کشمیر کا مسئلہ اور شمالی علاقہ جات

   
مارچ ۱۹۹۸ء

روزنامہ پاکستان لاہور نے ۲۰ فروری ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی ہے کہ شمالی علاقہ جات گلگت، سکردو، ہنزہ وغیرہ کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے اور اس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اس سے قبل روزنامہ جنگ لاہور نے گزشتہ دنوں خبر شائع کی تھی کہ وفاقی سطح پر شمالی علاقہ جات کے امور کو وزارتِ امورِ کشمیر سے الگ کر دیا گیا ہے۔

شمالی علاقہ جات بین الاقوامی دستاویزات کے مطابق اس متنازعہ خطہ کا حصہ ہیں جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ابھی تک حل طلب ہے، اور ایک معاہدہ کے تحت حکومتِ پاکستان وزارتِ امورِ کشمیر کے ذریعے اس کا نظام چلاتی آ رہی ہے۔ مگر وقتاً فوقتاً اس خطہ کو پاکستان میں شامل کرنے اور ایک مستقل صوبے کی حیثیت دینے کی تجاویز بھی سامنے آتی رہی ہیں، اور اب پھر اسی طرف پیشرفت متوقع ہے۔ لیکن ملک کے دو حلقوں کی تشویش اس سلسلہ میں خاص طور پر قابلِ توجہ ہے:

مذہبی حلقوں کو یہ تشویش ہے کہ اگر شمالی علاقہ جات کو کشمیر سے الگ کر کے مستقل صوبہ بنایا گیا تو یہ اپنی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے شیعہ صوبہ بنے گا اور اسی وجہ سے آغا خان اس صوبے کے قیام کے لیے ایک عرصہ سے دلچسپی اور سرگرمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ تحریکِ آزادی سے تعلق رکھنے والے کشمیری راہنماؤں کا موقف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے سے پہلے پاکستان نے متنازعہ خطے کے کسی علاقے کو بھی باقاعدہ طور پر اپنے ملک کا حصہ بنا لیا تو بھارت کے لیے اتنی بات کافی ہو گی اور وہ اسے جواز بنا کر تمام معاہدات سے آسانی کے ساتھ منحرف ہو جائے گا۔

اس لیے کشمیری لیڈروں کا یہ مطالبہ ہمارے نزدیک جائز ہے، شمالی علاقہ جات کو پاکستان کا حصہ بنا کر مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر نقصان نہ پہنچایا جائے بلکہ اسے آزاد کشمیر میں شامل کر کے اس خطہ کے لوگوں کو آزاد کشمیر اسمبلی میں نمائندگی دی جائے، اور آزاد کشمیر سپریم کورٹ کا دائرہ شمالی علاقہ جات تک وسیع کر کے مظفرآباد ہائیکورٹ کا بینچ گلگت میں قائم کر دیا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter