۸ مئی بدھ کو مدرسہ قاسمیہ ہمک اسلام آباد اور جامعہ فریدیہ سی بی آر ٹاؤن اسلام آباد میں اساتذہ کی نشستوں سے خطاب۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ماہِ رواں کے دوران پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں دینی مدارس کے تعلیمی سال کا آغاز ہو رہا ہے جن کی تعداد مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ بیان کی جاتی ہے جبکہ ان میں پڑھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان مدارس کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ دین کی تعلیم اصل مآخذ اور اوریجنل سورسز سے دیتے ہیں جو دنیا کا مسلّمہ تعلیمی اصول ہے کہ کسی بھی علم یا فن کی تعلیم اصل ماخذ سے دی جاتی ہے اور اس کا نصاب اس کی بنیادی تعلیمات کی بنیاد پر ترتیب دیا جاتا ہے۔ ثانوی مآخذ اور سیکنڈری سورسز معلومات کا باعث تو بنتے ہیں اور اس کی افادیت رکھتے ہیں مگر تعلیم اور اس کا نصاب کسی بھی علم اور فن میں ان کو ذریعہ نہیں بنایا جاتا۔ قانون کی تعلیم کا نصاب ہو، انجینئرنگ کے کسی درجہ کے نصاب کی تشکیل ہو، یا تاریخ اور جغرافیہ بلکہ کوئی بھی مضمون ہو، اس کا تعلیمی نصاب ثانوی درجہ کی معلومات سے نہیں بلکہ فن اور علم کے اصل مآخذ سے ترتیب دیا جاتا ہے۔
مگر ہمارے ہاں یہ عمومی مزاج بن گیا ہے کہ باقی علوم و فنون میں تو اصل سورسز کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن دین کے بارے میں ثانوی مآخذ بلکہ سنی سنائی باتوں اور ادھر ادھر سے حاصل ہونے والی معلومات کو ذریعہ بنا لیتے ہیں جس سے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔ اور ہماری موجودہ فکری اور اعتقادی الجھنوں میں بیشتر کا سبب یہی ہے۔ اس ماحول میں مسلمانوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے جنوبی ایشیا کے یہ دینی مدارس جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور احسان ہے اور دن بدن ان کے دائرہ میں وسعت اور تنوع اس کی قبولیت کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت کا بھی ثبوت ہے۔
قرآن کریم، حدیث و سنت اور فقہ و شریعت کو خود انہی کی بنیاد پر پڑھانا اور ان سے استفادہ کر کے پیش کیے گئے علمی مواد اور نتائج کو معاون کے درجہ میں رکھنا ان مدارس کا نمایاں امتیاز ہے جس کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں جنوبی ایشیا کے یہ دینی مدارس اپنا الگ مقام اور شناخت رکھتے ہیں۔ ثانوی مآخذ سے علم حاصل کرنے کے دو پہلو ہمارے ہاں نوجوان نسل اور جدید تعلیم یافتہ طبقوں میں جو جگہ بناتے جا رہے ہیں ان کے نقصانات اہلِ علم و دانش سے مخفی نہیں ہیں، اور ان پر نظر رکھنا بھی دینی حلقوں، مراکز اور مدارس کے لیے ضروری ہے۔
مثلاً دینی علوم کی براہ راست تعلیم نہ ہونے اور عربی زبان اور لٹریچر سے ناآشنائی کی وجہ سے ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ حلقوں میں مستشرقین کی تصنیفات سے استفادہ کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، اور قرآن پاک، حدیث اور فقہ کے بارے میں بھی انہی کی کتابوں کا معمول ہوتا جا رہا ہے، جس سے صرف ان سے علم حاصل نہیں ہوتا بلکہ دینی علوم کو جس مقاصد کے لیے مستشرقین نے اپنا موضوعِ تحقیق بنایا ہے وہ فکر اور ہدف بھی ذہنوں میں منتقل ہو جاتا ہے، اور ان کو اپنے علم اور معلومات کا ذریعہ بناتے ہوئے وہ خود اپنے علمی ماضی اور لٹریچر سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ خصوصاً جب مغرب کے مسیحی اور یہودی اہلِ دانش کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور بعض اسلامی تعلیمات کی تعریف میں رطب اللسان دیکھتے ہیں تو ان کی فریفتگی قابل دید ہوتی ہے اور وہ اپنی ہر بات کو طاق نسیاں میں رکھ دیتے ہیں۔ جبکہ غیر مسلم دانشور خصوصاً یہودی اور مسیحی مستشرقین کا اپنی کسی بھی علمی ریسرچ کا بنیادی ہدف اسلامی تعلیمات میں ان کے خیال میں کمزوریوں کو تلاش کرنا اور انہیں اجاگر کر کے مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کے بیج بونا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر معروف مستشرق ’’فلپ کے ہٹی‘‘ کی اسلام اور عربوں کے حوالے سے ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ اب سے کم و بیش چار عشرے قبل ایک دوست نے مجھے دہلی سے شائع ہونے والا اس کا اردو ترجمہ ’’عرب اور اسلام‘‘ یہ کہہ کر پڑھنے کے لیے دیا کہ اس میں اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور یہ پڑھنے کے قابل کتاب ہے۔ میں نے جب اس کا مطالعہ کیا تو ساری کتاب کا خلاصہ یہ سامنے آیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نسل انسانی کے بہت بڑے ریفارمر تھے اور ان کی تعلیمات بہت اچھی تھیں جس کی بنیاد پر عرب تہذیب تشکیل پائی اور اس نے دنیا میں عروج حاصل کیا، مگر یہ تہذیب عربوں کی تہذیب تھی، نسل انسانی کے لیے نہیں تھی۔
میں نے اس دور میں اس کتاب پر نقد لکھا جو ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں قسط وار شائع ہوا، اس پر مجھے بخاری شریف کی ایک حدیث یاد آ گئی کہ مدینہ منورہ کے ایک یہودی نوجوان ابن الصیاد کی الٹی سیدھی حرکتوں سے کچھ لوگ متاثر ہونے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس سے ملاقات کر کے اس کی حقیقت کو معلوم کرنے کی کوشش فرمائی۔ اس ملاقات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے پوچھا کہ ’’اتشہد انی رسول اللہ؟‘‘ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو اس یہودی نوجوان نے جواب دیا کہ ’’اشہد انک رسول الامیین‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ عربوں کے رسول ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مستشرقین کی تمام تر علمی و فکری محنت کی بنیاد ابن الصیاد کا یہی جملہ ہے کہ وہ پوری دنیا سے اسلام کو عربوں کی تہذیب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں کے ریفارمر کے طور پر تسلیم کرانے کے لیے مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔
ایک مثال اور عرض کرنا چاہوں گا، چند سال قبل ہمارے ملک کی ایک بڑی سیاسی شخصیت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہہ دیا کہ وہ تاریخ کی ایک گمنام شخصیت ہیں۔ اس پر ملک بھر میں بہت شور مچا تو میں نے اس پر عرض کیا تھا کہ وہ صاحب معذور ہیں اس لیے کہ انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا تعارف ’’انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا‘‘ میں پڑھ رکھا ہے جس میں یہ صراحت موجود ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ہمارے پاس تین چار واقعات کے سوا کوئی مستند مواد موجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے جو یہ پڑھ کر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں رائے قائم کرے گا اس کی رائے اسی طرح کی ہو گی۔ جبکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں صحیح اور مکمل تعارف وہی ہے جو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں موجود ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دینی علوم کو ان کے اصل مآخذ اور سورسز سے حاصل کرنا اور ثانوی مآخذ کو تعلیم کی بنیاد نہ بنانا ہی اسلامی تعلیمات اور تہذیب و ثقافت تک رسائی کا صحیح ذریعہ ہے، اور بحمد اللہ تعالیٰ دینی مدارس نے اس اصول اور ماحول کو انتہائی جفا کشی، محنت، ذوق اور جہدِ مسلسل کے ساتھ قائم رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ترقیات، کامیابیوں اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں اور ہم سب کو ان کے ساتھ تعاون کرتے رہنے اور ان کی ہر حوالہ سے سرپرستی کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔