سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی

   
مدرسہ طیبہ، کوروٹانہ، گوجرانوالہ
۱۲ ستمبر ۲۰۲۲ء

الشریعہ اکادمی کوروٹانہ گوجرانوالہ کی ہفتہ وار نقشبندی محفل کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مدینہ منورہ میں ایک علاقہ اشعریوں کا محلہ کہلاتا تھا۔ حضرت ابو موسی اشعریؓ اور ان کے ساتھ چند خاندان غزوہ خیبر کے موقع پر یمن سے ہجرت کر کے آئے تھے اور آکر مدینہ منورہ میں آباد ہوگئے تھے، وہاں انہوں نے الگ جگہ لے کر اپنا محلہ بسایا تھا جو اشعریوں کا محلہ کہلاتا تھا۔ یمن سے آنے والے اس مہاجر قبیلے کی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین حوالوں سے تعریف کی ہے، ایک دفعہ ان کو ڈانٹا تھا اور دو حوالوں سے ان کی تعریف کی ہے۔

عام طور پر اشعریوں کو فقہاء اور قراء کہا جاتا تھا، دین کی سمجھ رکھنے والے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے، ان کا عام تعارف یہ تھا۔ یعنی یہ مدینہ منورہ میں پڑھی لکھی فیملی کہلاتے تھے۔ ان میں سے حضرت ابو موسی اشعریؓ امت کے تین چار بڑے قاریوں میں سے ہیں، جن کی قراءت کی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تعریف فرمائی ہے۔ ایک دفعہ نبی کریمؐ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ ان کے علاقے میں کسی کام کے سلسلے میں گئے، واپس آتے ہوئے ان کے محلے سے گزرے۔ جب حضرت ابو موسی اشعری کے مکان کے سامنے سے گزرے تو حضرت ابو موسی اشعریؓ اپنے گھر میں بیٹھ کر مزے سے تلاوت کر رہے تھے، گلی میں آواز آ رہی تھی، حضورؐ اور حضرت عائشہؓ کھڑے ہو گئے، تھوڑی دیر دونوں میاں بیوی ان کی تلاوت سنتے رہے اور اس کے بعد چلے گئے ۔ صبح حضورؐ کی حضرت ابو موسی اشعریؓ سے ملاقات ہوئی تو آپؐ نے فرمایا، ابو موسٰی! رات کو میں اور عائشہ تمہارے محلے سے گزرے تھے، تم اپنے گھر میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے، باہر آواز آ رہی تھی، ہم دونوں وہاں کھڑے ہو گئے اور کچھ دیر تمہاری تلاوت سنتے رہے۔ ’’لقد اوتیت مزمارا من مزامیر آل داؤد‘‘ لگتا ہے تمہارے گلے میں داؤد علیہ السلام کے خاندان کی سُر ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام بہت اچھی سُر والے پیغمبر تھے، ان کی آواز بہت پیاری تھی۔ اس پر حضرت ابو موسٰیؓ نے کہا یا رسول اللہ! مجھے پتا نہیں چلا کہ آپ سن رہے ہیں ورنہ میں اور زیادہ لے میں پڑھتا۔

ایک موقع پر اس خاندان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹا۔ ایک روایت امام بخاریؒ نے اپنے رسالہ ’’الوحدان‘‘ میں نقل کی ہے کہ نبی کریمؐ نے ایک بار جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو اہلِ علم ہیں، پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان کے گرد کی ساری آبادی جاہل ہے اور وہ ان کو پڑھاتے نہیں ہیں۔ اور ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو پڑھے لکھے نہیں ہیں، ان کے درمیان پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں، اور وہ ان سے پڑھتے نہیں ہیں ۔حضورؐ نے ان دونوں کو ڈانٹا۔ اہلِ علم سے نہ پڑھنے والوں کو بھی، اور نہ پڑھانے والوں کو بھی۔ اور فرمایا کہ یہ دونوں طبقے باز آجائیں ورنہ ان کو سزا دوں گا۔ آپؐ اشعریوں کا نام تو نہیں لیا لیکن مدینہ کے لوگ سمجھ گئے کہ ان کی بات ہو رہی ہے کیونکہ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے اور ان کے اردگرد سارے زمیندار ، کاشتکار لوگ تھے۔

جب بات ان تک پہنچی تو ان کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپؐ نے جمعہ کے خطبہ میں یہ بات ارشاد فرمائی تھی، لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں فرمایا تھا۔ آپؐ نے فرمایا، ہاں! لوگ ٹھیک کہتے ہیں، تمہارے بارے میں ہی یہ کہا تھا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم سے پڑھتے وہ لوگ نہیں ہے اور سزا ہمیں ہو گی ؟ حضورؐ نے فرمایا کہ ہاں اَن پڑھوں کی ذمہ داری ہے پڑھے لکھوں کو تلاش کر کے ان سے پڑھیں، اور پڑھے لکھے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اردگرد اَن پڑھ لوگوں کو تلاش کر کے ان کو پڑھائیں۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کی ایک خاص صفت کی تعریف بھی کی ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا، اشعری بہت اچھے لوگ ہیں اور ان کی یہ صفت مجھے بہت پسند ہے کہ جب کوئی اجتماعی مصیبت یا آفت آ جاتی ہے تو یہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور اکٹھے ہو کر اپنی ساری پونجی اکٹھی کر لیتے ہیں اور اسے برابر تقسیم کر لیتے ہیں، تاکہ کسی کو محسوس نہ ہو کہ فلاں تو کھاتا پیتا ہے اور میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس صفت کی نبی کریمؐ تعریف کی کہ اشعریوں کی یہ صفت بہت اچھی ہے۔

یہ میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ آج ہمیں اسی بات کی ضرورت ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں جو کچھ تباہی مچی ہے اللہ پاک معاف فرمائے۔ اس وقت جو بھی امداد ہو رہی ہے، الحمد للہ لوگ اپنے ذوق کے مطابق ان کی امداد کر رہے ہیں، ہر جگہ سے امداد آ رہی ہے، لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ فرسٹ ایڈ ہے۔ فرسٹ ایڈ بھی ضروری ہوتی ہے، مریض یا زخمی کو فوری طور پر سنبھالنا پہلا کام ہوتا ہے، لیکن اصل علاج تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے اور وہ پتہ نہیں کتنی دیر تک چلے گا۔

سیلاب سے بے گھر ہونے والے، سیلاب سے اجڑنے والے، جن کے کھیت اجڑ گئے، جن کی بستیاں اجڑ گئیں، جن کے بچے بہہ گئے، جن کے جانور بہہ گئے، جو تباہ حال ہو گئے ہیں ہمیں ان کو سنبھالنے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ ہم ان کے لیے وہ تو نہیں کر سکتے جو اشعریؓ کرتے تھے کہ ساری جمع پونجی اکٹھی کر کے اس کو برابر تقسیم کر لیتے تھے، یہ تو ہمارے بس کی بات نہیں ہے، لیکن متاثرین کو یہ احساس نہ ہونے دینا کہ ہم بالکل بے سہارا ہو گئے اور ہمارا کوئی ساتھی نہیں ہے، یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ چند سال حالات ایسے رہیں گے، ان کے مکان بنیں گے، ان کے کھیت آباد ہوں گے۔

یہ بھی اللہ کا نظام ہے کہ بڑی عید سے پہلے جانور پانی نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے تھے اور اب جانور پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ بہرحال یہ لمبی منصوبہ بندی ہے اس کے لیے ہمیں سوچنا چاہیے اور اپنے اپنے ذوق کے مطابق جتنا بھی ہو سکے مستقل بنیادوں پر کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہم ان کے لیے کوئی ایسا نظم بنا لیں کہ ان کو بحالی تک مدد ملتی رہے۔ سرکاری سطح پر جو ہوتا ہے وہ تو ہوتا ہی ہے، لیکن نجی سطح پر بھی ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے ، فرسٹ ایڈ کے بعد ان کی مستقل بحالی کے لیے بھی ہمیں سوچنا ہوگا اور اس کی فکر کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter