حضرت مولانا رشید احمد لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی امتیازی خوبیوں سے نوازا تھا اور ان کی حیات و جدوجہد متعدد حوالوں سے علماء کرام اور اہل دین کے لیے آئیڈیل اور مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک بڑا حوالہ ”الرشید ٹرسٹ“ کا ہے جس کے ذریعہ حضرت مفتی صاحبؒ نے رفاہی خدمات کی طرف دینی حلقوں اور علماء کرام کو متوجہ کیا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم سنت کو دینی حلقوں میں زندہ کیا۔ معاشرہ کے غرباء اور نادار افراد کی خدمت اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی سماجی بہبود کے لیے الرشید ٹرسٹ کی خدمات کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور بہت سے علاقوں کے نادار طبقات و افراد اس سے استفادہ کر رہے ہیں، مگر میرے نزدیک اس کا سب سے زیادہ اہم اور مؤثر پہلو یہ ہے کہ اس نے سماجی خدمت کے بارے میں دینی حلقوں کو غفلت سے بیدار کر دیا ہے اور ”الرشید ٹرسٹ“ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت سے علماء کرام اور دینی ادارے اس خدمت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
ویسے تو دینی مدارس کا وجود ہی بہت بڑی سماجی خدمت کا ذریعہ ہے، جس کا اعتراف صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف بھی یہ کہہ کر کھلے بندوں کر چکے ہیں کہ یہ سب سے بڑی این جی او ہے جو لاکھوں افراد کی تعلیم، خوراک، رہائش اور صحت و علاج وغیرہ کا اہتمام کرتی ہے۔ لیکن اس دائرہ سے ہٹ کر عام مسلمانوں میں بھی سماجی خدمات کا اہتمام ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے، جس کی طرف دینی اداروں اور حلقوں کی عام طور پر توجہ کم ہوتی ہے۔
نادار لوگوں کی کفالت اور صحت و تعلیم نیز خوراک و رہائش کی سہولتیں فراہم کرنے کی یہ محنت سماجی خدمت کے علاوہ اب ایک ہتھیار کی حیثیت بھی اختیار کر چکی ہے جس کا فائدہ زیادہ تر وہ مسیحی مشنریاں اور این جی اوز اٹھا رہی ہیں جن کے پروگرام کا سب سے بڑا ہدف مسلم معاشرہ میں فکری انتشار پیدا کرنا اور مسلمانوں کو ارتداد کا شکار بنانا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، نائجیریا اور دیگر بیسیوں مسلم ممالک میں اس قسم کی ہزاروں این جی اوز اور مشنریاں تعلیم و صحت کے میدان میں سماجی خدمات فراہم کرنے کے عنوان سے سرگرم عمل ہیں اور لاکھوں مسلمانوں کو ان کے ایمان سے محروم کر چکی ہیں۔ اس حوالہ سے بھی آج کے دور کی ناگزیر ضرورت ہے کہ سماجی خدمات کے اس شعبہ کی طرف دینی ادارے اور حلقے متوجہ ہوں اور عام مسلمانوں کا ایمان بچانے کے لیے سرگرم عمل ہوں۔
حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز نے وقت کی اس اہم ترین دینی ضرورت کی طرف مؤثر عملی پیشرفت کر کے دینی حلقوں کو تگ و تاز کا ایک نیا میدان فراہم کر دیا ہے اور میرے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ اب اور حلقے بھی اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں الرشید ٹرسٹ کے نقش قدم پر چلنے کا ذوق بیدار ہو رہا ہے۔
حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کے رفقاء میں سے ایک بزرگ حضرت مولانا محمد اسحاق قادری نور اللہ مرقدہ بھی تھے جو باغبانپورہ لاہور کے رہنے والے تھے اور دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث میں حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اور میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے ہم سبق تھے۔ ان تینوں بزرگوں نے ایک ہی سال شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنؒی سے دارالعلوم دیوبند میں حدیث نبویؐ پڑھ کر سندِ فراغت حاصل کی تھی۔ حضرت مولانا محمد اسحاق قادریؒ کا روحانی تعلق شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لدھیانویؒ سے تھا اور وہ روحانی اور تعلیمی دونوں حوالوں سے ”فنا فی الشیخ“ کے مقام پر فائز تھے، حضرت لدھیانویؒ سے انہوں نے کسبِ فیض کیا اور ان کی خدمت میں زندگی کا ایک حصہ گزار دیا۔ شیخ کی وفات کے بعد زندگی بھر ان کے مشن کو جاری رکھا، درس قرآن کریم کا خصوصی ذوق تھا، حضرت لاہوریؒ کی طرز پر ترجمہ و تفسیر پڑھاتے تھے، ہزاروں لوگوں نے ان سے استفادہ کیا اور ان کے تفسیری حواشی کو ان کے فرزند و جانشین مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر نے منضبط کر لیا ہے اور انہیں حضرت لاہوریؒ کے ترجمہ کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام بھی ہو رہا ہے۔ میں نے یہ حواشی دیکھے ہیں۔ حضرت مولانا محمد اسحاق قادریؒ کی زندگی بھر کی محنت کا خلاصہ ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے تفسیری افادات کا نچوڑ اس میں آ گیا ہے۔
ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر نے اس مشن کو سنبھالا۔ باغبانپورہ میں مسجد امن اور چوک یادگار شہیداں میں جامع حنفیہ قادریہ کے نام سے دینی درسگاہ اور دیگر تعلیمی ادارے حضرت مولانا محمد اسحاق قادریؒ کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہیں، جن کی نگرانی اور اہتمام اب قاری جمیل الرحمٰن اختر کے ذمہ ہے۔ قاری موصوف مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں اور ہمارے ساتھ ”پاکستان شریعت کونسل“ میں مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر شریک کار ہیں۔
گذشتہ دنوں انہوں نے لاہور میں جی ٹی روڈ پر مومن پورہ کی دوبئی پارک میں ”قادری وقف ہسپتال“ کی تعمیر کا آغاز کیا جو ایک کنال رقبہ پر تعمیر کیا جا رہا ہے اور اسے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ، حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسروری، حضرت مولانا محمد شعیبؒ اور حضرت مولانا محمد اسحاق قادریؒ کی یادگار کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔ یہ سب بزرگ سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کے شیوخ ہیں اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے وابستگان ہیں، جنہوں نے تعلیمی اور روحانی محاذ پر نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں اور اسی مناسبت سے اس ہسپتال کا نام ”قادری ہسپتال“ رکھا گیا ہے۔ تئیس مارچ کو اس کے سنگ بنیاد کی تقریب تھی، جس کے لیے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ اور اٹک شہر سے حضرت مولانا قاضی محمد ارشد الحسینی بھی تشریف لائے تھے اور ان کے علاوہ مولانا عبدالکریم ندیم، مولانا قاری عبدالحی عابد، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مولانا میاں عبدالرحمٰن، مخدوم منظور احمد تونسوی اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے بھی شرکت کی۔ قادری ہسپتال اور مسجد امہات المومنینؓ کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور ایک بھرپور تقریب سے بزرگان دین نے خطاب کیا۔
راقم الحروف نے اس موقع پر عرض کیا کہ سماجی خدمت ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر غار حرا میں وحی کے نزول کے بعد آقائے نامدارؐ کا جو پہلا تعارف ہمیں احادیث میں ملتا ہے وہ سماجی خدمت کے حوالہ سے ہے۔ اس لیے کہ جب وحی کے نزول کے اچانک واقعہ پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوئی تو ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ ”پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کے کام آتے ہیں، ناداروں کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں، ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں اور مسافروں کی خدمت کرتے ہیں۔“ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے تعارف ہے، جو وحی کے نزول کے بعد احادیث کے ذخیرہ میں واقعات کی ترتیب میں سب سے پہلا تذکرہ ہے۔
مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر نے اس موقع پر اعلان کیا کہ دس بیڈ کا یہ ہسپتال غریب عوام کے مفت علاج کے لیے قائم کیا جا رہا ہے، جس کی تعمیر پر کم و بیش چار کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ ایک کنال رقبہ پر تعمیر کیا جانے والا یہ ہسپتال چار منزلہ ہو گا اور اس میں غریب عوام کو علاج کی جدید ترین سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
اس تقریب میں احباب کے جذبات دیکھ کر میرے ذہن میں حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کی یاد تازہ ہو گئی اور ان کے لیے دل سے دعا نکلی کہ انہوں نے علماء کرام اور دینی حلقوں کو ایک بھولے ہوئے سبق کی طرف توجہ دلائی ہے، جو دینی فریضہ بھی ہے اور کفر و ارتداد کے خلاف جدوجہد کا ایک مؤثر ہتھیار بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کے درجات بلند فرمائیں اور ان کے اس مشن کو مسلسل ترقیات و قبولیت سے نوازتے رہیں، آمین يا رب العالمین۔