اس دفعہ ’’یوم آزادی‘‘ کراچی میں گزارنے کا ارادہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ مجلس صوت الاسلام کلفٹن کے زیر اہتمام ایک سالہ ’’خطباء تربیتی کورس‘‘ کے اساتذہ کی سالانہ میٹنگ تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی کراچی پہنچ چکے تھے، جبکہ مجھے ۱۳ اگست کی شام کو پہنچنا تھا اور میری رعایت سے یہ اجلاس مغرب کے بعد رکھا گیا تھا۔ سوا چار بجے لاہور سے شاہین ایئر کی پرواز تھی، میں تقریباً ساڑھے تین بجے پہنچ گیا اور بورڈنگ کارڈ کے حصول کے بعد لاؤنج میں گیا تو دارالقرآن فیصل آباد کے دو استاذ پہلے سے موجود تھے جنہوں نے شاہین ایئر کی دوسری پرواز سے کوئٹہ جانا تھا۔ ان کی پرواز سوا دو بجے تھی اور وہ ایک بجے سے وہاں انتظار میں تھے۔ دونوں پروازوں کے بارے میں مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ بس پندرہ منٹ، نصف گھنٹے تک روانگی متوقع ہے مگر بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود مغرب کا وقت ہوگیا۔ ہم نے مغرب کی نماز اکٹھے ادا کی، اس کے بعد کوئٹہ والی پرواز تو روانہ ہوگئی مگر ہم کراچی جانے والے امید و بیم کے مرحلہ سے دوچار رہے۔ کراچی سے مفتی ابوذر محی الدین صاحب نے فون پر کہا کہ ڈاکٹر سعد صدیقی صاحب کافی دیر سے انتظار میں ہیں اس لیے اجلاس کل صبح ۱۱ بجے رکھ لیتے ہیں۔ میرے لیے ہاں کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ مگر اس سے بھی کام نہ چلا اور آدھ گھنٹہ بیس منٹ کرتے کرتے جب ساڑھے نو بجے یہ اعلان ہوا کہ پرواز کی ساڑھے دس بجے روانگی ’’متوقع‘‘ ہے تو میں نے ارادہ تبدیل کر لیا اور مجلس صوت الاسلام کے مولانا جمیل الرحمن فاروقی کو فون پر بتانے کے بعد بورڈنگ پاس واپس کر کے گوجرانوالہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ بادامی باغ کے لاری اڈے پر ایک ریسٹورنٹ میں دال روٹی کے ساتھ ڈنر کیا اور رات ایک بجے کے لگ بھگ گھر واپس پہنچ گیا۔
۱۴ اگست کو منڈی بہاء الدین کے مولانا عبد الماجد صاحب نے بھی ایک پروگرام کے لیے کہہ رکھا تھا بلکہ روزنامہ اسلام میں دو روز قبل ان کا اشتہار بھی شائع ہو گیا تھا مگر کراچی کے پروگرام کی وجہ سے خلاف معمول ان سے معذرت کی۔ جبکہ جمعہ کے روز مغرب کے بعد گکھڑ میں حضرت والد محترم رحمہ اللہ تعالیٰ کی مسجد میں میرا درس کا معمول چلا آرہا ہے اور ’’یوم آزادی‘‘ کے حوالہ سے احباب کا تقاضا تھا کہ اس کا ناغہ نہ ہو۔ اس لیے میں نے جمعہ کی نماز مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں پڑھا کر گکھڑ جانے کا پروگرام بنا لیا۔ میں ویسے بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا مسافر ہوں، مگر اس روز میں نے قصدًا کنگنی والا بائی پاس سے لوہیاں والہ بائی پاس تک کا سفر چاند گاڑی پر کیا۔ وہ وقت متعدد جماعتوں کی ریلیوں کا تھا اور میں انہیں براہ راست دیکھنا چاہتا تھا۔ گکھڑ تک پہنچتے پہنچتے میں نصف درجن سے زیادہ مختلف ریلیوں کا نظارہ کر چکا تھا اور موٹر سائیکلوں پر موج میلا کرنے والے سینکڑوں نوجوانوں کے جوش و جذبہ کے ساتھ ساتھ میں بھی رواں دواں تھا۔ مجھے اس دوران ایک بات بہت اچھی لگی کہ کم و بیش سبھی جلوسوں اور ریلیوں کے شرکاء نے قومی پرچم اٹھا رکھے تھے اور پارٹیوں کے الگ الگ پرچم مجھے بہت کم بلکہ اکا دکا ہی دکھائی دیے۔ یہ حب الوطن اور قومی وحدت کی اچھی علامت تھی جس پر بہرحال خوشی ہوئی۔ گکھڑ میں درس کا عنوان تھا ’’اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں‘‘۔ میں نے اس پر تاریخی حوالہ سے گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے:
- اسلامی تاریخ کا آغاز ہی ایک اسلامی ریاست سے ہوا تھا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اجتماعی زندگی کا آغاز ایک ریاست کے قیام سے کیا اور ’’میثاق مدینہ‘‘ کی صورت میں اس کا دستور تشکیل دیا۔ یہ ریاست و حکومت ابتدا میں صرف مدینہ منورہ اور اس کے اردگرد تھوڑے سے علاقے تک محدود تھی جو پھیلتے پھیلتے صرف دس سال کے عرصہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک پورے جزیرۃ العرب کو اپنے دامن میں سمیٹ چکی تھی۔ جبکہ تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں یہ ریاست قلات، کابل، مراکش اور ماوراء النہر کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی۔
- برصغیر پاک و ہند یعنی جنوبی ایشیا میں ایک ہزار سال تک مختلف دائروں میں مسلمان حکمرانوں نے حکومت کی ہے۔ محمد بن قاسمؒ، سلطان محمود غزنویؒ، قطب الدین ایبکؒ، شہاب الدین محمد غوریؒ، شیر شاہ سوریؒ، شمس الدین التمشؒ، اور بابرؒ و ہمایوںؒ سمیت بیسیوں حکمرانوں کی حکومت اس خطہ میں رہی ہے۔ اور ان سب کا عدالتی نظام شریعت اسلامیہ کے مطابق رہا ہے۔ جبکہ ایک ہزار سال کے دوران کسی ایک مسلمان حکمران کی مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی جس نے اندرونی نظام بالخصوص عدالتی قوانین میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی طرف توجہ نہ دی ہو۔ اکبر بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیکولر تھا مگر یہ قطعی طور پر غلط بات ہے۔ اس کا نظام غلط تھا مگر سیکولر نہیں تھا۔ اس کا تو عنوان ہی ’’دین الٰہی‘‘ تھا جو دین کی بگڑی ہوئی شکل تھی، اور اس کے اس سارے کام کی بنیاد ’’اجتہاد مطلق‘‘ کے دعوے پر تھی۔ اس لیے اکبر کے ’’دین الٰہی‘‘ کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر اسے ’’سیکولرازم‘‘ سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔
- انگریزوں کے اس خطہ میں تسلط جمانے کے بعد مزاحمت کی جتنی تحریکیں مسلمانوں کی طرف سے منظم ہوئیں اور مزاحمت کی جس مسلمان تحریک کو جتنے علاقہ میں اور جتنے عرصہ کے لیے قبضہ حاصل ہوا اس میں شریعت کے قوانین کی عملداری قائم کی گئی۔ نواب سراج الدین الدولہؒ، ٹیپو سلطان شہیدؒ، حافظ رحمت خان روہیلہؒ، شہدائے بالاکوٹؒ، حاجی شریعت اللہؒ، تیتومیر شہیدؒ، سردار احمد خان کھرلؒ، حاجی صاحب ترنگ زئیؒ، پیر صاحب آف پگاراؒ، فقیر ایپیؒ، اور دیگر جتنے مجاہدین مختلف علاقوں میں آزادی کے لیے میدان کارزار میں آئے اور انہیں کسی نہ کسی علاقے پر کنٹرول حاصل ہوا، انہوں نے شریعت کے نفاذ کا راستہ اختیار کیا، بلکہ ان کی تحریک اور جہاد کی بنیاد ہی شریعت پر تھی۔
- مسلح تحریکوں کے بعد جب آزادی کی سیاسی تحریکیں شروع ہوئیں تو پہلی عوامی اور احتجاجی جدوجہد تحریک خلافت کے عنوان سے ملک گیر سطح پر منظم ہوئی اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے برصغیر کے عوام کو آزادی کی جدوجہد کے لیے میدان میں کھڑا کر دیا۔ میں تحریک خلافت کو برصغیر کی سیاسی تحریکوں کی ماں کہا کرتا ہوں کہ اسی تحریک نے کانگریس، مسلم لیگ، مجلس احرار اسلام، جمعیۃ علماء ہند اور دیگر تحریکوں کو کارکن فراہم کیے، جبکہ اس تحریک کا مقصد ملک کی آزادی اور ترکی کی خلافت کا تحفظ تھا۔
- انگریزوں کے آنے کے بعد عالمی صورت حال میں یہ تبدیلی آچکی تھی کہ پہلے حکومتوں کا قیام طاقت کے زور پر ہوتا تھا۔ انگلستان میں بھی بادشاہت کا قیام طاقت کے بل پر ہوا تھا، برصغیر پر بھی انگریزوں نے قوت و طاقت سے قبضہ کیا تھا، جبکہ اس سے پہلے مسلمانوں نے بھی اقلیت ہونے کے باوجود جنوبی ایشیا پر ایک ہزار سال تک طاقت کے ذریعہ حکومت کی تھی۔ مگر اب عالمی صورت حال میں یہ رجحان بڑھنے لگا کہ حکومت و ریاست کا قیام طاقت سے نہیں بلکہ ووٹ کی بنیاد پر اکثریت کی رائے سے ہوگا۔ اس سے ہمارے ہاں سر سید احمد خان مرحوم اور دیگر دانشوروں نے اس خطرہ کی طرف توجہ دلائی کہ اگر آئندہ فیصلے ووٹ اور تعداد کے حوالہ سے ہی ہونے ہیں تو متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہیں اس لیے ہم ان کے مغلوب ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ سوچ بڑھتے بڑھتے علامہ اقبالؒ تک پہنچی تو انہوں نے مسلم اکثریت کے علاقوں کو الگ اور آزاد ریاست کی شکل دینے کی تجویز پیش کر دی جسے چودھری رحمت علی مرحوم نے ’’پاکستان‘‘ کا نام دیا۔ اور مسلم لیگ نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر اس کی تحریک چلائی۔ اس تحریک میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے ان کا ساتھ دیا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے واضح طور پر اور بار بار اعلان کیا کہ پاکستان اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور اسلامی قوانین و احکام کی عملداری کے لیے قائم کیا جا رہا ہے۔
ان تاریخی حقائق کی بنیاد پر میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ پاکستان اور اسلام آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور ہمیں آج کے دن اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے ہم سب خلوص کے ساتھ محنت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔