نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ الہ واصحابہ و اتباعہ اجمعین۔
خلافتِ عثمانیہ کے اضمحلال اور بتدریج خاتمہ سے امتِ مسلمہ کو جن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ان میں فکری و علمی ماحول میں مرکزیت اور اجتماعیت کا کمزور ہوتے چلے جانا بھی شامل ہے کہ ایک طرف فقہ و شریعت اور دینی فکر تطبیق و تنفیذ کے دائرہ سے نکل کر محض نظری اور فقہی مباحث میں سمٹ گئی، اور اجتماعی عملیت کی جگہ گروہی، طبقاتی اور علاقائی رجحانات آگے بڑھتے گئے۔ خلافتِ عثمانیہ اور اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور کی مغل بادشاہت نے وقت کے تقاضوں اور عرف و تعامل کے سماجی ارتقا کے حوالے سے فقہی و قانونی احکام و ضوابط کو ’’الاحکام العدلیۃ‘‘ اور ’’الفتاوٰی الہندیہ‘‘ کی صورت میں منضبط کرنے کی جو خدمت سرانجام دی تھی اگر اس کا تسلسل جاری رہتا تو امتِ مسلمہ فکری خلفشار اور علمی و فقہی تشتت کے بہت سے پہلوؤں سے بچ سکتی تھی، مگر اس کے فقدان اور اس کے ساتھ مغربی فکر و فلسفہ اور تہذیب و معاشرت کی مسلم معاشروں میں پیش قدمی نے ہمارے علمی و ثقافتی ماحول کو اس حد تک ضرور متاثر کیا کہ اس سے قبل جو فقہی، فکری اور علمی مباحث اجتماعیت کو تقویت اور فروغ دینے کا ذریعہ بنتے تھے ان کا رخ تبدیل ہو گیا اور ان مباحث کا کچھ حصہ منفی کردار کا حامل بنتا چلا گیا۔
یہ بحثیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ہمارے علمی ماضی کا ہر دور ایسے مباحث اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے مگر عملیت اور تطبیق و نفاذ کا راستہ بند ہو جانے سے وہ صرف بحث و مباحثہ کی جولانگاہ بن کر رہ گئے۔ یہ اسلام کا اعجاز اور شریعتِ اسلامیہ کی صداقت کا اظہار ہے کہ ملتِ اسلامیہ کا علمی ذخیرہ، فقہی اجتہادات اور فکری مباحث تاریخ کے ریکارڈ میں پوری ثقاہت و استناد کے ساتھ موجود و محفوظ ہیں جبکہ ان مباحث کے ساتھ امت کے اصحابِ علم بالخصوص حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فقہائے اسلام کی عملی زندگیاں بھی تاریخ نے محفوظ رکھی ہوئی ہیں، جس نے نوآبادیاتی دور میں امت مسلمہ کو اس کے اجماعی تعامل اور روایات کے حصار میں رکھنے کے لیے ناقابل شکست پشتہ کا کام دیا اور فکری انتشار اور فقہی بے اعتمادی کی ہر تحریک اس پشتے سے ٹکرا کر بکھر جانے پر مجبور ہو گئی۔
اس ماحول میں آج بہت سے مسلم ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلم معاشرے میں اسلامی شریعت کی عملی واپسی کے لیے فکر و فلسفہ، فقہ و شریعت، اور تہذیب و ثقافت کے ہر دائرہ میں ایسے علمی و فکری مباحث کی ضرورت ہے جو آج کے سماجی تقاضوں اور مستقبل کے امکانات و مواقع کو ماضی کے اس علمی ورثہ کے ساتھ منسلک رکھنے اور ارتقا کے تقاضوں کی فقہ و شریعت کے ساتھ تطبیق و توفیق کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی خدمت سرانجام دے۔ چنانچہ بہت سے اصحابِ فکر و دانش کو اپنے اپنے دائرہ میں اس مقصد کے لیے مصروف دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جبکہ ہمارے فاضل دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق کی علمی سرگرمیوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت کی اس ضرورت کا ادراک رکھتے ہیں اور اس کی تکمیل میں اپنا حصہ حوصلہ و تدبر کے ساتھ شامل کر رہے ہیں۔ ان کے ہر نتیجۂ فکر سے اتفاق ضروری نہیں ہے مگر اطمینان و تسلی کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ایک معروف علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، متعلقہ علوم و افکار پر انہیں دسترس حاصل ہے اور ان کی تحریروں کا رخ مسائل کو الجھانے کی بجائے سلجھانے کی طرف ہوتا ہے، جو میرے جیسے فکرمندوں کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے، ان کے ’’مقالاتِ شریعت‘‘ ان کے اسی ذوق کا آئینہ دار ہیں، دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ان کی اس کاوش کو قبولیت و رضا سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نفع بخش بنائیں، آمین یا رب العالمین۔