اسلامی احکام و مسائل اور آج کی دنیا

   
۱۶ فروری ۲۰۰۹ء

اس دفعہ سہ ماہی امتحان کی تعطیلات کے موقع پر تین دن کے لیے کراچی حاضری کا پروگرام بنا تو میں نے یہ سوچ کر کہ کبھی کبھار کراچی آنے کا موقع ملتا ہے بہت ٹائٹ قسم کا شیڈول بنا لیا، بہت سے دوستوں کے تقاضے جمع تھے، میں نے سب کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی لیکن پہلی بار اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ’’من بعد قوۃ ضعفاً و شیبۃ‘‘ کی عملی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ کہنے کو تو میں نے وہ شیڈول جیسے کیسے بنا لیا لیکن واپسی پر خود کو پہلی کیفیت پر واپس لانے میں ایک ہفتہ لگ گیا اور اب اس پوزیشن میں آیا ہوں کہ قارئین کے ساتھ رابطہ بحال کرنے کے لیے قلم کو حرکت دے سکوں۔ میں قمری حساب سے اپنی زندگی کے ۶۳ ویں سال سے گزر رہا ہوں اور اب ’’سٹھیانے‘‘ کا مفہوم دھیرے دھیرے سمجھ میں آنے لگا ہے۔

میں ۲ فروری گزار کر رات ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) پہنچا اور ۶ فروری کو صبح آٹھ بجے کی فلائٹ سے لاہور واپس آیا۔ اس دوران روزانہ صبح نماز فجر کے بعد جامعہ انوار القرآن کے درجہ تخصص کے طلبہ سے کم و بیش ایک گھنٹہ نشست ہوتی رہی جس میں انہیں امام ولی اللہ دہلویؒ کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ کے مقدمہ کے مضامین سے روشناس کرانے کی کوشش کی۔ منگل کو ظہر تا عصر، بدھ کو دس سے بارہ اور پھر ظہر تا عصر اور جمعرات کو ظہر تا عصر جامعہ دارالعلوم کورنگی میں تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے شرکاء کے ساتھ چار نشستیں ہوئیں اور حجۃ اللہ البالغہ کے ’’باب الارتفاقات‘‘ کے مضامین کا خلاصہ ان کی خدمت میں پیش کیا۔ بدھ اور جمعرات کو مجلس صوت الاسلام کلفٹن کے زیر اہتمام عصر سے عشاء تک روزانہ دو دو نشستیں ہوئیں اور شرکائے محفل سے نفاذ شریعت کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں اور علماء کرام کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے گفتگو ہوتی رہی۔ جبکہ منگل کو رات جامعہ فاروقیہ میں مولانا ولی خان المظفر کی دعوت پر تخصص فی الادب اور تخصص فی الحدیث کے شرکاء کے ساتھ کچھ رسمی اور کچھ غیر رسمی بات چیت کا ایک دور چلا اور ’’ختامہ مسک‘‘ کے طور پر میں نے دورہ کی آخری شب یعنی شب جمعہ جامعۃ الرشید میں گزاری جہاں حضرت مفتی صاحب اور دیگر حضرات سے متعدد امور پر تبادلہ خیال ہوا اور وہیں سے نماز فجر کے بعد ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔

حجۃ اللہ البالغہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی معرکۃ الآراء تصنیف ہے جس میں انہوں نے احکام شرعیہ کی عقلی حکمتوں اور سماجی مصلحتوں پر بحث کی ہے اور آنے والے دور کے علماء کرام کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین پیش کرتے ہوئے ان کے پس منظر اور عقلی توجیہات کے ساتھ ساتھ ان کے سماجی مصالح و منافع سے بھی لوگوں کو آگاہ کریں۔ حضرت شاہ صاحب کے نزدیک جہاں قرآن کریم کے اعجاز کا ایک بڑا اظہار اس صورت میں تھا کہ فصاحت و بلاغت میں اس کے معیار کا کوئی کلام پیش کرنا نسل انسانی میں کسی کے بس کی بات نہیں وہاں یہ بھی قرآن کریم کے اعجاز ہی کا اظہار ہے کہ انسانی سوسائٹی کے لیے قرآن کریم اور سنت نبویؐ میں جو قوانین، ضوابط اور احکام و مسائل بیان کیے گئے ہیں، نسل انسانی کے لیے ان سے زیادہ مفید اور نفع بخش احکام و قوانین پیش کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اسی طرز پر اسلامی عقائد و اعمال، عبادات، اخلاقیات اور سیاست و جہاد کے ابواب کے حوالہ سے گفتگو فرمائی ہے اور اگر اسے توجہ کے ساتھ ایک بار پڑھ لیا جائے تو انسانی نظاموں اور قوانین پر شریعت اسلامیہ کی بالادستی شعوری طور پر ذہنوں میں آجاتی ہے اور آج کے دور میں جبکہ نظاموں، ازموں اور قانونی ضابطوں کو افادیت و مصلحت ہی کے حوالہ سے دیکھا جاتا ہے، اسلام کے نظام و قوانین کو پیش کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں یہ کتاب دورۂ حدیث کے نصاب کا باضابطہ حصہ ہے، ہمارے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے ایک عرصہ تک یہ کتاب اپنے مخصوص ذوق کے مطابق مزے لے لے کر پڑھائی ہے اور ان کے بعد یہ خدمت میرے سپرد ہے، لیکن نہ تو ذوق و استعداد کی وہ کیفیت باقی رہی ہے اور نہ ہی دورۂ حدیث کے طلبہ کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے اب ہمارے ہاں بھی حجۃ اللہ البالغہ کے صرف چند ابواب کا ہی درس ہوتا ہے جس سے اتنا ہو جاتا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ذوق اور تعلیمات سے کچھ طلبہ مانوس ہو جاتے ہیں اور اگر وہ اس ذوق میں آگے بڑھنا چاہیں تو انہیں اس کے لیے ایک اساس میسر آجاتی ہے۔ کراچی کے تعلیمی ماحول میں بہت سے طلبہ اور علماء کا یہ ذوق دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی، خدا کرے کہ جہاں ہمارے تعلیمی اداروں میں بہت سے دیگر مضامین میں تخصصات کے شعبے کام کر رہے ہیں وہاں احکام شرعیہ کی حکم و مصالح اور دوسرے نظاموں کے ساتھ ان کے تقابلی مطالعہ و جائزہ کے حوالہ سے بھی تخصص کا کوئی شعبہ قائم ہو جائے کہ آج کے دور میں اس کی ضرورت شاید سب سے زیادہ ہے۔

ایک نشست میں حدیث نبویؐ کی تدریس کے بارے میں گفتگو کا موقع ملا تو میں نے حضرت شاہ صاحبؒ کے اس ذوق کی طرف توجہ دلائی کہ احادیث نبویہ کی تدریس کے دوران دیگر ضروری امور کے ساتھ ساتھ آج کے تناظر میں احکام و مسائل کی عقلی و سائنسی توجیہات اور عصر حاضر کے مسائل پر ان کی تطبیق کو بھی شامل کر لیا جائے تو افادیت میں یقیناً اضافہ ہوگا۔ مثال کے طور پر میں نے عرض کیا کہ ایک حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ ماں کے پیٹ میں جب نطفہ چالیس چالیس دن کے تین مراحل گزار کر ایک وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس میں روح پھونکنے سے پہلے اس کی عمر، رزق اور اس کی سعادت و شقاوت کے معاملات طے ہو جاتے ہیں اور فرشتے کو یہ سب کچھ لکھنے کا حکم ملتا ہے، اس کے بعد روح کا کنکشن جسم کے ساتھ جوڑنے کا آرڈر ہوتا ہے۔ اسے بیان کرتے ہوئے اگر آج کی سائنسی تحقیق کا بھی ذکر کر دیا جائے کہ ہر انسان کی جین میں اس کی زندگی کا پورا پروگرام فیڈ ہوتا ہے اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس جین کے کوڈ تک ان کی رسائی ہو جائے اور اسے پڑھا جا سکے تو انسان کی زندگی کے مختلف مراحل کے بارے میں پیشگی معلومات حاصل کر لینا بھی ممکن ہو جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر عصر حاضر کی مختلف تحقیقات اور علمی پیشرفت کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث نبویہ کو پڑھایا جائے اور جدید تحقیقات کے ساتھ ان کی تطبیق کا ذوق بھی بیدار کیا جاتا رہے تو نہ صرف یہ کہ ارشادات نبویؐ پر ایمان و یقین کو ’’لیطمئن قلبی‘‘ کا درجہ حاصل ہوگا بلکہ آج کی دنیا کے سامنے اسلامی احکام و مسائل کو ان کے ذوق اور نفسیات کے مطابق پیش کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ میں نے اس سلسلہ میں سنت نبویؐ کا حوالہ بھی دیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کی ذہنی سطح اور نفسیات کے مطابق گفتگو فرماتے تھے، مثال کے طور پر مکہ مکرمہ کے سرداروں کا ایک وفد آنحضرتؐ کے پاس آیا تو آپؐ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہیں ایسا کلمہ پیش کر رہا ہوں اگر تم اسے قبول کر لو تو عرب کی بادشاہت تمہارے پاس ہوگی اور عجم بھی تمہارے تابع ہوں گے۔ اس موقع کی مناسبت سے جناب نبی اکرمؐ کے اس ارشاد گرامی کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ وہ سردار تھے اور چودھراہٹ کی زبان کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے تھے اس لیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چودھراہٹ اور سرداری بھی تمہیں اسی دین میں ملے گی اور فی الواقع ایسا ہی ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد قریش نے عرب و عجم پر صدیوں حکومت کی۔

احادیث نبویہؐ کی تدریس کے حوالہ سے میں نے ایک گزارش اور کی کہ امام ابو جعفر طحاویؒ نے، جو احناف کے سب سے بڑے وکیل ہیں اور ان کی کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ ہمارے نصاب میں باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے، اپنی کتاب کی وجہ تصنیف یہ لکھی ہے کہ احکام و مسائل میں فقہاء کے باہمی اختلافات میں ہر ایک کے پاس اپنے قول کے ثبوت کے لیے کوئی نہ کوئی حدیث موجود ہونے کی وجہ سے عام مسلمانوں میں یہ تاثر پھیل رہا ہے اور ملحدین اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ احادیث نبویہؐ میں باہمی تعارض و تناقض ہے، اس تاثر کو دور کرنے کے لیے امام طحاوی نے ہر مسئلہ میں مختلف اور بظاہر متعارض احادیث کا ایک جگہ ذکر کر کے ان میں سے ہر ایک ایک کے الگ الگ محمل کو بیان کیا ہے اور باہمی ترجیحات کی نشاندہی کی ہے تاکہ تعارض و تضاد کا شبہ دور ہو اور ملحدین کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ میرے خیال میں آج بھی اس کی ضرورت ہے بلکہ اب یہ ضرورت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ احادیث نبویہؐ کے بارے میں یہ تاثر پہلے سے زیادہ عام ہو رہا ہے اور ملحدین کو احادیث نبویہؐ کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ اس لیے امام طحاوی کے اس ذوق کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے کہ احادیث نبویہ کی تدریس و تعلیم بلکہ ان کا عمومی بیان بھی اس انداز سے ہو کہ اس سے اختلافات کے زیادہ اجاگر ہونے کی بجائے ان میں باہمی تطبیق دے کر اور انہیں الگ الگ محل پر محمول کر کے تطبیق اور ترجیح کے پہلو کو نمایاں کیا جائے۔

الغرض کراچی میں تین دن بحمد اللہ تعالیٰ بہت مصروف گزرے اور مختلف علماء کرام سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کا موقع ملا، اللہ تعالیٰ قبولیت و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter