محمد بلال فاروقی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ناظرین! میسج ٹی وی کے ساتھ آپ کا میزبان محمد بلال حاضر خدمت ہے۔ ناظرین! آپ کو معلوم ہے کہ اس ماہ کے وسط میں ترکی میں ایک بغاوت ہوئی جسے وہاں کی عوام نے اور رجب طیب اردگان کی تنظیم کے کارکنان نے ناکام بنا دیا۔ ترکی کی اسلامی دنیا میں ہمیشہ سے اہمیت رہی ہے، اس اہمیت کا تعلق تاریخ سے بھی ہے، جغرافیائی لحاظ سے بھی ہے، اور ویسے اسلامی دنیا کے اندر ایک نمائندہ کے طور پر ترکی گزشتہ دس سالوں کے اندر ابھر کر آیا ہے۔ ترکی کی اسی حالیہ صورتحال کے حوالے سے ہم آج گفتگو کریں گے۔ ہمارے ساتھ مہمان ہیں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث ہیں، گزشتہ پچاس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، روزنامہ اسلام، روزنامہ اوصاف، اور روزنامہ انصاف کے مستقل کالم نگار ہیں۔ ہم نے دعوت دی ہے حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کو۔ حضرت! شکریہ آپ کی تشریف آوری کا۔
سوال: حضرت! سب سے پہلے ہم یہ جاننا چاہیں گے آپ سے کہ ترکی کا تاریخی پس منظر اسلامی دنیا کے حوالے سے کیا ہے، اس کی اہمیت کیا ہے، اس کا کردار کیا رہا ہے؟ پھر درمیان میں جب خلافتِ عثمانیہ کا سقوط ہوا اور اس کے بعد ایک سیکولر ترکی وجود میں آیا اور پھر اب ایک نئی اسلامائزیشن کی طرف جب ترکی جا رہا ہے، اس حوالے سے آپ فرمائیے۔
جواب: الحمد للہ رب العالمین۔ والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین، اما بعد۔ میں شکر گزار ہوں میسج ٹی وی کا کہ اس اہم موضوع پر مجھے گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ یہ واقعی آج کا ایک اہم موضوع ہے۔ ترکی دنیا کا ایک بڑا اہم سوال ہے، بغاوت کے حوالے سے بھی، اور جدید ترکی اپنی پالیسیوں کے حوالے سے بھی، اور عالمی سیاست میں اپنی پیشرفت کے حوالے سے بھی۔
میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ ترکی تو عالم اسلام کے اہم ممالک میں رہا ہے اور ترکی کا ایک رول ہے عالمی سطح پر۔ اسلامی خلافت کا ایک پورا دور ترکی کے نام پر ہے، جو خلافت عثمانیہ کے نام سے تقریباً چار صدیاں دنیا کے منظر پر رہا ہے۔ اور ترکی کو عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن بھی کہا جاتا تھا، اور خلافت عثمانیہ کا مرکز بھی تھا، اور (صرف) حرمین شریفین نہیں بلکہ (اس کے) ساتھ تیسرے حرم شریف بیت المقدس کی خدمت بھی کی ہے اس نے۔ اور مسلسل علمی قیادت بھی کی ہے، فکری قیادت بھی کی ہے، سیاسی قیادت بھی کی ہے۔ اور یہ اسلام کی عالمیت کا علمبردار بھی رہا ہے کہ یورپ، ایشیا، افریقہ، تینوں براعظموں میں ترکی نے اسلام کی سربلندی کا پرچم بلند رکھا ہے۔ اور جو بین الاقوامیت یا گلوبلائزیشن جس کا آج نعرہ لگایا جاتا ہے، ترکی کی خلافت عثمانیہ کے زمانے میں اسلام کے پرچم کے ساتھ وہ گلوبلائزیشن ہم نے تین صدیاں دیکھی ہے اور ترکی اس کا علمبردار رہا ہے۔
ترکی کو مشرقی یورپ میں ان صلیبی جنگوں کا وارث بھی کہا جاتا ہے جو صلیبی جنگیں اس سے پہلے مغربی یورپ اور فلسطین وغیرہ کے علاقوں میں صلاح الدین ایوبی کے دور میں رہی ہیں۔ اس کے بعد بھی صلیبی جنگوں کا ایک اور دور تاریخ شمار کرتی ہے، وہ ترکی کی مشرقی یورپ میں موجودگی اور خلافت عثمانیہ کے حوالے سے مغرب کی صلیبی یلغاروں کا مقابلہ، یہ بھی ترکی کا ایک تاریخی تسلسل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترکی کو خلافت عثمانیہ کے اس دور میں ہی ٹارگٹ کر لیا گیا تھا کہ چونکہ یہ عالم اسلام کی قیادت کر رہا ہے اور اس نے تین براعظموں کو یکجا جوڑ رکھا ہے، تو استعمار کی جو اگلی پالیسی تھی اس کی بنیاد اس پر تھی کہ کسی طریقے سے خلافت کو ختم کیا جائے۔
ترکی کی خلافت کو جن سازشوں کا سامنا رہا وہ ایک طویل داستان ہے، لیکن بہرحال اب سے ایک صدی پہلے، تقریبا ً نوے سال پہلے، ترکی کو خلافت عثمانیہ کے کردار سے محروم کر دیا گیا اور عالم اسلام کی قیادت سے بھی دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ خلافت ختم ہوئی، ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی، لیکن اس جمہوری حکومت کے ساتھ جو معاملہ کیا مغربی ممالک نے کہ ترکی کو اس بات پر تو مجبور کیا گیا، آمادہ کیا گیا کہ وہ خلافت کے ٹائٹل سے دستبردار ہو جائے، اور اس بات پر بھی ترکی کو مجبور کیا گیا کہ وہ شریعت کے قانون سے بھی دستبردار ہو جائے۔ معاہدہ لوزان موجود ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ترکی سے یہ کہا گیا کہ تم یورپین ہو اور تم یورپ کا حصہ ہو، یورپین بن کر رہو۔ لیکن اس کے بعد مسلسل ایک صدی گزرنے کو ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کی ممبرشپ کا لالی پاپ دیا جاتا رہا لیکن آج تک ترکی کو یورپی یونین کا ممبر بنانے کی پیشرفت نہیں ہوئی۔
چنانچہ آج ترکی نے کروٹ لے کر یہ موقف اختیار کیا کہ پہلے ہم کہا کرتے تھے کہ ہمیں ممبر بناؤ تو ہمیں نہیں بنایا گیا، شرطیں لگائی گئیں۔ ان شرطوں کی تاریخ میں جاؤں تو ایک لمبی تاریخ ہے (کہ) یہ شرط پوری کرو، یہ شرط پوری کرو۔ اصل بات یہ ہے کہ نہیں کرنا تھا، ترکی کو خراب کیا گیا، مسلسل پون صدی تک ترکی کا مذاق اڑایا گیا، ترکی کی تذلیل کی گئی، یورپی یونین کی ممبرشپ کا لالی پاپ دے کر اس کو یورپین کہہ کر یورپ سے دور رکھا گیا۔ جس کے نتیجے میں ترکی قوم رد عمل میں آئی۔ باغیرت قوم ہے اور ہوشیار قوم ہے۔ اللہ پاک نے یہ تبدیلی، اس تبدیلی کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس سے پہلے بھی کوششیں ہوئی ہیں، میں اس میں نام لوں گا، جلال بایار کا، عدنان میندرس شہید کا، پھر نجم الدین اربکان کا نام لوں گا، ایک تسلسل ہے آہستہ آہستہ ترکی کے ماضی کی طرف واپسی کا۔
میں نے ترکی کا وہ دور دیکھا ہے، میں ایک واقعہ ریکارڈ پر لانا چاہوں گا، کہ جب وہاں مذہب کا نام لینا اور مذہبی شعائر کی بات کرنا اور اسلام کی بات کرنا ترکی روایات کے منافی سمجھا جاتا تھا۔ ۱۹۸۵ء میں، میں، حضرت مولانا ضیاء القاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ، ہم تینوں لندن جاتے ہوئے ترکی رکے تھے، استنبول میں کچھ ہم نے قیام کیا تھا ایک دو دن۔ جو میں واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں، میرا ایک ذاتی معمول ہے پچھلے پہر چائے کا، ہم تینوں ترکی کے ایک بڑے بازار میں ٹی ہاؤس تلاش کرتے رہے کہ ہمیں چائے کی ایسی دکان ملے جہاں صرف چائے ہو، شراب نہ ہو۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی واک کے باوجود ہمیں کوئی خالص چائے خانہ نہیں ملا۔ اور وہ دن شاید میری زندگی کے چند دنوں میں سے ایک ہوگا، رمضان کے علاوہ، جس دن میں نے عصر کے بعد چائے نہیں پی۔ یہ میرے ساتھ واقعہ ہوا۔ وہ دور بھی دیکھا ہے کہ ترکی میں جو کچھ ہوتا رہا۔
لیکن آہستہ آہستہ ترکی کی رائے عامہ اور عوام نے اس کو محسوس کیا اور وہ واپسی کے عمل پر (آئے)۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ رجب طیب اردگان نے کوئی نئی بات کی ہے۔ اردگان نے ایک کام کیا ہے کہ ترکی کے عوام کو زبان دی ہے، ترکی کے جذبات کی نمائندگی کی ہے، اور ترکی کی عوام جو تبدیلی چاہتے تھے اس تبدیلی کی طرف رجب طیب اردگان نے ان کی رہنمائی کی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو آہستہ آہستہ ترکی اپنی پرانی اقدار کی طرف واپس جا رہا ہے، ترکی کے اقدار میں یہ بات ہے۔
آج لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ ترکی عالم اسلام کی رہنمائی کی بات اور عالمی مسائل پر بات کیوں کرتا ہے؟ ترکی تو تین سو سال قیادت کرتا رہا ہے، یہ ترکی کا حق ہے کہ حرمین شریفین کے مسئلہ پر بات کرے، فلسطین کے مسئلے پر بات کرے، عالم اسلام کی وحدت پر بات کرے۔ ترکی کا حق ہے جو چھینا گیا تھا اور ترکی اپنا حق واپس لینے کے لیے محنت کر رہا ہے۔ اور اس میں رجب طیب اردگان کا اتنا ہی کردار ہے کہ عوام کو اس نے زبان دی ہے، عوام کی رہنمائی کی ہے۔ اصل میں ترکی عوام ہیں جو یہ تبدیلی چاہتے ہیں اور ان کے مشترکہ جذبے سے اور کوششوں سے، جس کا مظاہرہ دیکھ لیے لوگوں نے کہ عوام ہیں جو سڑکوں پر آئے ہیں، عوام ہیں جنہوں نے ٹینکوں کا راستہ روکا ہے، عوام ہیں جو ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے پورے ملک میں (سامنے) آ گئے ہیں۔ اس کو اردگان کی طرف منسوب نہ کیا جائے، یہ ترکی کی عوام کا جذبہ ہے، ان کی اپنی ماضی کے ساتھ وابستگی ہے، اور ترکی کی جو پرانی روایات ہیں ان کے زندہ ہونے کا ایک منظر ہے جو ہم نے دیکھا ہے۔ اور ان شاء اللہ العزیز مجھے امید ہے کہ ترکی اپنے ماضی کی طرف واپسی کا یہ سفر جاری رکھے گا، قربانیاں دینی پڑیں گی، دینی پڑی ہیں، لیکن ان شاء اللہ ماضی کی طرف واپسی کا یہ سفر جاری رکھے گا۔
سوال: مولانا! ہم آپ سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ ترکی پر ایک وقت آیا کہ انہیں معاہدہ لوزان کرنا پڑا اور انہیں اس بات کی گارنٹی دینی پڑی کہ ہم آئندہ خلافت نہیں لے کر آئیں گے۔ اور اس کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک اور ان کی فوج نے ایک باقاعدہ ایک سسٹم کے تحت سیکولر ترکی کا عنوان دیا اور ترکی کو ایک سیکولر ملک بنا دیا اور مذہب پر ہر قسم کی پابندی لگ گئی، حجاب بھی اوڑھنا ممنوع ہو گیا، اذانیں دینا مشکل ہو گیا، اس سب کے باوجود، اتنی سخت پابندیوں اور اس سخت دور کے باوجود، کیا وجہ ہے، وہ کیا حکمت عملی تھی، کیا وہ حکمت عملی ان کی مذہبی جماعتوں کی تھی، مذہبی نمائندوں کی تھی کہ وہ کس طرح واپس اس بات پر لے کر آئے کہ آج پھر ترکی کو ایک اسلام پسند ملک کہا جا رہا ہے ؟
جواب: گزارش یہ ہے کہ پہلی بات تو میں اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ مصطفیٰ کمال اتاترک کا رول کیا تھا؟ آپ اس کو قبول کریں یا نہ کریں، لیکن میرا نقطۂ نظر عام روایتی نقطۂ نظر سے مختلف ہے۔ مصطفیٰ کمال اتاترک کا بہت بڑا کریڈٹ ہے کہ اس نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کو تقسیم ہونے سے اور ترکی کو مغربی یورپی ملکوں کے ہاتھوں حصے بخرے ہونے سے بچایا ہے۔
جہاں تک خلافت کی بات ہے، میرا مطالعہ یہ کہتا ہے، میں نے اس پر خاصا دیکھا ہے، میری رائے یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال اتاترک کی رائے خلافت سے دستبردار ہونے کی نہیں تھی۔ یہ معاہدہ لوزان میں عالمی جبر تھا، ترکی کی قومیت کو، ترکی کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے عالمی طور پر یہ شرط لگائی گئی تھی کہ وہ خلافت سے دستبردار ہوں اور شریعت کو ملک سے دیس نکالا دیں۔
سوال: یعنی یہ خلافت عثمانیہ کا موقف نہیں تھا۔
جواب: میں عرض کرتا ہوں کہ مصطفیٰ کمال کا ذاتی موقف خلافت سے دستبرداری کا نہیں تھا۔ یہ عالمی جبر تھا جس نے مصطفیٰ کمال کو( مجبور کیا)۔ ترکی کی قومیت اور ترکی کی سالمیت کو محفوظ رکھنے کے لیے کہ ترکی کسی طرح ایک ریاست کے طور پر بچ جائے اور حصے بخرے نہ ہوں اس کے کہ کوئی اٹلی لے جائے، کوئی فرانس لے جائے، اور کوئی برطانیہ لے جائے، ترکی کی قومیت کو بچانے کے لیے عالمی جبر کے سامنے ان کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور وہ خلافت اور شریعت سے (دستبردار ہو گئے)۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی مجبوری تھی، میں ان کا دفاع نہیں کر رہا ہوں، لیکن بہرحال یہ مجبوریاں بھی سامنے رکھنی پڑتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک عالمی جبر تھا جس نے ترکی کو اس فیصلے پر مجبور کیا تھا۔ اور جس طرح حالتِ اضطرار میں جان بچانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، میرے خیال میں ترکی کے اس فیصلے کو اس پس منظر میں لینا چاہیے کہ ترکی کو اپنی قومیت اور اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے عالمِ اضطرار میں عالمی جبر کو قبول کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس کے بعد واپسی کا عمل بہت جلد شروع ہو گیا تھا، اگرچہ سیکولر شکنجہ بہت مضبوط تھا، بڑا طاقتور تھا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ عدنان میندرس شہید آئے اور جلال بایار آئے اور انہوں نے ترکی میں عربی زبان اور اذان اور مسجدیں ، اس کی بحالی کا عمل شروع کر دیا۔
سوال: میں اصل میں جاننا چاہ رہا ہوں کہ یہ حکمت عملی کیا تھی ؟کیا ترکی عوام کے اندر ہی یہ چیزیں تھیں کہ وہ واپس آنا چاہ رہے تھے؟
جواب: عوام کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔ پورے اس دور کے ترکی کو دیکھ لیں، دو تین بڑے شہروں کے سوا، استنبول اور انقرہ وغیرہ۔ اندرون ترکی بالکل پرانی کیفیت پر ان کی معاشرت، ان کا طرز، ان کے جذبات پرانی طرز پر رہے ہیں۔ اور عوام کی خواہش تھی کہ ہم کسی طریقے سے اپنے پرانے دور پر واپس جائیں۔ تو عوام کی خواہش آہستہ آہستہ منظم ہوتے ہوتے عدنان میندرس کی شکل میں، پھر نجم الدین اربکان کی شکل میں، پھر رجب طیب اردگان کی شکل میں، یہ عوام کی خواہش اور جذبہ تھا جو آہستہ آہستہ آگے آیا ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اتنی منظم اتنی مضبوط پشت پناہی والی بغاوت صرف عوام کے جذبے کے سامنے سرنڈر ہوئی ہے، ورنہ شاید وہاں کے حالات بہت مختلف ہو چکے ہوتے۔
سوال: مولانا! ترکی ایک کنارے پر واقع ہے یورپ کے ساتھ ، اور جیسے آپ نے کہا کہ یورپی یونین بھی ان کو ایک لالی پاپ دیتی رہی کہ ہم آپ کو اپنے ساتھ شامل کریں گے، اور سیکولر تشخص اس وجہ سے وہ اپنا برقرار رکھنا چاہ رہے تھے اور کافی عرصہ انہوں نے (بلکہ) ابھی تک اس کو برقرار رکھا ہوا ہے، کیا ان لوگوں کی حکمت عملی میں پاکستانی مذہبی جماعتوں کے لیے کوئی راہ عمل ہے، کوئی ایسے نکات ہیں جن پر پاکستانی مذہبی جماعتیں توجہ دیں؟
جواب: میرے خیال میں ترکی میں تبدیلی کے عمل میں عوام کے ساتھ براہ راست تعلق، عوام کے سماجی مسائل، سوشل تعلقات (کا کردار ہے)۔ میرے خیال میں وہاں کی جماعتوں نے مذہب کا ٹائٹل اختیار نہیں کیا اور عوام کے ساتھ روابط اور سماجی خدمت کو (موضوع بنایا) اور عوام کو اپنے ساتھ ملایا ہے اور آہستہ آہستہ ان کو احساس دلایا ہے۔ میرے خیال میں ہمارے لیے بھی اس میں سبق ہے کہ ہم اپنی حکمت عملی کی بنیاد کیا رکھتے ہیں؟ ترکی کی اس تبدیلی کے عمل سے ہمیں بھی سبق حاصل کرنا چاہیے۔ عوام اور رائے عامہ آج کے دور کی بڑی قوت ہے۔ دیکھیں، ایک زمانے میں تلوار کی قوت ہوا کرتی تھی، ایک زمانے میں قبائل کی قوت ہوا کرتی تھی، آج ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ آج کی دنیا میں سب سے بڑا سکہ رائج الوقت پبلک اوپینیئن ہے، عوام اور رائے عامہ ہے۔ ترکی نے اس حقیقت کو سمجھا ہے اور عوام کو اعتماد میں لے کر، رائے عامہ کو منظم کر کے انہوں نے اس تبدیلی کے عمل کا آغاز کیا ہے۔
سوال: مولانا! سوال یہ ہے کہ اس وقت ترکی کے اندر یوں لگ رہا ہے کہ اسلام پسند تقسیم ہو چکے ہیں، یعنی ترکی بغاوت کا زیادہ تر ذمہ دار فتح اللہ گولن صاحب کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو باقاعدہ اپنے آپ کو اسلام پسند ظاہر کرتے ہیں اور انہوں نے بڑی ایک واضح جدوجہد بھی کی ہے اس کے لیے اور محنت بھی کی۔ رجب طیب اردگان پہلے ان کے ساتھ تھے، بعد میں ان سے اپنا تعلق علیحدہ کیا۔ تو آپ کیا اس تقسیم کو درست سمجھتے ہیں؟ پھر جو طیب اردگان کا اس بغاوت کے بعد کا طرز عمل ہے، اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: دیکھیں، ایک تبدیلی آ رہی ہے، ایک پراسس سے آ رہی ہے، اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے، اس کے نتائج کا انتظار کیے بغیر اس کو سبوتاژ کرنا، خواہ سیکولرازم کے نام سے ہو یا مذہب کے نام سے ہو، نتیجہ ایک ہی ہے، میں کوئی فرق نہیں کرتا، کہ ایک مثبت تبدیلی آ رہی ہے اور ترکی اپنے ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے اور عوام کو ایک رہنمائی مل رہی ہے، تو اس کو سیکولر ٹائٹل سے سبوتاژ کیا جائے تب بھی نتیجہ وہی ہے، اور مذہب کے ٹائٹل سے اس کو سبوتاژ کیا جائے تب بھی نتیجہ وہی ہے۔ میرے خیال میں فتح اللہ گولن صاحب کو، میں ان کے تمام تر افکار و تعلیمات کو سمجھتے ہوئے، یہ پالیسی کے اعتبار سے ان کی پالیسی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ بجائے اس کے کہ وہ ایک تبدیلی کے عمل کو سپورٹ کریں، انہوں نے تبدیلی کے عمل کو روکنے کی کوشش کی ہے، اگر انہوں نے کیا ہے تو۔ ان کے نظریات و افکار ٹھیک ہوں گے، لیکن پالیسی اور طرز عمل ان کا ٹھیک نہیں ہے، اور اگر وہ اس میں پشت پناہ ہیں تو ان کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
سوال: مولانا آخری سوال، آپ نے دیکھا کہ پاکستان میں بھی ایک چھوٹی سی بغاوت کی کوشش ہوئی تھی، جس کو عام طور پر خلافت آپریشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کے بعد اس آپریشن سے متعلقہ لوگوں کے ساتھ بھی ایک کارروائی ہوئی، ان کو سزا دی گئی۔ اور اب ترکی کے اندر یہ ایک ناکام بغاوت ہوئی ہے اور اس کے بعد رجب طیب اردگان ایک خاصا سخت ردعمل ان کے خلاف دے رہے ہیں، تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اتنا سخت رد عمل ٹھیک ہے؟
جواب: ایک بات تو میں اردگان صاحب سے کہنا چاہوں گا کہ ان کو تھوڑا سا صبر سے کام لینا چاہیے، لیکن میں دوسرا پہلو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ میرا سوال ہے اس حوالے سے، روس میں جب انقلاب آیا تھا تو انقلاب کو مستحکم کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوا تھا؟ چائنہ میں جب انقلاب آیا ہے تو اس انقلاب کو مستحکم کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوا تھا؟ ابھی حال میں ایران میں انقلاب آیا ہے تو انقلاب کو مستحکم کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوا تھا؟ یہ اعتراض صرف ترکی پر کیوں ہے؟ اگر وہ اپنے انقلاب کو، اپنے سیٹ اپ کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ ان کو جبر بھی کرنا پڑ رہا ہے تو ہم جبر دیکھ چکے ہیں، ایران میں دیکھا ہے، چائنہ میں دیکھا ہے، ہم نے رشیا میں دیکھا ہے۔ اور آج اس کے کچھ تقاضے ہیں تو ہمیں اِن کو رعایت دینی چاہیے اور اُن کو تھوڑا سا نرم ہونا چاہیے۔ میں دونوں طرف یہ پیغام دوں گا کہ اپنے سیٹ اپ کے استحکام کے لیے کچھ اِن کو مجبوریاں ہوں گی، ان کا لحاظ رکھنا چاہیے ہمیں۔ اور اُن کے لیے میرا پیغام یہ ہوگا کہ جناب! تھوڑا سا آپ بھی حوصلے سے کام لیں، پوری قوم کو ساتھ لے کر چلیں اور کوشش کریں۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر ایسے موقع پر وہ فتح مکہ والی سیرت کا مظاہرہ کر سکیں تو میرے خیال میں ان کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔
محمد بلال فاروقی: جزاکم اللہ، مولانا! بہت شکریہ آپ کے وقت دینے کا۔ ہم پھر آپ سے ان شاء اللہ وقت لیں گے۔ تو ناظرین! آج ہمارے ساتھ تھے مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، ان شاء اللہ آئندہ کسی نئے موضوع کے ساتھ پھر حاضر ہوں گے، اس وقت تک کے لیے اللہ حافظ۔