اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ۔ مولانا سید سلمان ندوی کے خیالات

   
تاریخ : 
۲۷ دسمبر ۲۰۰۷ء

سلمان ندوی نام کے تین بزرگ اس وقت ہمارے معاصر اہل علم و دانش میں معروف ہیں، تینوں سے بحمد اللہ تعالیٰ مجھے نیاز مندی حاصل ہے اور یہ تینوں ورلڈ اسلامک فورم میں شریک ہیں۔

  1. ایک ڈاکٹر سید سلمان ندوی ہیں جو معروف کتاب ’’سیرت النبیؐ‘‘ کے مصنف علامہ سید سلیمان ندویؒ کے فرزند ہیں، ڈربن یونیورسٹی جنوبی افریقہ میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ رہے ہیں، اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً اسلامی تعلیمات کے حوالے سے لیکچر دیتے رہتے ہیں۔
  2. دوسرے مولانا سید سلمان الحسینی ندوی ہیں جو رشتہ میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے نواسے لگتے ہیں، ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ الحدیث ہیں، اور علمی دنیا میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے جانشین اور نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔
  3. جبکہ تیسرے مولانا سلمان ندوی میرپور ڈھاکہ میں دارالارشاد کے نام سے ایک علمی ادارے کے ذریعے دینی و علمی خدمات میں مسلسل مصروف رہتے ہیں، اور وہ ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فیض یافتہ ہیں۔

یہ تینوں بزرگ مختلف اوقات میں ہمارے پاس الشریعۃ اکادمی گوجرانوالہ تشریف لا چکے ہیں۔ اول الذکر دونوں بزرگ ورلڈ اسلامک فورم کے باقاعدہ سرپرستوں میں شامل ہیں جبکہ ڈھاکہ والے مولانا سلمان ندوی فورم کے نائب صدر ہیں۔

لکھنؤ والے مولانا سید سلمان ندوی کے ساتھ اکثر بیرون اسفار میں رفاقت رہتی ہے، لندن، دوبئی، ڈھاکہ وغیرہ میں ان کے ساتھ متعدد اجتماعات میں شریک ہوا ہوں اور مختلف دینی و علمی امور میں ہم ذوقی سے ہم دونوں حظ اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کی بیعت کا تعلق دنیائے اسلام کے معروف خطاط اور روحانی بزرگ حضرت مولانا سید نفیس الحسینی مدظلہ سے ہے جن کی لاہور میں قائم کردہ خانقاہ سید احمد شہیدؒ طالبانِ سلوک کے لیے مرجع کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ خانقاہ دریائے راوی پر سگیاں پل سے شیخوپورہ کی طرف جاتے ہوئے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر مغربی جانب واقع ہے اور روڈ پر خانقاہ سید احمد شہیدؒ کا ایک چھوٹا سا بورڈ اس سمت جانے والوں کی رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ حضرت شاہ صاحب کچھ عرصہ سے مسلسل صاحب فراش ہیں اور ان دنوں ہسپتال میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے مجھے اچانک معلوم ہوا کہ لکھنؤ والے مولانا سید سلمان ندوی لاہور آئے ہوئے ہیں اور خانقاہ سید احمد شہیدؒ میں قیام پذیر ہیں۔ میں اپنے رفقاء مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، ڈاکٹر فضل الرحمن، اور حاجی محمد لقمان میر کے ہمراہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ رات ہی حضرت شاہ صاحب کی بیمار پرسی کےلیے لاہور پہنچے ہیں اور چند روز قیام کریں گے۔ چنانچہ میری گزارش پر انہوں نے ۱۲ دسمبر کو تھوڑی دیر کے لیے گوجرانوالہ آنا منظور کیا جس پر ہم نے مغرب کے بعد الشریعۃ اکادمی گوجرانوالہ میں علمائے کرام اور دیگر اہل دانش کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر لیا۔

علمائے کرام، پروفیسر صاحبان، وکلاء اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان کا نام سن کر جمع ہوگئی اور مولانا سلمان ندوی نے بھی اس موقع پر مختلف مسائل کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات کا نام ہے اور اسلام کے اس طرح حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے کہ جس بات پر جی چاہا عمل کر لیا اور جسے چاہا نظر انداز کر دیا۔ قرآن کریم ہم سے اس ’’الدین‘‘ کو مکمل طور پر قبول کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جو حضرات انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہوتا رہا ہے اور جس کی مکمل شکل اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل نے اس دین کے حصے بخرے کر دیے تھے، اس طرح کہ وہ توراۃ کے کچھ احکام پر ایمان رکھتے تھے اور کچھ احکام سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ قرآن کریم کے بقول اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت اور رسوائی مسلط کر دی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق قرار پائے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون جس طرح بنی اسرائیل کے لیے تھا ہمارے لیے بھی ہے اور قرآن کریم میں اس کا تذکرہ بھی ہماری رہنمائی کے لیے کیا گیا ہے، اس لیے کہ جناب رسول اللہؐ نے اپنی امت سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ تم لوگ بھی بنی اسرائیل کی قدم قدم پیروی کرو گے حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی شخص گوہ نامی جانور کے سوراخ میں داخل ہوا ہے تو تم بھی ایسا ضرور کرو گے۔ اسی لیے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آج دنیا میں ہمارا جو حال ہے کہیں اسی کا نتیجہ تو نہیں ہے؟

مولانا نے کہا کہ آج ہم نے دین کو صرف عبادات تک محدود کر رکھا ہے اور زندگی کے دیگر شعبے دین سے غیر متعلق سمجھے جا رہے ہیں۔ جبکہ دین نے جہاں عبادات کے طریقے اور ضوابط بتائے ہیں وہاں تجارت، معیشت ، عدالت، سیاست، معاشرت ، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے اصول و قواعد بھی بیان کیے ہیں اور یہ سب دین کا حصہ ہیں۔ مگر آج ان شعبوں کو حتیٰ کہ نکاح، طلاق اور خاندانی زندگی کو بھی دین سے لاتعلق دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کم و بیش اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے خطاب کر کے فرمایا تھا کہ کیا تم کتاب اللہ کے ایک حصے پر ایمان رکھتے ہو اور اس کے دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو؟ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ علمائے کرام بھی جب دین کی بات کرتے ہیں تو صرف عبادات کے حوالے سے کرتے ہیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے بارے میں قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کو لوگوں کے سامنے لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ بات دین کے تصور کو محدود کرنے والی ہے اور دین کے مزاج کے خلاف ہے جس پر بہرحال نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

مولانا سید سلمان الحسینی ندوی نے جس دوسری بات کی طرف زیادہ اہمیت کے ساتھ توجہ دلائی وہ دینی مدارس کا نظام تعلیم اور اس کا محدود دائرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علمائے کرام نے دینی تعلیم کے حوالے سے صرف مساجد اور دینی مدارس کی حدود پر قناعت کر رکھی ہے اور معاشرے کے جن لوگوں کا مسجد و مدرسہ کے ساتھ تعلق نہیں ہے انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کرنے اور ان تک دینی تعلیمات پہنچانے کا کوئی نظم ان کے ہاں موجود نہیں ہے۔ اور یہ دین کو ایک محدود دائرے میں محصور کرنے اور دین کے بارے میں ایک محدود تصور کو قبول کر لینے کے مترادف ہے۔ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوسائٹی کے ہر طبقے اور ہر فرد کو ضروری دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر کی جائے اور زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام و ہدایات کو متعلقہ شعبوں کے لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نئی نسل کو قرآن کریم اور سنت نبویؐ کے ساتھ براہ راست متعارف کرانے کی ضرورت ہے اور اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ مناسب عربی گرامر کے ساتھ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے۔ اور پہلے سے کوئی تصور قائم کر کے قرآن کریم کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے کی بجائے قرآن کریم کو سامنے رکھ کر اس سے براہ راست رہنمائی حاصل کی جائے۔ دینی تعلیم کی اصل ترتیب یہ ہے کہ پہلے قرآن کریم، پھر سنت نبویؐ، پھر فقہ اسلامی اور اس کے بعد دوسرے درجات ہیں لیکن ہمارے ہاں ترتیب اس کے برعکس ہوتی ہے۔ ہم منطق و فلسفہ اور دیگر فنون ذہنوں میں بٹھا کر پھر قرآن کریم تک پہنچتے ہیں تو قرآن کریم کے اصل پیغام اور رہنمائی تک رسائی نہیں ہو پاتی، اس لیے ہمیں اس ترتیب کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔

نشست کے شرکاء نے مولانا سید سلمان ندوی کے بیان کو پورے انہماک سے سنا اور اکثر دوستوں نے بعد میں اس تاثر کا اظہار کیا کہ اس خطاب سے انہیں رہنمائی کے ساتھ ساتھ نئے انداز میں کام کرنے کا ولولہ ملا ہے۔ مولانا ندوی کے ساتھ مولانا قاری سیف اللہ اختر اور دیگر رفقاء بھی لاہور سے تشریف لائے تھے۔ قاری سیف اللہ اختر ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں، جہاد افغانستان میں ان کا ایک عرصے تک متحرک کردار رہا ہے، ان کا تعلق بھی حضرت مولانا سید نفیس شاہ صاحب سے ہے اور وہ اپنے شیخ کی ہدایت پر آج کل خانقاہ سید احمد شہیدؒ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

بعد ازاں ان حضرات نے واپڈا ٹاؤن گوجرانوالہ میں الشریعۃ اکادمی کے ایک معاون ساتھی حاجی محمد معظم میر کی رہائش گاہ پر ان کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں شرکت کی۔ اس موقع پر مولانا سلمان ندوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دین کا ایک بہت اہم شعبہ آج کل ہماری توجہ کا طالب ہے جس کی طرف علمائے کرام اور دینی حلقوں کی توجہ نہیں ہے، اور وہ شعبہ خدمت خلق کا ہے۔ حالانکہ وحی کے نزول کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا تعارف احادیث و روایات میں یہی ملتا ہے کہ وہ صلہ رحمی کرنے والے تھے، بیواؤں اور مسکینوں کی کفالت کرتے تھے، معذوروں اور حاجت مندوں کے کام آتے تھے، مسافروں اور مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے، اور نادار لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ یہ دین کا بہت اہم شعبہ ہے اس لیے اگر ہم اس طرف توجہ دیں اور عام لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیں تو اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کی ہمدردیاں اور محبتیں بھی ہمارے حصے میں آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے دینی مدارس میں خطباء اور ائمہ تو پیدا کیے جا رہے ہیں مگر خادم بنانے کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی اور اس خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے لوگ مسلم سوسائٹی میں اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ یہ مولانا سید سلمان الحسینی ندوی کا پاکستان کے علمائے کرام اور دینی حلقوں کے نام دردمندانہ پیغام ہے، خدا کرے کہ ہم اس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter