قرآن کریم اور دستور پاکستان

   
جون ۲۰۱۰ء

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اس وقت حکومت اور حکمرانوں کے حوالے سے بہت سے مقدمات زیر سماعت ہیں اور اس سلسلہ میں عدالت میں پیشی سے صدر اور وزیراعظم کی استثنا پر ملک بھر میں بحث و تمحیص جاری ہے۔ ایک جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلامی روایات و تعلیمات کے مطابق حاکم وقت بھی اسی طرح عدالت کے سامنے پیش ہونے کا پابند ہے جس طرح رعیت کے دوسرے لوگ پابند ہیں، جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہو کر اس کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف سے اس بات پر دلائل دیے جا رہے ہیں کہ حاکم اعلیٰ کی عدالت میں پیشی سے استثنا ضروری اور مستحسن ہے۔ اس پس منظر میں وفاقی وزیر اطلاعات محترمہ فوزیہ وہاب نے یہ کہا ہے کہ حضرت عمرؓ عدالت میں اس لیے پیش ہو گئے تھے کہ اس وقت صرف قرآن تھا اور کوئی دستور موجود نہیں تھا۔ اب چونکہ دستور موجود ہے اس لیے صدر اور وزیر اعظم عدالت میں پیش ہونے سے مستثنیٰ ہیں۔ اس پر اخبارات میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے جس میں دن بدن تیزی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔

ہم اس وقت اس مسئلہ کے صرف ایک پہلو کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری خیال کر رہے ہیں کہ کیا قرآن کریم خود کسی اسلامی ریاست کے لیے دستور کی حیثیت نہیں رکھتا اور کیا قرآن کریم کو ریاست و مملکت کے تمام معاملات میں بالادستی حاصل نہیں ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی امت کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ ’’اپنے حکمران کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ تمھارے معاملات کو قرآن کریم کے مطابق چلاتا رہے‘‘ (ما یقودکم بکتاب اللہ) تو یہ قرآن کریم کی اسی حیثیت کا اعلان تھا کہ وہ اسلامی ریاست کا دستور ہے اور ریاست و حکومت کے تمام معاملات کا اسی دستور کے دائرے میں رہنا ضروری ہے۔

  1. جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطبے (پالیسی خطاب) میں فرمایا تھا کہ میں تم سے کتاب و سنت کے مطابق چلنے کا وعدہ کرتا ہوں، جب تک میں کتاب و سنت کے مطابق حکمرانی کروں، تم پر میری اطاعت واجب ہے، اور اگر میں قرآن و سنت کی اطاعت سے ہٹ جاؤں تو تم پر میری ضروری نہیں ہے۔ خلیفہ اول نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر اس سے ٹیڑھا ہونے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ اعلان قرآن و سنت کی دستوری حیثیت کا اعلان تھا اور خلافتِ راشدہ کا آغاز قرآن و سنت کو اپنا دستور اور بالاتر قانون تسلیم کرنے کے ساتھ ہوا تھا۔
  2. خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اپنے پہلے خطبے میں یہی اعلان کیا تھا اور اس میں یہ اضافہ فرمایا تھا کہ میں قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ اپنے پیش رو خلیفہ کی روایات بھی قائم رکھوں گا۔
  3. جبکہ خلیفۂ ثالث حضرت عثمانؓ کی خلافت کا فیصلہ کرتے وقت اس کی مجاز اتھارٹی حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے امیر المومنین کی حیثیت سے حضرت عثمان بن عفانؓ کی بیعت ہی اس شرط پر کی تھی کہ ’’ابایعک علی سنۃ اللہ و رسولہ و الخلیفتین من بعدہ‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام) یعنی میں آپ کی بیعت اس شرط پر کرتا ہوں کہ آپ کتاب و سنت کی پیروی کریں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دو خلفاء حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی روایات کی پاسداری کریں گے۔
  4. ان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اپنی حکومت کی بنیاد اسی اصول کو قرار دیا تھا۔

جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن و سنت اور خلفائے راشدین کے فیصلوں کو اسلامی ریاست میں صرف راہنما اصول یا Source of Law (ماخذ قانون) کا درجہ حاصل نہیں ہے بلکہ یہ خود قانون اور دستور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور قرآن و سنت کی اسی اصولی حیثیت سے انکار آج کے دستور سازوں اور قانون سازوں کے ہاتھ میں قرآن و سنت سے انحراف کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

ہمارے ہاں قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی یہ بحث جاری ہے کہ قرآن و سنت خود قانون ہیں یا انہیں صرف ’’سورس آف لا‘‘ کی حیثیت حاصل ہے؟ اور محترمہ فوزیہ وہاب کے اس بیان کے پس منظر میں بھی ہمیں اسی تردد اور ابہام کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن جب ہم بانیٔ پاکستان قائد اعظم جناب محمد علی جناح مرحوم کے ان بیانات و اعلانات کی طرف رجوع کرتے ہیں جو انہوں نے قیامِ پاکستان کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمائے تھے تو ان میں ہمیں اس قسم کا کوئی ابہام نظر نہیں آتا۔ چنانچہ انہوں نے اگست ۱۹۴۴ء میں کانگرسی راہنما جناب گاندھی کو جو تفصیلی خط تحریر کیا، اس میں کہا کہ:

’’قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوج داری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرضیکہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ وہ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات تک، روح کی نجات سے جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک فعل، قول، حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔‘‘

جبکہ اس سے قبل ۱۹۴۳ء میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم یہ فرما چکے تھے:

’’مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کا طرز حکومت متعین کرنے والا میں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو قبل قرآن حکیم نے فیصل کر دیا تھا۔‘‘

قائد اعظم کے بیان کردہ دونوں نکتوں پر غور کر لیجیے:

  1. مسلمانوں کا طرز حکومت تیرہ سو قبل قرآن کریم نے طے کر دیا تھا۔
  2. پاکستان کا طرز حکومت طے کرنا پاکستان میں رہنے والوں کا کام ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ دستوری حیثیت قائد اعظم کے ذہن میں بے غبار اور واضح تھی اور پاکستان کے رہنے والوں نے بھی طویل دستوری جدوجہد کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت میں یہ بات طے کر دی تھی کہ قرآن و سنت کو ملک میں بالاتر حیثیت حاصل ہوگی اور دستور و قانون دونوں کو ان کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ اس لیے محترمہ فوزیہ وہاب اور ان کے ہمنواؤں سے ہماری گزارش ہے کہ وقتی اور گروہی سیاسی مفادات کے لیے قرآن و سنت کی بالاتر اور دستوری حیثیت کو زیربحث لانے سے گریز کریں۔ قرآن و سنت کو خلافتِ راشدہ میں بالاتر درجہ حاصل تھا اور پاکستان کا دستور بھی انہیں بالاتر تسلیم کرتا ہے، اس لیے قرآن و سنت کی اس اصولی حیثیت کے بارے میں تردد اور ابہام پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان، دونوں سے انحراف کے مترادف تصور ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter