روزنامہ جنگ لاہور ۱۵ ستمبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان میں پانچ برس تک جنگ لڑنے والے روسی کرنل یوری شامانوف کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ افغانستان سے جنگ نہ لڑے، یہ ان کے لیے ویتنام سے دس گنا زیادہ تباہ کن ملک ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لڑنے کے لیے افغانستان جانے والے امریکیوں، ان کی ماؤں، بہنوں اور بھائیوں پر ترس آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پہاڑ عظیم پناہ گاہیں ہیں، میزائل افغانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اگر امریکی افغانستان گئے تو افغانوں کو لڑائی کے لیے تیار پائیں گے، انہوں نے روس کے خلاف تباہ کن جنگ لڑی اور بہت اچھی طرح لڑے۔
ہمیں یاد پڑتا ہے کہ جب روس نے افغانستان میں فوجیں اتاری تھیں اور افغان عوام نے ان کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا تھا تو برطانیہ کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے بھی اس قسم کا مشورہ روسی لیڈروں کو دیا تھا، اور خود ماسکو جا کر روسی قائدین سے کہا تھا کہ وہ افغانوں سے پنجہ آزمائی نہ کریں اور ہمارے تجربہ سے فائدہ اٹھائیں۔ کیونکہ برطانوی استعمار نے بھی برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرنے کے بعد افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے فوجیں بھیجی تھیں مگر انہیں عبرتناک شکست ہوئی تھی، حتٰی کہ ایک معرکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف ایک برطانوی فوجی زندہ بچ کر واپس آیا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کے عبرتناک حشر سے برطانوی افسران کو آگاہ کیا تھا۔ اور پھر برطانیہ عظمٰی نے افغانستان سے جنگ جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر کے افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کر لیا تھا۔
ہمارا خیال ہے کہ جس طرح روسی لیڈروں نے برطانیہ کے مشورہ کو قبول نہیں کیا تھا اور ان کے تجربہ پر قناعت کرنے کی بجائے خود تجربہ کرنا ضروری سمجھا تھا، اسی طرح امریکی لیڈر بھی شاید برطانیہ اور روس کے تجربہ پر اکتفا نہ کریں اور اپنا الگ تجربہ کرنا چاہیں۔ وہ خود کو دنیا کی واحد سپرپاور سمجھتے ہیں اور اپنا نفع و نقصان خود بہتر سمجھتے ہیں، اس لیے ان سے اس سے زیادہ کیا عرض کیا جا سکتا ہے ؎