دینی طلبہ سے تین گزارشات

   
دارالعلوم، جلیل ٹاؤن، گوجرانوالہ
۳ اگست ۲۰۱۵ء

۳ اگست کو جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں مولانا محمد سرفراز صفدر کے نکاح کی تقریب تھی۔ مولوی صاحب موصوف مولانا محمد ایوب صفدر کے بھانجے اور ہمارے عزیز شاگرد ہیں، گوجرانوالہ شہر سے تعلق رکھتے ہیں، درسِ نظامی کی تعلیم جامعہ نصرۃ العلوم میں حاصل کی اور دو سال قبل دورۂ حدیث کر کے سندِ فراغت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک اور نوجوان بابر سہیل کا نکاح بھی تھا۔ نمازِ عصر کے بعد نمازیوں کے درمیان ہی خطبۂ نکاح پڑھ کر میں نے دونوں جوڑوں کا نکاح پڑھایا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ یہ شادیاں سادگی کے ساتھ مسجد کے ماحول میں ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ برکات و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ اسی روز ظہر کی نماز کے بعد دارالعلوم جلیل ٹاؤن گوجرانوالہ اور اگلے روز ۱۸ شوال کو صبح ساڑھے آٹھ بجے جامعہ نصرۃ العلوم میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کی تقریبات ہوئیں، اس موقع پر طلبہ سے جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ شوال کے دوسرے عشرہ کے دوران پورے جنوبی ایشیا یعنی پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور اردگرد کے دیگر ممالک کے لاکھوں دینی مدارس میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو رہا ہے اور لاکھوں اساتذہ کے ساتھ کروڑوں طلبہ و طالبات اپنی اس سال کی تعلیم کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ اب سے ڈیڑھ سو برس پہلے چند بزرگوں نے دینی مدارس کے اس نظام کا آغاز کیا تھا، یہ ان کے خلوص اور محنت کی برکات ہیں کہ مدارس کی تعداد لاکھوں اور طلبہ و طالبات کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ انہی میں سے ہمارے شیخین کریمین حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا یہ گلشن بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ان کے اس گلشن کو ہمیشہ آباد رکھیں، آمین ثم آمین۔ اس موقع پر دعا سے قبل تمہید کے طور پر عزیز طلبہ سے دو تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

  1. ایک بات یہ کہ جو تعلیم آپ حاصل کر رہے ہیں اسے اپنی ضرورت سمجھ کر پڑھیں، اس لیے کہ اگر اپنی ضرورت سمجھ کر پڑھیں گے تو اس کے مطابق پڑھیں گے اور اگر خدانخواستہ کسی مجبوری کو سامنے رکھ کر پڑھیں گے تو پڑھنے کا انداز بھی وہی ہوگا۔ اور یہ صرف سمجھنے کی بات نہیں حقیقت بھی ہے کہ دینی تعلیم ہماری ضرورت ہے۔ ذاتی بھی، خاندانی بھی اور معاشرتی بھی۔ اس کے بغیر ہماری زندگی بے مقصد اور ادھوری رہ جاتی ہے۔ مثلاً بحیثیت مسلمان قرآن کریم کو صحیح طریقہ سے پڑھنا اور اسے سمجھنا ہماری ضرورت ہے، اور خود اندازہ کر لیں کہ اس کام کے لیے کس کس چیز کی تعلیم حاصل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ پھر نماز اور دیگر عبادات و فرائض کو صحیح طریقہ سے ادا کرنا ہماری ضرورت ہے اور اس کے لیے دینی تعلیم ناگزیر ہے۔ اس کے بعد یہ بھی ہماری ضرورت ہے کہ حلال و حرام کا فرق قائم رکھتے ہوئے زندگی گزاریں، باہمی حقوق کی ادائیگی اور معاشرتی آداب و اخلاق کی بجا آوری ہماری زندگی کا حصہ بنے۔ یہ سب کچھ دینی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے میری گزارش یہ ہے کہ دینی تعلیم کو سب سے پہلے اپنی ذاتی ضرورت سمجھ کر حاصل کریں، اس کے بعد یہ خاندانی اور معاشرتی ضرورت بھی ہے۔
  2. دوسری گزارش یہ ہے کہ جب آپ لوگ گھروں سے پڑھنے کے لیے آتے ہیں تو پھر پڑھیں بھی! اور پڑھنے کے تقاضے پورے کریں۔ آج کل ’’ونڈو شاپنگ‘‘ کا رواج ہوگیا ہے کہ کسی بڑی مارکیٹ میں گئے، کچھ چیزیں چیک کیں، کچھ کا بھاؤ پوچھا، کچھ چیزوں کو دیکھا اور دو تین گھنٹے ضائع کر کے خالی ہاتھ واپس آگئے۔ اسے ’’ونڈو شاپنگ‘‘ کہتے ہیں اور بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی ماحول میں بھی یہ ذوق پیدا ہوگیا ہے۔ کچھ کتابیں چیک کیں، چند اساتذہ کو چکھا، کچھ علوم کی اصطلاحات سے آشنائی حاصل کی اور آٹھ دس سال ضائع کر کے خالی ہاتھ گھر واپس لوٹ گئے۔ یہ وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، اس لیے پڑھنے کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ ہمارے ہاں دینی مدارس میں پڑھنے کے تقاضوں کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ ناغہ نہ ہو، وقت پر سبق میں حاضری ہو، سبق میں حاضر دماغی کے ساتھ بیٹھیں، مطالعہ و تکرار کا التزام کریں، کتاب اور استاذ کا احترام کریں اور جس مدرسہ میں پڑھ رہے ہیں اس کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں۔
  3. تیسری بات یہ ہے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ تربیت اور تجربے کی مشق بھی کرتے رہیں۔ سکول و کالج میں سائنس پڑھاتے ہوئے جہاں لیکچر میں تھیوری پڑھائی جاتی ہے وہاں لیبارٹری میں پریکٹیکل بھی کرایا جاتا ہے۔ ہم سبق میں تھیوری تو پڑھتے ہیں مگر عملی زندگی میں اس کے پریکٹیکل کی مشق نہیں کرتے۔ مثلاً قدوری یا فقہ کی کسی کتاب میں نماز کی ترتیب اور آداب تو پڑھ لیتے ہیں مگر اپنی نماز میں اس کا اہتمام کرنے کی فکر نہیں ہوتی۔ اور اگر اس کی فکر کریں بھی تو دوسروں کی نماز چیک کرتے ہیں، اپنی نماز نہیں دیکھتے۔ یا پھر قرآن کریم اور احادیث میں اخلاق و آداب کا سبق پڑھتے ہیں تو خود کو نہیں دیکھتے کہ جن اخلاق و آداب کا سبق کتاب میں پڑھا ہے ان پر خود میرا اپنا عمل بھی ہے کہ نہیں۔ یہ باتیں بھی ہم دوسروں میں چیک کرتے ہیں، خود اپنے آپ کو چیک کرنے کی توفیق بہت کم ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علم تو کسی نہ کسی درجہ میں مل جاتا ہے لیکن اس پر عمل کی مشق نہیں ہوتی۔ جبکہ عمل و تربیت کے بغیر علم نقصان کا حامل ہوتا ہے۔ اس لیے طلبہ، اساتذہ اور خود اپنے آپ سے میری گزارش ہے کہ جو کچھ ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں، اسے خود اپنی زندگی میں لاگو کرنا اور اس کی پریکٹس کرنا بھی اس تعلیم کا لازمی حصہ ہے۔ اس سے علم با مقصد ہو جاتا ہے اور اس کے ثمرات و فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۵ اگست ۲۰۱۵ء)
2016ء سے
Flag Counter