شیخ الازہر کی خدمت میں!

   
تاریخ : 
۴ دسمبر ۲۰۱۴ء

عالم اسلام کے قدیم علمی مرکز جامعہ ازہر قاہرہ میں ۳،۴ دسمبر کو ’’مواجھۃ التطرف والارھاب‘‘ (دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ) کے عنوان پر دو روزہ عالمی کانفرنس ہوئی جس میں مختلف ممالک کے سرکردہ علماء کرام شریک ہوئے۔ جامعہ کے سربراہ شیخ الازہر معالی الدکتور الشیخ احمد الطیب حفظہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے راقم الحروف کو بھی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا، مگر بعض وجوہ کے باعث میں سفر کا پروگرام نہیں بنا سکا، البتہ شیخ الازہر محترم کے نام ایک عریضہ میں اس موضوع کے حوالہ سے اپنے تاثرات و احساسات انہیں بھجوا دیے۔ اس عریضہ کا اردو متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

باسمہ سبحانہ
عزت مآب الشیخ الفاضل المحترم احمد طیب صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ
رئیس الجامعۃ الازہر الشریف، قاہرہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟

۳،۴ دسمبر ۲۰۱۴ء کو الازہر الشریف میں ’’مواجھۃ التطرف والارھاب‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے دو روزہ مؤتمر میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ یاد فرمائی کا تہہ دل سے شکریہ! میرے لیے اس مؤتمر میں حاضری سعادت و برکت کی بات ہوتی، مگر وقت کی کمی اور دیگر طے شدہ مصروفیات کے باعث اس سعادت سے محروم رہوں گا جس پر صمیم قلب سے معذرت خواہ ہوں والعذر عند کرام الناس مقبول۔

البتہ اس شرکت سے کلیۃً محروم رہنے کو بھی جی نہیں چاہتا، اس لیے مؤتمر کے عمومی موضوع کے حوالہ سے اپنے کچھ تاثرات اور گزارشات تحریری طور پر بھجوانے کی جسارت کر رہا ہوں، اس امید پر کہ غور و فکر کے کسی گوشہ میں شاید ان کو بھی کچھ جگہ میسر آجائے۔

تاریخ کے طالب علم اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے شعوری کارکن کے طور پر الازہر الشریف کی خدمات اور مقام و مرتبہ سے کچھ نہ کچھ آگاہ ہوں اور ایک موقع پر حاضری کی سعادت حاصل ہونے کی وجہ سے ازہر کے علمی و فکری ماحول سے بھی کسی حد تک مانوس ہوں۔ مجھے اکتوبر ۱۹۸۸ء کے دوران لندن جاتے ہوئے چند روز قاہرہ میں گزارنے کا موقع ملا تھا اور شیخ الازہر معالی الدکتور جاد الحق علی جاد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کے لیے الازہر الشریف میں حاضری دی تھی، مگر وہ تشریف فرما نہیں تھے، اس لیے نفاذ شریعت کے حوالہ سے چند علمی و فکری سوالات مکتب الازہر کے سپرد کیے تھے جن کے جوابات معالی الدکتور مرحوم نے ۲ نومبر ۱۹۸۸ء کو تحریر فرما کر ارسال کیے تھے اور ہم نے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے آرگن ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی اشاعت کا آغاز اکتوبر ۱۹۸۹ میں ان کے اسی وقیع علمی مقالہ سے کیا تھا۔ ’’الشریعہ‘‘ بحمد للہ تعالیٰ اس وقت سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اور نفاذ شریعت کی علمی و فکری جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہ مجلہ اردو زبان میں شائع ہوتا ہے اور ویب سائٹ www.alsharia.org پر بھی پڑھا جاتا ہے۔

عالی مرتبت! ارہاب اور تطرف بلا شبہ آج کی دنیا کا اہم ترین مسئلہ ہے جس نے نہ صرف امن عالم کے لیے شدید خطرات پیدا کر دیے ہیں بلکہ امت مسلمہ بھی اس کی وجہ سے متنوع مشکلات و مسائل سے دوچار ہوگئی ہے۔ اس صورت حال میں امت مسلمہ کی صحیح سمت راہ نمائی کرنا علماء اسلام کی اہم ترین ذمہ داری ہے اور ’’الازھر الشریف‘‘ کا یہ مؤتمر یقیناً اس سلسلہ میں اہم پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر میری گزارش ہے کہ ارہاب اور تطرف کی معروضی صورت حال کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس کے پس منظر اور اسباب و عوامل پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے، کیونکہ موجودہ صورت حال اچانک نمودار نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی وقتی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے، بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کی فکری، علمی اور تہذیبی کشمکش کارفرما ہے جسے سامنے رکھے بغیر نہ تو موجودہ صورت حال اور معروضی حقائق تک صحیح طور پر رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے علاج اور اصلاح کے لیے درست حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے۔

علماء اسلام امت کے اطباء ہیں اور سمجھدار طبیب کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بیماری کے اسباب معلوم کرتا ہے، اس کی مرحلہ وار تدریج پر نظر رکھتا ہے، اس کی جڑوں کو تلاش کرتا ہے اور بیماری کا علاج کرنے سے قبل اس کے اسباب کے راستے بند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ اسباب کی پیدائش اور افزائش کو روکے بغیر صرف وقتی علاج کرتے چلے جانے سے وقت کے ضیاع اور بیماری میں اضافے کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

عزت مآب ! میں یہ عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ ارہاب اور تطرف کی موجودہ شکل در اصل مغربی استعمار کے اس مسلسل طرز عمل کا فطری رد عمل ہے جو وہ کئی صدیوں سے عالم اسلام اور امت مسلمہ کے بارے میں اختیار کیے ہوئے ہے اور جس کی سنگینی اور شدت میں کمی کی بجائے آج بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی استعمار کے اس مسلسل طرز عمل کے سیاسی، معاشی، اور سائنسی پہلوؤں سے قطع نظر کرتے ہوئے اس وقت صرف چند دینی، فکری اور ثقافتی دائروں کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھوں گا جو یقیناً آپ جیسے اصحاب علم و دانش کی نظر میں ہیں، مگر میں یاد دہانی کے ثواب سے محروم رہنا پسند نہیں کرتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ:

  • مغرب نے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے معاشرتی کردار کی نفی کرتے ہوئے جو فلسفہ زندگی متعارف کرایا ہے، وہ اسے انسانی معاشرت کا قطعی اور آخری معیار قرار دے کر پوری دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے اور خاص طور پر عالم اسلام میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین اور مسلمانوں کی معاشرتی روایات و اقدار اس کی مخالفانہ مہم اور معاندانہ پروپیگنڈہ کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔
  • مغرب نے جن وجوہ اور اسباب کے باعث اپنے خاندانی نظام کو خود اپنے ہاتھوں سبوتاژ کر لیا ہے، وہی وجوہ اور اسباب مسلم معاشروں میں عام کرنے کے لیے مغربی طاقتوں کی توانائی اور وسائل بے محابہ استعمال ہو رہے ہیں۔
  • عالم اسلام میں ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کا منظم منصوبہ بندی کے ساتھ خاتمہ کرنے کے بعد خلافت کے دوبارہ قیام اور شریعت اسلامیہ کے نفاذ کے ہر امکان کو روکنے کے مسئلہ کو مغرب نے موت و حیات کا مسئلہ بنا لیا ہے اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ غالب مسلم اکثریت رکھنے والے کسی ملک کو بھی اپنے ماحول میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کا حق دینے سے صاف انکار کیا جا رہا ہے، صرف اس لیے کہ مغرب کے خود ساختہ فلسفہ و ثقافت کے لیے وہ قابل قبول نہیں ہے۔
  • اقوام متحدہ کے نام پر عالمی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے جو نظام قائم کیا گیا ہے، اس میں اسلام اور مسلمانوں کے تشخص اور امتیاز کو کسی شعبہ میں اور کسی سطح پر قبول نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے دنیا کی آبادی کا کم از کم پانچواں حصہ اس نظام میں اپنے مذہبی اور ثقافتی تشخص و امتیاز سے محروم ہے، جبکہ اقوام متحدہ کی پالیسی سازی اور انتظامی کنٹرول میں بھی مسلم امہ کا سرے سے کوئی کردار موجود نہیں ہے۔
  • مغرب نے سوڈان اور انڈونیشیا میں تو اپنے مفادات کے تحت مذہبی بنیاد پر ریفرنڈم کے ذریعہ ملک کی تقسیم اور آزاد مسیحی ریاستوں کی تشکیل کی راہ ہموار کرلی ہے، مگر فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو یہ حق دینے میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔
  • سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مغرب کی اپنی ضرورت تھی تو افغانستان میں عسکریت پسندی جہاد کا درجہ رکھتی تھی اور اسے سیاسی، مالی، اخلاقی اور فوجی ہر لحاظ سے مکمل سپورٹ فراہم کی گئی تھی، مگر اس عسکریت نے جب امریکہ سے وہی مطالبہ کیا جس مطالبے پر اس نے روس سے جنگ لڑی تھی تو جہاد نے اچانک دہشت گردی کا عنوان اختیار کر لیا اور فریڈم فائٹرز سب کے سب راتوں رات دنیا کے لیے خطرہ بن گئے۔

عالی مرتبت ! اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے مسلسل طرز عمل کے صرف چند تکلیف دہ پہلوؤں کا میں نے ذکر کیا ہے۔ اس فہرست کو بہت طویل کیا جا سکتا ہے مگر نمونے کے لیے شاید یہی کافی ہیں۔ میں انتہائی دکھ اور معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ اس صورت حال میں ہم علماء کرام نے امت مسلمہ کو عملی طور پر راہ نمائی فراہم کرنے میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا۔ ہم نے خود کو دین کے چند دائروں تک محدود کر کے امت مسلمہ کو انہی گروہوں اور طبقات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے جن کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی خود مغرب نے کی ہے اور وہ امت مسلمہ کو الجھنوں سے نجات دلانے کی بجائے ان الجھنوں کو مزید پیچیدہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔

میرے مخدوم! آج مسلم نوجوان کی زبان سے خلافت کا نعرہ سن کر اور اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف دیکھ کر مجھے غصہ آرہا ہے، لیکن مجھے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اسے خلافت کے قیام کے غلط طریق کار سے روکنے سے قبل میں نے قیام خلافت کے صحیح طریق کار کی طرف اس کی راہ نمائی کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟

ہم درسگاہ میں نئی نسل کو یہ سبق دیتے ہیں اور منبر رسولؐ پر مسلمان عوام کو یہ بتاتے ہیں کہ شرعی قوانین پر مسلم معاشرہ میں عمل کرنا ضروری ہے اور خلافت کا قیام مسلم امہ کے واجبات میں سے ہے، تو اس کے لیے صحیح طریق کار کی طرف راہ نمائی بھی ہماری ذمہ داری ہے، بلکہ علماء کرام کا کام صرف راہ نمائی کرنا نہیں بلکہ عملی قیادت بھی انہی کے کرنے کا کام ہوتا ہے۔

شیخ محترم! میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں اور اپنی تحریر و تقریر میں اس کا مسلسل ذکر کرتا رہتا ہوں کہ خلافت کا قیام تشدد اور عسکریت کے ذریعہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کے عمومی اعتماد کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کسی مسلمان ملک میں نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانا درست نہیں ہے بلکہ رائے عامہ کی قوت کے ساتھ اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہی موجودہ حالات میں زیادہ مؤثر اور قابل عمل ہے۔ لیکن یہ بات بھی میرے سامنے ہے کہ ہم علماء کرام مسلم عوام اور نئی نسل کو آدھی بات بتاتے ہیں اور آدھی بات گول کر جاتے ہیں۔ ہم یہ تو بتاتے ہیں کہ یہ طریق کار غلط ہے، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کون سا طریق کار صحیح ہے اور اس کے لیے ہم امت کی کیا راہ نمائی کر سکتے ہیں۔

میں خود کو اس میں پوری طرح شامل سمجھتے ہوئے عرض کروں گا کہ تطرف اور ارہاب کی موجودہ مکروہ اور مذموم شکل کے پیچھے خود ہمارا یعنی علماء کرام کا طرز عمل بھی کار فرما ہے، اس لیے ہمیں خود اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اور امت مسلمہ کی مجموعی صورت حال، مشکلات، تقاضوں اور عالم اسلام کی فکری، علمی اور تہذیبی ضروریات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر خود کو اور خاص طور پر ان لوگوں کو جنہیں مستقبل قریب میں علمی و دینی راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے ہم تیار کر رہے ہیں، اس حوالہ سے شعوری راہ نمائی اور بیداری کا ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ ورنہ شاید ہم عند اللہ اور عند الناس سرخرو نہیں ہو سکیں گے۔

آج جس دنیا کو مسلمانوں کے ماحول میں تطرف اور ارہاب کے فروغ کا شکوہ ہے، وہ اس تطرف اور ارہاب کے اسباب فراہم کرنے اور اس کا ماحول قائم کرنے میں پوری طرح شریک رہی ہے۔ عجیب بات ہے کہ تطرف اور ارہاب کا ماحول قائم کرنے میں تو سب شریک ہیں مگر اسے ختم کرنے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر بلکہ صرف علماء کرام اور اہل دین پر ڈالی جا رہی ہے۔ ہمیں دنیا کے اس دوھرے معیار کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا اور تطرف اور ارہاب کے سدباب کے لیے حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، ورنہ ہم امت مسلمہ کے ساتھ بلکہ خود اپنے ساتھ بھی انصاف نہیں کر پائیں گے۔

عالی مرتبت! مجھے احساس ہے کہ میرا لہجہ اور طرز تحریر شاید سخت ہوگیا ہے، اس لیے تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں، اور درخواست کر رہا ہوں کہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے میری گزارشات اور احساسات پر ضرور غور کر لیا جائے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ الازہر الشریف کے اس وقیع مؤتمر کو امت مسلمہ کی صحیح سمت راہ نمائی کا مؤثر ذریعہ بنائیں۔آمین یا رب العالمین۔

شکریہ! والسلام
ابوعمار زاہد الراشدی
سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل
ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ
یکم دسمبر ۲۰۱۴ء
   
2016ء سے
Flag Counter