اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات

   
یکم مارچ ۲۰۱۵ء

سپریم کورٹ آف پاکستان میں اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے مختلف درخواستیں زیر سماعت ہیں اور ان سب کو یکجا کر کے بڑے عدالتی بینچ کی تشکیل کر کے ان کی مشترکہ سماعت کی بات سامنے آئی ہے۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر بحث ہے اس لیے اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ کچھ عرض کرنا ابھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن بعض امور ایسے ہیں جن کا تعلق قوم کے مختلف طبقات کے رجحانات اور تحفظات سے ہے۔ اور ان پر مختلف جہتوں سے اظہار خیال خود عدالت عظمیٰ کے لیے درست فیصلے تک پہنچنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے اصولی طور پر چند گزارشات ملکی رائے عامہ اور عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھنا ضروری محسوس ہو رہا ہے۔

اکیسویں آئینی ترمیم کے بارے میں قوم کے دو بڑے طبقوں کے تحفظات اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث ہیں۔ وکلاء برادری نے بعض حوالوں سے اکیسویں آئینی ترمیم کو ملکی دستور کے بنیادی ڈھانچے اور جمہوری و شہری حقوق کے منافی قرار دیا ہے اور اس پر اپنے تحفظات کا واضح طور پر اظہار کیا ہے۔ جبکہ دینی جماعتوں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کو صرف مذہبی حوالہ سے ہونے والی دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت تک محدود کرنے کو مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ اس سے نہ صرف قانون کی یکسانیت کا تصور مجروح ہوا ہے بلکہ لسانیت، قومیت اور دیگر حوالوں سے ہونے والی دہشت گردی کو الگ کر کے دہشت گردوں کے درمیان اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد یا قابل قبول دہشت گرد اور نا قابل قبول دہشت گرد کا فرق قائم کر دیا گیا ہے جس سے دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ نتھی کرنے کا تاثر قائم ہوتا ہے۔

یہ تحفظات کس حد تک درست ہیں؟ اس کے بارے میں فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی، لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں جو جواب داخل کیا گیا ہے اس سے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا دستور پاکستان کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود ہے؟ یہ سوال اس پہلو سے اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ گزشتہ دنوں اسی کیس کی سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے کہا تھا کہ اب یہ دیکھنا ضروری ہوگیا ہے کہ پارلیمنٹ کو دستور کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قانون سازی کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ جس کے جواب میں حکومت پاکستان نے اپنے جواب میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سرے سے دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود ہی نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے واضح طور پر حکومتی جواب میں کہہ دیا ہے کہ دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جس کی پابندی پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہو۔ چنانچہ اب ساری بحث کا رخ اس طرف مڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی میں کسی دائرہ کی پابند ہے اور کیا اس کے منظور کردہ کسی قانون کے جواز یا عدم جواز کو کسی بنیادی ضابطے کے تحت پرکھا جا سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں حکومت کا یہ جواب وکلاء برادری اور دینی حلقوں دونوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس لیے کہ وکلاء برادری کا عمومی موقف یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری، بنیادی شہری حقوق کے تحفظ اور جمہوری اقدار و روایات کی پابندی کو دستور کے بنیادی ڈھانچے کی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ ملک کی تمام دینی جماعتیں اور نظریہ پاکستان کو تسلیم کرنے والی سیاسی پارٹیاں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ دستور پاکستان کے بنیادی ڈھانچہ کی حیثیت رکھتی ہے جس کے تحت خود دستور نے یہ گارنٹی دے رکھی ہے کہ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اگرچہ کئی مواقع پر زیر بحث آچکی ہے کہ کیا پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے دائرہ میں قانون سازی کا پابند بنانا اس کی مطلق خود مختاری کو متاثر نہیں کرتا؟ مگر خود پارلیمنٹ نے ہر موقع پر اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے قرآن و سنت کی پابندی کو بخوشی قبول کیا ہے۔ چنانچہ دستور کے یہ تین بنیادی اصول متفقہ طور پر طے شدہ چلے آرہے ہیں کہ:

  • حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
  • حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے اور
  • پارلیمنٹ قانون سازی میں قرآن و سنت کی ہدایات کی پابند ہے۔

اسی طرح دستور پاکستان میں واضح طور پر بنیادی حقوق کی گارنٹی دی گئی ہے اور ان سے انحراف کے تصور کو کسی بھی مرحلہ میں قبول نہیں کیا گیا۔ مگر حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کے ذریعہ سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے والے جواب میں بظاہر دونوں باتوں کی نفی کر دی گئی ہے اور بنیادی حقوق کی پاسداری کو غیر ضروری قرار دینے کے ساتھ ساتھ قرارداد مقاصد اور قرآن و سنت کی پابندی سے بھی پارلیمنٹ کو مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔

اس سے ہٹ کر قیام پاکستان کی جدوجہد اور دو قومی نظریہ کے حوالہ سے اگر مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ ، بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے واضح اعلانات کو دیکھا جائے تو بھی پاکستان کے قیام کا مقصد اسلام اور جمہوریت کے علاوہ کچھ اور طے نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ کسی ریاست کے قیام کے بنیادی مقصد کو اس کے دستور کے بنیادی ڈھانچہ کا درجہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قرارداد مقاصد اور تمام دساتیر میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے، حتیٰ کہ دینی حلقوں نے بھی علماء کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات اور ۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت میں اسلام اور جمہوریت دونوں کو قومی زندگی کی اساس تسلیم کیا ہے، اور وہ بدستور اس موقف پر قائم چلے آرہے ہیں۔ اس پس منظر میں ہم اپنے اس احساس کا قومی حلقوں کے سامنے ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت کے موقف میں ملک کے دستور کے لیے کسی بنیادی ڈھانچے کی موجودگی سے انکار دستوری حوالہ سے اسلام اور جمہوریت دونوں کے لیے یکساں خطرے کی گھنٹی ہے۔ اور قوم کو اس خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والی سیاسی پارٹیاں، وکلاء برادری، انسانی حقوق کے علمبردار حلقے اور دینی جماعتیں مل بیٹھ کر باہمی مشاورت کے ساتھ اس مسئلہ کا کوئی متفق حل نکالیں اور قوم کو ایک نئے ممکنہ خلفشار سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter