سودی نظام کا کولہو اور اس کے بیل

   
۲۹ جون ۲۰۰۲ء

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سودی نظام کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کر کے اس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے اور اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں بہت سے سقم باقی رہ گئے ہیں جن کی اصلاح اور فیصلے کو جامع بنانے کے لیے اس کیس کی دوبارہ سماعت ضروری ہے جس کے دوران فریقین پہلے سے اٹھائے گئے نکات کے علاوہ نئے نکات بھی اٹھا سکیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد وہ کنفیوژن ختم ہوگئی ہے جو سودی نظام کے مستقبل کے بارے میں ملکی اور بیرونی حلقوں میں پائی جاتی تھی اور وہ خدشات بھی ذہنوں سے نکل گئے ہیں جو سودی نظام کے خاتمہ کی صورت میں ملکی معیشت کے ڈھانچے میں پیدا ہونے والے خلفشار کے حوالہ سے مسلسل گردش کر رہے تھے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں سقم کی موجودگی، اس پر نظر ثانی کی ضرورت، اور اس کی نئے سرے سے سماعت کے لیے وفاقی شرعی عدالت کو ہدایت کے حوالہ سے ہے، اس لیے اس پہلو پر کچھ عرض کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

اب یہ کیس دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں سماعت کے لیے پیش ہوگا، فریقین کے وکلاء دلائل کے تبادلہ کا ایک نیا سلسلہ شروع کریں گے، بہت سے اعتراضات اٹھائے جائیں گے، باہمی بحث و مباحثہ ہوگا، اس کے بعد معلوم ہوگا کہ وفاقی شرعی عدالت اپنے پہلے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے یا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اس لیے اس بنیادی سوال پر تو ہم کچھ عرض نہیں کریں گے البتہ بعض متعلقہ امور کے بارے میں چند گزارشات ضرور پیش کرنا چاہیں گے جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ اگر ان پر متعلقہ حلقے سنجیدہ توجہ دیتے تو شاید اس فیصلہ تک نوبت نہ آتی۔ اور اب بھی یہ اس لیے عرض کرنا ضروری ہے کہ کیس کی ازسرنو سماعت کے موقع پر اگر یہ امور سنجیدہ توجہ کے مستحق نہ ٹھہرے تو ہمارا اندازہ ہے کہ نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں ہوگا اور خاص طور پر دینی حلقے اور ان کی قیادت ’’بعد از مرگ واویلا‘‘ کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گی۔

ملک کے معاشی ڈھانچہ کے بارے میں بنیادی فیصلہ کے لیے ہم نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ صرف کر دیا ہے مگر ابھی تک ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہیں۔ فیصلے میں اس قدر تاخیر کے اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ذمہ داری بنیادی طور پر دینی قیادتوں اور اہل علم و دانش کے ان حلقوں کی ہے جو سودی معیشت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اسے ملکی نظام کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمہ کے متمنی ہیں۔ ہمارے خیال میں ان دونوں حلقوں نے ابھی تک اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا ورنہ اگر عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ناموس رسالتؐ کے دفاع کی طرح اس مسئلہ کو بھی دینی حلقے اپنی ترجیحات میں صحیح جگہ دے دیں اور اس کے لیے عوامی ذہن کو تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام طبقات کو اعتماد میں لینے، کیس کو صحیح طریقے سے لڑنے اور علمی و عوامی دونوں محاذوں پر دباؤ کو منظم کرنے کے لیے مناسب جدوجہد کریں تو نتائج پر ان کی گرفت اس قدر ڈھیلی نہیں رہے گی جیسا کہ اب صاف طور پر دکھائی دینے لگی ہے۔

ہمیں عدالت عظمیٰ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے UBL کی رٹ کی سماعت کے دوران ایک فاضل جج کے ان ریمارکس سے مکمل اتفاق ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرنے والے وکلاء کی تیاری مکمل نہیں تھی۔ اور خود ہمارا تاثر بھی یہی ہے کہ وہ سرکاری وکلاء کے دلائل اور نکات کا جواب دینے کی بجائے روایتی باتیں دہرانے اور جذبات کو اپیل کرنے والی باتوں پر اکتفا کر رہے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ سرکاری وکلاء بالخصوص سید ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ نے جو نکات اٹھائے اور جس طرح محنت کر کے اپنا کیس پیش کیا، ان دلائل و نکات کا غلط یا صحیح ہونا اپنے مقام پر مگر دلائل کی تلاش میں ان کی محنت اور عوامی ذہن کو متاثر کرنے والے طرز استدلال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر دوسری طرف اس کا فقدان تھا جس کی وجہ یہ نہیں کہ سرکاری وکلاء کے دلائل اور نکات کا کوئی جواب نہیں ہے، ان دلائل کا جواب موجود ہے اور ہم ان کالموں میں سرکاری وکلاء کی اس بحث کا جائزہ لینے اور علمی انداز میں اس کے دلائل و نکات کا جواب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ہمارے نزدیک اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں۔

  • وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرنے والے وکلاء نے نئی تیاری کی ضرورت محسوس نہیں کی اور سابقہ دلائل اور نکات کے دہرانے کو ہی کافی سمجھا۔
  • سرکاری وکلاء کی طرف سے پیش کیے جانے والے دلائل اور نکات کو انہوں نے درخور اعتنا نہیں سمجھا اور عوامی سطح پر ان کے اثرات پر توجہ نہیں دی۔
  • ملک کی بڑی دینی جماعتوں، علمی مراکز اور علمی شخصیات نے اس کیس میں براہ راست دلچسپی لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اس میں کوئی رول ادا نہیں کیا۔
  • پاکستان شریعت کونسل نے رٹ کی سماعت کے دوران ایک تفصیلی عرضداشت سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ کے معزز ارکان اور فریقین کے وکلاء کو بھجوائی تھی جس میں ان بہت سے نکات کا جواب موجود تھا جن کی بنیاد پر اس فیصلے کو دوبارہ سماعت کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے پاس بھجوایا گیا ہے۔ مگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرنے والے وکلاء تک نے اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں فرمائی۔
  • جتنا وقت سرکاری وکلاء کو اپنا موقف اور دلائل پیش کرنے کےلیے دیا گیا دوسری طرف کے وکلاء کو جواب دینے کے لیے اتنا وقت نہیں ملا اور وہ اپنی بات دل جمعی کے ساتھ نہیں کہہ سکے۔

وجوہات کچھ بھی ہوں مگر نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ہم سودی نظام اور غیر اسلامی ڈھانچے کے حوالہ سے ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر واپس چلے گئے ہیں اور اب ہمیں نئے سرے سے اپنے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ ایک نظر ان مراحل پر ڈال لیجیے جن سے گزر کر ہم نے ’’کولہو‘‘ کے گرد یہ چکر مکمل کیا ہے۔

  1. پاکستان کا قیام اسلامی نظام، اسلامی معاشرت اور اسلامی معیشت کے نفاذ کے لیے عمل میں لایا گیا تھا جس پر بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم اور دیگر قائدین کی صراحتیں موجود ہیں۔
  2. یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان کے لیے ایک نئے معاشی نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد مغرب کے معاشی افکار پر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پر ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ماہرین معیشت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ملک کے معاشی ڈھانچے کی جلد از جلد تشکیل کی طرف توجہ دیں۔
  3. قیام پاکستان کے بعد ربع صدی دستوری تجربات اور اکھاڑ پچھاڑ میں صرف ہوگئی، اس کے بعد ۱۹۷۳ء کا دستور نافذ ہوا تو اس میں ملک کے تمام قوانین اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی ضمانت دی گئی جن میں سودی نظام اور ملک کا معاشی ڈھانچہ بھی شامل تھا۔
  4. جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے وفاقی شرعی عدالت قائم کی تو ابتداء میں مالیاتی معاملات کو دس سال تک اس کی دسترس سے باہر رکھنے کی شرط لگائی تھی۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ دس سال کے بعد اسے معاشی نظام کے بارے میں فیصلہ کرنے اور رائے دینے کا اختیار حاصل ہوگیا تھا۔
  5. اسلامی نظریاتی کونسل نے ۱۹۸۸ء میں سودی نظام کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پیش کی جس میں اس نے سودی نظام کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر مشتمل متبادل معاشی نظام کا ڈھانچہ پیش کر دیا تھا۔
  6. وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۱ء میں سودی نظام کو مکمل طور پر غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ ایک متعینہ مدت کے اندر ان قوانین کو تبدیل کرے۔
  7. اس فیصلہ کے خلاف حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ نے بھی اس فیصلہ کی توثیق کر دی اور حکومت کو ۳۰ جون ۲۰۰۲ء تک مہلت دی کہ وہ سودی قوانین ختم کر کے ملک میں اسلامی نظام معیشت کی بنیاد رکھے۔
  8. اور اب سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو منسوخ کر کے اس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا ہے۔

ان مراحل سے گزرنے کے بعد بھی اگر ہم ابھی تک اسی مقام پر کھڑے ہیں کہ ہم نے سود اور استحصال پر مبنی معاشی ڈھانچہ کو ہاتھ بھی لگانا ہے یا نہیں تو یہ ایک قومی المیہ ہے۔ اور اس المیہ کے رونما ہونے کے اسباب میں ہم سب کسی نہ کسی درجہ میں ضرور شریک ہیں اس لیے ہر طبقہ اور شخص کو اس کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔

جہاں تک کسی نظام کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کا تعلق ہے ہم اس صلاحیت سے محروم نہیں ہیں، ہم تو ایک فون کال پر پورے سسٹم اور پراسیس میں ’’یو ٹرن‘‘ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر اسے نباہنے اور بھگتنے کا حوصلہ بھی ہمارے اندر موجود ہے۔ اس لیے بات سسٹم کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور اس تبدیلی کے نقصانات برداشت کرنے کے حوصلہ کی نہیں ہے بلکہ اصل بات کچھ اور ہے۔ جب تک ہم اس بات کا پوری طرح ادراک کر کے اسے گرفت میں لانے کی کوشش نہیں کریں گے نو آبادیاتی استحصالی نظام کے ’’کولہو‘‘ کے گرد اسی طرح چکر کاٹتے رہیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter