۱۶ جنوری ۱۹۹۹ء کو گورنر سرحد نے ایک آرڈیننس کے ذریعے صوبہ سرحد کے مالاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن کے ضلع کوہستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے ’’شرعی نظامِ عدل آرڈیننس ۱۹۹۹ء‘‘ کا اعلان کیا ہے جن کے تحت سوات، دیر، چترال اور کوہستان کے چار اضلاع اور مالاکنڈ کے قبائلی علاقے میں عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مقدمات کے فیصلہ شریعتِ اسلامیہ کے مطابق کریں گی۔ البتہ غیر مسلموں کے مقدمات کا فیصلہ ان کے مذہبی عقائد کے مطابق کیا جائے گا۔ قاضی کی تقرری کے لیے ضروری ہو گا کہ اس نے تسلیم شدہ اسلامی یونیورسٹی سے شریعت میں ایل ایل بی کی ڈگری لے رکھی ہو، اسلامیات میں ایم اے کے علاوہ شرعی کورس بھی کر رکھا ہو۔ ہر قاضی مقدمہ میں مشاورت کے لیے کسی عالمِ دین کو بلانے کا پابند ہو گا، اور علماء کرام مقدمات میں بطور وکیل بھی پیش ہو سکیں گے۔ جبکہ اس خطہ میں شرعی قوانین کے نفاذ کی نگرانی کے لیے پشاور ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں ’’مالاکنڈ بینچ‘‘ تشکیل دیے جائیں گے۔
آرڈیننس کا مکمل متن ابھی تک ہماری نظر سے نہیں گزرا، البتہ مختلف اخبارات میں اس کی جو تفصیلات شائع ہوئی ہیں ان کے اہم نکات ہم نے درج کر دیے ہیں جو بظاہر ایک اچھی پیشرفت نظر آتے ہیں۔ لیکن نفاذِ شریعت کے حوالے سے ہم اب تک جن تلخ تجربات سے گزر چکے ہیں ان کے پیش نظر ’’تحفظات‘‘ کے دائرے سے ہٹ کر اس قسم کے کسی اقدام کے بارے میں کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس آرڈیننس کا اصولی طور پر خیرمقدم کرتے ہوئے دو گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:
- مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان میں عدالتوں کو شریعت کے مطابق فیصلوں کا پابند بنانے کا یہ عمل اگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے مروجہ نظام کے تابع ہے جیسا کہ نظر آ رہا ہے تو اس کی افادیت محلِ نظر ہے۔ اور ہم وفاقی شرعی عدالت کے متعدد فیصلوں کے سپریم کورٹ میں جا کر سٹاپ ہو جانے کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان کے شرعی قاضیوں کے فیصلے بھی اسی طرح ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے آہنی شکنجوں میں پھڑپھڑا کر رہ جائیں گے، جیسا کہ متعدد شرعی فیصلے ان پنجروں میں سالہا سال سے اپنی رہائی کے انتظار میں قید پڑے ہیں۔
- اجتماعی زندگی کے دیگر تمام شعبوں مثلاً تجارت، معیشت، ایڈمنسٹریشن، قانون سازی اور دیگر اجتماعی معاملات کو مروجہ نوآبادیاتی نظام کے ساتھ وابستہ رکھتے ہوئے صرف عدالتی شعبے میں شرعی قوانین کے نفاذ کا فلسفہ بھی محلِ نظر ہے اور فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس لیے صرف عدالتوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کا تجربہ کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ اور یہ ایسے ہی ہو گا جیسے کسی کو ہنڈا کار کا گیئر بکس اچھا کام کرتا نظر آئے تو وہ اسے فورڈ ٹرک میں فٹ کر کے خوشی خوشی اسٹیئرنگ پر بیٹھ جائے کہ اب میری گاڑی بہت اچھی چلے گی۔
اس لیے ہم حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ اگر وہ واقعی شریعت کے نفاذ میں مخلص ہیں تو اس کے لیے جزوی اور ادھورے تجربات کرنے کی بجائے ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ کے قرانی حکم کو اپناتے ہوئے نظامِ اسلام کے مکمل نفاذ کی طرف سنجیدہ پیشرفت کریں کیونکہ اس کے سوا نہ شریعتِ محمدی نافذ ہو گی اور نہ ہی ہم اپنے دن بدن تیزی کے ساتھ بگڑتے ہوئے سنگین مسائل و مشکلات سے نجات حاصل کر سکیں گے۔