پاکستان کے قیام کے بعد اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کے ارباب حل و عقد کو سب سے پہلا اور اہم مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس کا دستور اور نظامِ حکومت کیا ہو گا اور حکمرانی کا حق کسے حاصل ہو گا؟
- طاقت کے بل پر کسی کو حکمرانی کا حق دینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ برطانوی استعمار کے تسلط سے ملک کی آزادی اور پاکستان کا قیام دونوں جہادِ آزادی کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل، رائے عامہ اور جمہوری جد و جہد کا نتیجہ تھے اور اس تسلسل سے انحراف سرے سے ممکن ہی نہیں تھا۔
- کسی خاندان کو حکمرانی کا حق دینا اور اقتدار کو اس کا نسل در نسل کا حق تسلیم کر لینا بھی کوئی قابل عمل اور قابل قبول بات نہیں تھی۔
- یہ ملک اسلام کے نام پر اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے پر اور مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ و فروغ کے نعرے پر وجود میں آیا تھا، اس لیے ملک کے دستوری مستقبل کا تعین کرنے میں اسلامی تعلیمات و ہدایات کی پابندی ضروری تھی۔
ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی نے ’’قرار داد مقاصد‘‘ کی صورت میں یہ اصول طے کر دیا کہ دستوری طور پر:
- حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔
- حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہو گا۔
- حکومت و ریاست اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے پابند ہوں گے۔
اس میں جہاں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کر کے عوام کی حاکمیت کے مغربی تصور کو مسترد کیا گیا ہے، وہاں حکمرانی کے حق کے لیے عوام کی مرضی کو بنیاد بنا کر طاقت کی حکومت اور خاندانی حکمرانی کے سسٹم کی بھی نفی کر دی گئی۔ اور اس طرح اسلام اور اس کے ساتھ جمہوریت کے اسلام ہی سے لیے ہوئے قابل قبول تصور کے دو اصولوں کو پاکستان کی دستوری اساس تسلیم کیا گیا۔ حکومتوں کے طرز عمل اور عملدرآمد کی صورتحال کے مختلف ہونے کے باوجود یہ قرارداد مقاصد اب تک نافذ ہونے والے تمام دستوروں کا حصہ چلی آرہی ہے۔ اور رائج الوقت دستور، جسے ۱۹۷۳ء کا دستور کہا جاتا ہے، اس کا بھی حصہ ہے اور اس کی روشنی میں اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دینے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے دائرے میں قانون سازی کا پابند کیا گیا ہے، جو آج کے دور میں کسی بھی اسلامی ریاست کی صحیح اور متوازن دستوری بنیاد ہو سکتی ہے۔
اس اصول اور دستور کے مطابق ملک اب تک انتخابات کے بہت سے مراحل سے گزر چکا ہے، بہت سی حکومتیں اس ذریعے اقتدار میں آچکی ہیں، درمیان میں مارشل لاء کے ادوار بھی آئے ہیں جسے طاقت کے بل پر حکمرانی کا حق استعمال کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، لیکن سات عشروں سے زیادہ عرصہ کے اس دورانیہ میں اسلام اور جمہوریت دونوں کے ساتھ جو نا انصافی اور ظلم روا رکھا گیا ہے وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ نوآبادیاتی دور کی یادگار اسٹیبلشمنٹ نے، جس میں بیوروکریسی، جاگیردار، صنعتکار اور فوجی حکمران سب ہی درجہ بدرجہ شامل چلے آ رہے ہیں، اپنی حکومتوں کے دور میں ملک کو اسلام کی بالادستی اور جمہوری حکمرانی سے بہرہ ور کرنے کی بجائے ہمیشہ اپنے طبقاتی مفادات اور عالمی قوتوں کے ایجنڈے کے لیے کام کرنے کو ترجیح دی ہے۔ جس کے نتیجے میں آج ملک نہ صرف معاشی طور پر تباہ حالی کا شکار ہے بلکہ اس کی سرحدوں کا احترام، قومی مختاری اور ملکی سالمیت بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔
اسلام کے ساتھ اکثر حکومتوں کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ دستور میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کی واضح ممانعت کے باوجود قرآن و سنت کے منافی قوانین اور پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے، اور جمہوریت کے بارے میں ان کا یہ طرز عمل ہمارے سامنے ہے کہ اکثر مواقع پر انتخابات میں عوام نے ووٹ کے ذریعے جن حکومتی پالیسیوں کو واضح طور پر مسترد کیا، اس ووٹ کے ذریعے برسر اقتدار آنے والی حکومت نے انہی پالیسیوں کو مسلسل جاری رکھا، حتٰی کہ منتخب پارلیمنٹ کے بعض متفقہ فیصلوں کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ اس ملک میں اسلام اور جمہوریت کے دونوں نعرے صرف اور صرف دکھاوے اور اقتدار کے حصول و بقا کے لیے استعمال ہوتے ہیں جبکہ اصل پالیسیاں وہی جاری رہتی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ اور عالمی قوتوں کے درمیان طے پا جاتی ہیں۔
اس لیے ہمارے خیال میں عوام کے لیے سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کی اسلامی شناخت، قومی خودمختاری، سیاسی آزادی اور ملکی سالمیت کو ترجیح دیتے ہوئے ایسی قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کریں جو ملک پر عالمی استعمار اور ملکی حکمران طبقات کے گٹھ جوڑ کے شکنجے کو ڈھیلا کر سکے، کیونکہ اس کے سوا پاکستان کے مستقبل کو محفوظ اور بہتر بنانے کا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا، خدا کرے کہ ہم اس سمت صحیح پیشرفت کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔