الشریعہ اکادمی ہاشمی کالونی گوجرانوالہ میں کچھ عرصہ قبل تک فکری نشستوں کا سلسلہ چلتا رہا ہے، کرونا کے باعث تعطل ہوا تو وقفہ زیادہ ہو گیا۔ اس سال پھر سے ان کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ہر پیر کو مغرب کی نماز کے بعد ہفتہ وار فکری نشست ہوتی ہے، اس سال کا عنوان ’’برصغیر کی دینی و ملی تحریکات‘‘ طے پایا ہے۔ گزشتہ سوموار ۲۲ مئی ۲۰۲۳ء کو جو گزارشات پیش کی گئیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ نشست میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی جدوجہد کے بارے میں کچھ معروضات آپ حضرات کے گوش گزار کی تھیں جن کا ایک حصہ اکبر بادشاہ کے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے بارے میں تھا کہ اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے مختلف مذاہب کی تعلیمات کا جو ملغوبہ متعارف کرایا تھا اور جو اس کی شاہانہ طاقت اور دبدبہ کے باعث کچھ حلقوں میں چلتا بھی رہا ہے۔ اس کے جانشین جہانگیر بادشاہ کے دور میں اس کے خلاف حضرت مجدد الف ثانیؒ نے منظم اور مربوط محنت فرمائی اور انتہائی صبر آزما جدوجہد کے بعد بالآخر اسے منظر سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے۔ حتٰی کہ اس کے لیے انہیں کچھ عرصہ گوالیار کے قلعہ میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
آج اس جدوجہد کے حوالے سے عام طور پر پائی جانے والی ایک غلط فہمی کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس سلسلہ میں یہ بات کہہ دی جاتی ہے کہ اکبر کے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے خلاف جدوجہد میں حضرت مجدد الفِ ثانیؒ تنہا تھے اور اکبر بادشاہ کے جاہ و جلال کے باعث باقی پورے ملک میں خاموشی کی کیفیت تھی۔ یہ بات درست نہیں ہے، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ میں اس سوال کا جائزہ لے کر اس دور کے ایسے بزرگوں کا تذکرہ کیا تھا جنہوں نے اس دور میں نئے اور خودساختہ دین کو نہ صرف قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس کے لیے قربانیاں بھی دیں۔ ان میں کچھ بزرگوں کا مختصر تذکرہ آج کی محفل میں کرنا چاہوں گا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی جدوجہد کا دور جہانگیر بادشاہ کا زمانہ ہے، جبکہ اس سے قبل خود اکبر بادشاہ کے دور میں اور اس کے اپنے ماحول میں ایسے سرکردہ علماء کرام اور دیگر طبقات کی شخصیات کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے، مثلاً
- شیخ محمد ابراہیم محدث اکبر آبادیؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ خود اکبر بادشاہ نے انہیں شاہی عبادت خانہ میں دعوت دی تو انہوں نے نہ صرف شاہی آداب پر عمل کرنے سے گریز کیا، یعنی سجدہ تعظیمی نہیں کیا بلکہ اپنے وعظ میں دینی احکام و مسائل کی دوٹوک وضاحت فرمائی جس پر اکبر بادشاہ کی ناگواری کا ذکر بھی ملتا ہے۔
- اجمیر شریف کے بزرگ شیخ حسین اجمیریؒ کے بارے میں مذکور ہے کہ اکبر بادشاہ اجمیر آیا تو انہوں نے نہ صرف اس پر ناگواری کا اظہار کیا بلکہ اس موقع پر اجمیر چھوڑ کر چلے گئے۔ جس پر اکبر بادشاہ نے ان کے دربار کی تولیت کے اختیارات ختم کر دیے اور وہ کچھ عرصہ حجازِ مقدس میں جا کر رہے۔ واپسی پر بھی انہوں نے سجدۂ تعظیمی سے انکار کر دیا جس پر انہیں گرفتار کر کے بھکر قلعہ میں قید کر دیا گیا۔
- شیخ سلطان تھانیریؒ نے شاہی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گائے ذبح کی جس پر انہیں جلاوطن کر دیا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی۔
- شہباز خاں کمبوہ بڑا سردار تھا اور اکبر کے ساتھیوں میں سے تھا۔ اس نے ڈاڑھی کٹوانے سے انکار کر دیا اور شراب نوشی کی محفل میں شراب پینے سے گریز کیا۔ اس کا ایک واقعہ یہ بھی مذکور ہے کہ ایک روز اکبر بادشاہ کے ساتھ مغرب کے وقت چہل قدمی کر رہا تھا اور دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے، مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو شہباز خاں نے بادشاہ سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہیں چادر بچھا لی اور نماز ادا کی۔
- اُچ شریف کے شیخ عبد القادرؒ بھی بادشاہ کے ساتھیوں میں سے تھے، بادشاہ نے ایک موقع پر انہیں افیون پیش کی تو انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا جس پر بادشاہ ناراض ہو گا۔ ایک روز بادشاہ نے ان سے کہا کہ آپ شاہی عبادت خانہ میں صرف فرض نماز پڑھا کریں نوافل وغیرہ گھر جا کر پڑھیں، انہوں نے کہا کہ میں اللہ کے گھر میں کسی اور کا حکم نہیں مانتا، بادشاہ کی ناراضگی بڑھنے لگی تو وہ اس کا دربار چھوڑ کر اُچ شریف واپس چلے گئے۔
- شیخ عبد القادر لاہوریؒ بھی اسی مزاج کے بزرگ تھے، وہ بھی بادشاہ کی ناراضگی کے باعث ہجرت کر کے حجاز مقدس چلے گئے۔
- مرزا عزیز الدین دہلویؒ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اکبر بادشاہ کا درباری ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا رضاعی بھائی بھی تھے۔ انہیں حق گوئی کی پاداش میں صوبہ گجرات کی گورنری سے معزول کر دیا گیا۔
- شیخ منور عبد المجید لاہوریؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی حق گوئی پر ان کے مال اور املاک کو ضبط کر لیا گیا حتٰی کہ ان کا کتب خانہ بھی جلا دیا گیا اور انہیں آگرہ میں قید کر دیا گیا۔
ہم اس کالم میں اس سے قبل ایک موقع پر دلا بھٹی شہیدؒ کے بارے میں بھی بعض تاریخی حوالوں سے لکھ چکے ہیں کہ اس سے اکبر بادشاہؒ کی ناراضگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس نے اسے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، اسے پھانسی دی گئی اور جہاں آج کل لاہور کا بھاٹی چوک ہے وہاں حضرت میاں میرؒ نے اس کا جنازہ پڑھایا تھا اور یہ چوک اس کے نام سے بھاٹی چوک کہلاتا ہے۔
یہ چند تذکرے اس مغالطہ کو دور کرنے کے لیے سامنے لائے گئے ہیں کہ اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دینِ الٰہی‘‘ کے خلاف جدوجہد صرف حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کی تھی اور باقی علماء و مشائخ خاموش رہے۔ البتہ اس جدوجہد کو مربوط اور منظم شکل حضرت مجدد الف ثانیؒ نے دی اور بالآخر اس جھوٹے دین کا دبدبہ ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کی روایات کی پیروی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔