قرآن کریم سے شادی: ایک مذموم جاگیردانہ رسم

   
جنوری ۱۹۹۶ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۴ دسمبر ۱۹۹۵ء کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت پاکستان سے تعزیراتِ پاکستان میں ایک دفعہ کے اضافہ کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت کسی دوشیزہ کی قرآن کریم، درگاہ، یا کسی اور مقدس چیز کے ساتھ شادی کو قانوناً قابلِ سزا جرم قرار دے دیا جائے گا۔

کسی خاتون کو مذہبی تقدس کی آڑ میں شادی کے حق سے محروم کر دینے اور ساری عمر شادی کے بغیر گزار دینے پر مجبور کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ عیسائی معاشرہ میں وہ خواتین ’’نن‘‘ کہلاتی ہیں جو ’’کنواری مریم‘‘ کے نام پر ساری زندگی کنواری رہنے کا فیصلہ کر لیتی ہیں۔ اور ہندوؤں کے ہاں انہیں ’’دیو داسیاں‘‘ کہا جاتا ہے جن کی شادی کسی دیوتا، بت، یا مندر کے ساتھ کر دی جاتی ہے اور پھر وہ ساری زندگی مندر میں بغیر شادی کے گزار دیتی ہیں۔ ان ننوں اور دیوداسیوں کا جو حشر مذہبی عبادت گاہوں میں مذہبی تقدس کی آڑ میں ہوتا ہے وہ ایک انتہائی دلخراش داستان ہے۔

اسلام نے اسی لیے تجرد کی زندگی کو عبادت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور شادی کو مسنون بلکہ بعض حالات میں واجب قرار دیا ہے۔ لیکن یار لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر اس مکروہ رسم کو مسلمان معاشرہ میں بھی گھسیٹ لیا ہے اور بعض بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں میں یہ مذموم سلسلہ چلا آتا ہے کہ جوان بیٹی کو دلہن بنا کر قرآن کریم اس کی جھولی میں رکھ دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ تمہاری شادی اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کے ساتھ کر دی گئی ہے، پھر ساری زندگی وہ بدقسمت عورت تنہا رہنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس مکروہ دھندے کا اصل مقصد جاگیر اور زمین کا تحفظ ہوتا ہے کہ بیٹی کا دوسری جگہ بیاہ کر دیا تو اسے جاگیر یا زمین کا حصہ بھی دینا پڑے گا، اس لیے قرآن کریم کے نام پر اسے شادی کے حق سے ہی محروم کر دیا جاتا ہے، تاکہ زمین اور جاگیر کو تقسیم سے بچایا جا سکے۔ اسی طرح بعض خواتین کو درگاہوں اور دیگر مقدس اشیا کے نام منسوب کر کے بھی یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس پس منظر میں اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ اقدام مستحسن ہے اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس سفارش کو قانون کی شکل دے کر خواتین کے ساتھ قرآن کریم کے نام پر ہونے والے اس شرمناک ظلم کا عملاً خاتمہ کرنے کی راہ ہموار کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter