باقی ہے۔ میں نے گزشتہ روز مدرسہ انوار العلوم میں منعقد ہونے والے ایک تعزیتی اجلاس میں بھی عرض کیا تھا کہ مولانا محمد زکریاؒ کی صحیح یاد ان کے اچھے اعمال کے تسلسل کو جاری رکھنا ہے، اور انہیں صحیح خراج عقیدت ان کے قائم کردہ دینی ادارہ مدرسہ انوار العلوم کی بقا و استحکام ہے۔ مرحوم کے فرزندوں میں مولانا محمد احمد، مولانا محمد اسعد، محمد ارشد، دیگر اہل خاندان اور رفقاء سے ہمیں امید ہے کہ وہ مرحوم کے مشن اور خدمات کے تسلسل کو قائم رکھیں گے اور ان کی حسنات کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے خلوص و محنت کے ساتھ ان کی مزید نیک نامی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق دیں اور مولانا محمد زکریا مرحوم کی مغفرت فرمائیں، ان کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس سے اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔