مغربی لندن میں ساؤتھال کا علاقہ ایشین آبادی کا علاقہ کہلاتا ہے جہاں پاکستان اور بھارت سے آئے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور آبادی کی اکثریت انہی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں مسلمان، ہندو اور سکھ تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں، زیادہ تعداد سکھ کمیونٹی کی بتائی جاتی ہے اس کے بعد مسلمان اور ہندو ہیں۔ اور اب صومالیہ سے آنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے اس علاقہ میں آباد ہونے سے آبادی میں مسلمانوں کا تناسب خاصا بڑھ گیا ہے۔
مقامی سیاست میں مسلمانوں کی دلچسپی بہت کم رہی ہے اور وہ زیادہ تر مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر ہندو اور سکھ کونسلروں کو سپورٹ کرتے چلے آرہے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں پہلا موقع تھا کہ ایک مسلمان کونسلر بھی منتخب ہوا اور ایلنگ کونسل میں ساؤتھال کے پندرہ ارکان میں اس وقت ایک مسلمان، چار ہندو اور دس سکھ بتائے جاتے ہیں۔ جبکہ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کے بارے میں بعض مسلمان راہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ کسی طرح بھی تیس فیصد سے کم نہیں ہے۔
ساؤتھال کی مرکزی جامع مسجد میں نمازیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کے بعد ساؤتھال براڈوے کے مسلمانوں نے ۱۹۸۹ء میں الگ مسجد کے قیام کی کوشش شروع کی اور پہلے مرحلہ میں فیز بروک ولے سپورٹ سنٹر میں جمعہ کی نماز کا آغاز کیا گیا اور پنج گانہ نماز اور بچوں کی دینی تعلیم کے لیے جگہ کی تلاش جاری رہی۔ دو تین جگہ ٹینڈر بھرے گئے جو ناکام رہے بالآخر ولیئرز روڈ پر ایک مکان خرید کر بچوں کی دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا اور وہیں پانچ وقت کی نماز باجماعت کا ابھی اہتمام کر لیا گیا۔ ایلنگ کونسل کو پلاننگ پرمیشن کی باضابطہ درخواست دی گئی مگر اسے ریزیڈینشل ایریا قرار دے کر کونسل نے درخواست نامنظور کردی جبکہ اسی روڈ پر دو مکانوں میں کرسچئن مشنری سنٹر موجود ہیں، ایک گوردوارہ اور ایک اسکول کام کر رہا ہے اور دو نرسنگ ہوم بھی مصروف عمل ہیں۔ مگر رہائشی علاقہ کا اطلاق صرف مسجد پر ہوا اور ابوبکر مسجد کے نام سے شروع کی جانے والی اس مسجد کو ایلنگ کونسل نے انفورسمنٹ نوٹس کے ذریعے بند کر دیا۔
اسی دوران خود کونسل نے ساؤتھال براڈوے پر واقع ٹاؤن ہال فروخت کرنے کا اعلان کیا جس کے پڑوس میں ہندوؤں کا ایک بڑا مندر موجود ہے۔ اس ٹاؤن ہال کے لیے مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں نے بولی دی، مسلمانوں کی بولی زیادہ تھی، کونسل نے ان سے تحریری معاہدہ کر لیا مگر ہندو کمیونٹی نے شور مچا دیا اور لندن کے ہندو اخبارات سے لے کر بھارت کے اخبارات تک میں چیخ و پکار شروع ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایلنگ کونسل نے دباؤ میں آکر ٹاؤن ہال فروخت کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ ٹاؤن ہال کے لیے مسلمانوں کی طرف سے بولی ابوبکر مسجد کی انتظامیہ نے دی تھی جس میں بیس بگلہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد اشرف خان اور ان کے ساتھی عبد الستار شاہد پیش پیش تھے۔ ان حضرات نے ایلنگ کونسل کے فیصلے کو جانبدارانہ قرار دے کر ہائی کورٹ سے رجوع کیا مگر وہاں بھی شنوائی نہ ہوئی اور لاکھوں پاؤنڈ کا نقصان الٹا برداشت کرنا پڑا۔
اس پر مسلمانوں میں اشتعال ایک فطری امر تھا، اسی دوران ابوبکر مسجد جو ولیئرز روڈ کے ایک مکان میں تھی، کونسل نے بند کر دی تو مسلمان سڑکوں پر آگئے، ہزاروں مسلمانوں نے متعدد پرجوش مظاہرے کیے اور ایلنگ کونسل کی مبینہ طور پر جانبدارانہ روش کے خلاف احتجاج کیا۔ یہ مظاہرے وقفے وقفے سے جاری تھے کہ ایلنگ کونسل نے ابوبکر مسجد کی انتظامیہ سے کہا کہ اگر مظاہروں کا یہ سلسلہ روک دیا جائے تو ابوبکر مسجد کے لیے متبادل جگہ کی فراہمی کے لیے کونسل تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ مظاہرے روک دیے گئے اور ایلنگ کونسل کے ساتھ ایک یوتھ کلب کی خریداری کے لیے بات چیت شروع ہوگئی۔ مذاکرات کے دوران ابوبکر مسجد کی انتظامیہ سے کہا گیا کہ وہ پلاننگ پرمیشن کے لیے بھی ساتھ ہی درخواست دے دیں جس سے ان حضرات نے سمجھا کہ اب کونسل مسلمانوں کو جگہ دینے میں سنجیدہ ہوگئی ہے اس لیے انہوں نے درخواست پیش کر دی لیکن اس کے ساتھ جو سلوک ہوا اس نے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر دیا۔ یہاں عام طور پر پلاننگ پرمیشن کی درخواست کا فیصلہ آٹھ ہفتوں میں ہو جاتا ہے مگر اس درخواست کو فیصلے تک پہنچنے میں نو ماہ لگ گئے۔ پھر ظاہری طور پر اجازت تو دے دی گئی مگر ایسی شرائط عائد کر دی گئیں جن کا پورا کرنا کسی بھی انتظامیہ کے لیے انتہائی مشکل تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ قیمت اتنی زیادہ رکھ دی گئی کہ ابوبکر مسجد کی انتظامیہ کے لیے انکار کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔
اس کے بعد نئی جگہ کی تلاش شروع ہوئی اور معلوم ہوا کہ ساؤتھال براڈوے پر ’’ویسٹ اینڈ ہاؤس‘‘ نامی چار منزلہ عمارت فروخت ہو رہی ہے، اس عمارت میں ایلنگ فیملی ہاؤسنگ ایسوسی ایشن کے دفاتر تھے اور یہ انتہائی موزوں جگہ پر مضبوط اور وسیع عمارت ہے جہاں مسجد کے ساتھ ساتھ ایک بڑا تعلیمی ادارہ بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ ابوبکر مسجد کی انتظامیہ نے ساڑھے آٹھ لاکھ پاؤنڈ میں اسے خرید لیا اور مارچ ۱۹۹۸ء میں یہاں نماز اور بچوں کی تعلیم کا باضابطہ سلسلہ شروع کر دیا گیا جو جون ۱۹۹۴ء میں مسجد ابوبکر ولیئرز روڈ کی بندش کے بعد سے معطل تھا۔
مسجد ابوبکرؓ کی انتظامیہ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہے کہ وہ کوئی مالیاتی ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ذمہ دار حضرات بہت زیادہ امیر کبیر لوگ ہیں، البتہ چند مخلص نوجوان ہیں اور انہیں کمیونٹی کے سنجیدہ لوگوں کا اعتماد حاصل ہے۔ انہوں نے ٹاؤن ہال کی خریداری کے لیے دوستوں سے قرض حسنہ لے کر رقم جمع کرائی جو سودا مکمل نہ ہونے پر واپس کر دی گئی۔ اور اب بھی انہوں نے مختلف حضرات سے قرض حسنہ لے کر اس سے نئی بلڈنگ خریدی ہے اور کم و بیش پوری کی پوری رقم ان کے ذمہ واجب الادا ہے۔
’’ویسٹ اینڈ ہاؤس‘‘ کی اس بلڈنگ میں اسلامک ریسرچ سنٹر کے نام سے ایک تعلیمی اور تحقیقاتی ادارے کے ساتھ مسجد کا پروگرام بنایا گیا ہے اور اس کے لیے پلاننگ پرمیشن کی درخواست دی گئی ہے لیکن ایلنگ کونسل کی متعلقہ کمیٹی نے اسے نامنظور کر دیا۔ جس روز کمیٹی کا اجلاس تھا ابوبکر مسجد کے منتظمین کے ہمراہ راقم الحروف بھی کونسل کی گیلری میں موجود تھا اور ساری کاروائی کا خود مشاہدہ کیا۔ اجلاس میں اس سلسلہ میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ براڈوے پر ہونے کی وجہ سے ٹریفک کا پرابلم پیدا ہوگا اس لیے اسے منظور نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر ووٹنگ ہوئی، حمایت او رمخالفت میں پانچ پانچ ووٹ آئے اور آخر میں چیئرمین نے اپنا کاسٹنگ ووٹ مخالفت میں استعمال کر کے درخواست کو نامنظور کر دیا۔ ابوبکر مسجد کی انتظامیہ کے دو ذمہ دار ارکان حاجی محمد اشرف خان اور عبد الستار شاہد صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ مسلسل زیادتی ہو رہی ہے اور انہیں سب سے زیادہ شکوہ مسلمان کونسلر سے ہے جس نے اس درخواست کو منظو رکرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی حتی کہ موقع پر موجود ہونے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی۔ حالانکہ مذکورہ کونسلر کو مسلمانوں نے اسی جذبہ سے منتخب کرایا تھا کہ وہ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرے گا لیکن اس سلسلہ میں کونسلر کے کردار سے علاقہ کے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ان دو ہندو کونسلروں سے بھی شکوہ ہے جو مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہوئے اور مسلمانوں کی حمایت کا دم بھرتے رہے لیکن اجلاس میں موجود ہوتے ہوئے بھی غیر جانبدار ہو کر بیٹھے رہے اور مسلمانوں کے ایک مذہبی حق کے تحفظ کے لیے انہوں نے ان کے حق میں ہاتھ اٹھانا گوارا نہیں کیا۔
ابوبکر مسجد کی پلاننگ پرمیشن کی درخواست منظور نہ ہونے میں اس کے علاوہ کچھ اور عوامل بھی کارفرما نظر آتے ہیں جن میں ایک کاروباری طبقہ کا مخصوص طرز عمل بھی ہے۔ انتہائی مناسب موقع پر اور وسیع بلڈنگ ہونے کی وجہ سے اردگرد کے کئی کاروباری لوگوں کی نظریں اس عمارت پر تھیں اور ساؤتھال مرچنٹس ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری سمیت کئی دکانداروں نے اس کے ٹینڈر بھی بھرے لیکن اسلامک ریسرچ سنٹر کی انتظامیہ نے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ ان کی بولی کامیاب ہوگئی۔ اس پر منفی ردعمل ایک فطری بات تھی جس میں کاروباری مفادات کے ساتھ ساتھ مذہبی عصبیت بھی شامل ہوگئی کیونکہ بولی دینے والی بڑی پارٹیاں سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ٹاؤن ہال کی خریداری میں تنازعہ ہندو کمیونٹی سے تھا اور اب معاملہ سکھ کمیونٹی سے ہے اور اس طرح ایک تکون سی بن گئی ہے۔ کونسل کے مذکورہ اجلاس میں مسلمانوں، ہندؤں اور سکھوں کے درمیان کشمکش واضح طور پر جھلک رہی تھی۔
ابوبکر کی مسجد کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس معاملہ میں سن رائز ریڈیو اور ساؤتھال گزٹ نے بھی منفی کردار ادا کیا ہے اور ٹاؤن ہال کی خریداری سے لے کر اب تک ان کے بارے میں اس قدر منفی پراپیگنڈا کیا ہے کہ خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تذبذب کا شکار ہوگئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی بڑی وجہ مسلمانوں کی بڑی آبادی کے تذبذب کی کیفیت ہے جو پلاننگ پرمیشن کے انتظار میں تعاون سے ہاتھ روکے بیٹھے ہیں اور سن رائز ریڈیو کے یکطرفہ پراپیگنڈے کا شکار ہو کر بے یقینی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ مایوس نہیں ہیں اور برطانیہ بھر کے مسلمان بھائیوں سے رابطے کے لیے ایک منظم مہم شروع کرنے والے ہیں جس کا مقصد ایلنگ کونسل کے جانبدارانہ طرزعمل کے خلاف مسلم کمیونٹی کی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنا اور مسلمان اصحاب ثروت کو اسلامک سنٹر کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ کرنا ہے۔ اور اسی مقصد کے لیے اگست کے آغاز میں مسلم کمیونٹی کے لیڈروں کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا جا رہا ہے جس میں حتمی پروگرام طے کیا جائے گا۔
اسلامک ریسرچ سنٹر کے سلسلہ میں انتظامیہ کا مجوزہ پروگرام یہ ہے کہ یہاں مقامی کمیونٹی کے لیے جمعہ اور پنج وقتہ نماز باجماعت کے اہتمام کے علاوہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کا انتظام اب بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کا ایک اسکول قائم کیا جائے گا جس میں مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم اور ماحول کا اہتمام ہوگا، اسلام کی دعوت و تبلیغ کا مرکز قائم کیا جائے گا جو دنیا کی مختلف اقوام تک اسلام کا پیغام پہنچانے اور اس کے لیے تمام ممکن ذرائع کے استعمال کا پروگرام منظم کرے گا اور مسلم اسکالرز کے لیے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ادارہ قائم کیا جائے گا جہاں مسلم علماء اور اسکالرز کو تحقیق اور ریسرچ کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے ابوبکر مسجد کی انتظامیہ نے پروگرام کی تفصیلات طے کرنے اور اپنی نگرانی میں اسے چلانے کے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ سماجی علوم کے ڈین ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی سے درخواست کی ہے جو انہوں نے اعزازی طور پر منظور کر لی ہے۔ اس کام میں راقم الحروف ابوعمار زاہد الراشدی اور مولانا مفتی برکت اللہ ان کے معاون ہوں گے اور ہم مل کر تعلیم اور دعوت والارشاد کا نظام طے کریں گے اور اسے چلانے کا انتظام کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
پلاننگ پرمیشن کے سلسلہ میں سنٹر کی انتظامیہ کا عزم یہ ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپیل اور نظر ثانی اور احتجاج کے تمام قانونی ذرائع استعمال کریں گے اور مسلم کمیونٹی کے ذمہ دار راہنماؤں کے مشورہ کے ساتھ آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے اور انہیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ تمام رکاوٹیں جلد دور ہو جائیں گی اور اسلامک ریسرچ سنٹر اپنے پروگرام کے مطابق بھرپور سرگرمیوں کا آغاز کر دے گا۔