۵ جون ۲۰۰۰ء سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک خصوصی اجلاس ’’بیجینگ پلس ۵‘‘ کے عنوان سے شروع ہے جو ۹ جون تک جاری رہے گا اور اس میں خواتین کے حقوق کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے پروگرام کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کانفرنس کا موضوع ’’خواتین کی صنفی مساوات اور اکیسویں صدی‘‘ بتایا جاتا ہے اور یہ ان عالمی کانفرنسوں کے تسلسل کا حصہ ہے جو خواتین کے حقوق اور مساوات کو اجاگر کرنے کے لیے اس سے قبل مختلف اوقات میں کوپن ہیگن، نیروبی، قاہرہ اور بیجنگ میں منعقد ہو چکی ہیں۔ اور جن میں یہ بات بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مرد اور عورت میں تمام معاملات میں مکمل مساوات کا اہتمام ہر سطح پر ضروری ہے اور مرد و عورت کے صنفی فرق کی بنیاد پر مختلف ممالک میں جو امتیازی قوانین موجود ہیں انہیں ختم کر دینا چاہیے۔
اس سلسلہ میں اس سے قبل منعقد ہونے والی خواتین کانفرنسوں میں اقوامِ متحدہ کے مجوزہ پروگرام کو سفارشات اور تجاویز کی صورت میں پیش کیا جاتا رہا ہے اور مختلف ممالک پر اخلاقی دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ وہ ان سفارشات پر عملدرآمد کا اہتمام کریں اور ان سے متصادم جو قوانین ان ممالک میں نافذ ہیں ان میں ترمیم کی جائے۔ لیکن اب ان سفارشات کو باقاعدہ طور پر جنرل اسمبلی کی قرارداد کی شکل دی جا رہی ہے جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے لیے ان ممالک کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز پیدا ہو جائے گا جو ان سفارشات کو قبول نہیں کر رہے اور جن کے قوانین ان سے متصادم ہیں۔ اس سے قبل عراق، ایران، لیبیا، سوڈان اور دیگر ممالک کے خلاف اقوامِ متحدہ کی طرف سے جو تادیبی کارروائیاں کی گئی ہیں وہ جنرل اسمبلی اور سلامی کونسل کی بعض قراردادوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی کی گئی ہیں ۔ اس لیے اب یہ امکان واضح ہوتا جا رہا ہے کہ جو ممالک عورتوں کے حقوق اور نکاح و طلاق اور وراثت کے خاندانی قوانین کے بارے میں اپنے امتیازی قوانین کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے ان کے خلاف اقوامِ متحدہ کی طرف سے کارروائی کی جا سکے گی۔ اور اس طرح دنیا کے مختلف حصوں کے خاندانی کلچر اور مذہبی قوانین کو ختم کرنے اور انہیں مغرب کے مروجہ ’’بین الاقوامی ثقافت‘‘ میں ضم کرنے کی ایک نئی مہم شروع ہو جائے گی۔ جنرل اسمبلی کے ’’بیجینگ پلس ۵ سیشن‘‘ کے لیے مجوزہ قرارداد کا ایک مسودہ ۲۰ اپریل ۲۰۰۰ء کو جاری کیا گیا ہے جس کے بعض حصے درج ذیل ہیں:
- جنس، نسل، مذہب، معذوری، عمر یا جنسی رجحانات کی بنیاد پر امتیاز کو ختم کرنے کے لیے قوانین نافذ کیے جائیں۔
- جنسی رجحانات کی بنا پر امتیاز کرنے والے قوانین ختم کیے جائیں، ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے والے قوانین منسوخ کیے جائیں کیونکہ ایسے قوانین ہم جنس پرست خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو تقویت دیتے ہیں۔
- عورتوں کو گھریلو اور تولیدی ذمہ داریوں پر معاوضہ ادا نہ کرنا ان کی غربت ختم کرنے میں رکاوٹ ہے، ان کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور حصہ بہت کم، اس عدم توازن کو مناسب پالیسیوں اور پروگرامز کے ذریعے ختم کرنا چاہیے۔ بالخصوص تعلیمی میدان میں اور جہاں ضرورت ہو قانون سازی کے ذریعے سے۔ نیز گھریلو ذمہ داریوں میں مرد و عورت کی مساوی شرکت کے حوالہ سے رائے عامہ کو حساس اور بیدار کرنے کے لیے عوامی مہم منظم کی جائے۔
- بیوی کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق قائم کرنے اور گھریلو تشدد کی دوسری صورتوں سے نمٹنے کے لیے فیملی کورٹس بنائی جائیں اور قوانین متعارف کرائے جائیں۔
- اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ قومی سطح پر قانونی اور انتظامی اصلاحات میں خواتین کو مردوں کے مساوی معاشی حقوق بالخصوص جائیداد اور وراثت میں مساوی حصہ دینے کی طرف قدم بڑھایا جائے۔
- بیجینگ کانفرنس کے تجویز کردہ لائحہ عمل کے پیرا گراف ۹۵ میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے جو تولیدی حقوق شامل ہیں مثلاً آزادانہ جنسی تعلقات اور اسقاطِ حمل کا حق وغیرہ وہ ابھی تک روبہ عمل نہیں آئے۔
- عورتوں کے بارے میں تمام امتیازات کو ختم کرنے کے لیے تمام ممالک کنونشن کے مقاصد کی تائید کریں، کم سے کم تحفظات پیش کریں، ایسے تحفظات سے دستبردار ہو جائیں جو کنونشن کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں۔
- تمام موجودہ اور آئندہ بننے والے قوانین کا جائزہ لے کر انہیں کنونشن کے مقاصد کے مطابق بنایا جائے۔
ہم ان کالموں میں کئی بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ ’’مغربی کلچر‘‘ کو دنیا کا واحد قابل عمل کلچر قرار دے کر اسے اقوام متحدہ کی چھتری تلے دنیا بھر میں مسلط کرنے اور دنیا کے مختلف مذاہب اور اقوام کے جداگانہ کلچرل قوانین و روایات کو ختم کرنے کی یہ مہم ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اور اس کی زد میں سب سے زیادہ اسلامی کلچر آتا ہے کیونکہ نکاح، طلاق اور وراثت نیز مرد و عورت کے اختلاط اور زنا و لواطت کی حرمت کے بارے میں قرآن و سنت کے قوانین اقوامِ متحدہ کے اس پروگرام سے واضح طور پر متصادم ہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ۵ جون سے شروع ہونے والی جنرل اسمبلی کی یہ بیجینگ پلس ۵ کانفرنس بھی اسلام اور مغرب کے درمیان روز افزوں شدت پکڑنے والی سولائزیشن وار ہی کا ایک پارٹ ہے اور اسی وجہ سے علماء کرام، علمی مراکز، دینی حلقوں اور اہلِ دانش سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور اس سلسلہ میں امت مسلمہ کی بروقت رہنمائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔