(ہفتہ وار درس)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کل ایک خبر چل رہی ہے تصویر کے ساتھ کہ کراچی میں عورتوں کے دودھ کا بینک قائم ہوا ہے، مدر مِلک بینک کا افتتاح ہوا ہے اور اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنا دودھ وہاں جمع کرائیں گی اور وہ ہسپتالوں میں بچوں کو پلایا جائے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بچے کے لیے عورت کا دودھ ہی سب سے بہترین غذا ہوتی ہے، اپنی ماں کا سب سے بہتر ہے، اور اگر کسی اور کا ہو تب بھی درست ہے۔ عرب معاشرے میں بچوں کو صحت مند عورتوں کا دودھ پلایا کرتے تھے، خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اماں حلیمہ سعدیہؓ کا دودھ پیا ہے، بچے کا ماں کے علاوہ کسی اور خاتون کا دودھ پینا بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دودھ پینے پلانے سے حرمت کے رشتے قائم ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے جن عورتوں کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کے رشتے ذکر کیے کہ ماں، بہن، بیٹی اور ساس سے نکاح حرام ہے وہاں یہ بھی فرمایا ”وامھاتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ“ (النساء ۲۳)۔ جس عورت نے تمہیں دودھ پلایا ہے وہ تمہاری ماں ہے، اب اس کے ساتھ نکاح حرام ہے۔ اور جس لڑکی نے تمہیں دودھ پلانے والی ماں کا دودھ پیا ہے وہ تمہاری بہن ہے، اس کے ساتھ بھی نکاح حرام ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں اس کی تشریح یوں فرمائی ہے ”یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب“ نسب سے جو رشتے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ جس بچے نے اپنے دودھ پینے کی مدت میں کسی خاتون کا دودھ پیا ہے وہ ماں بیٹا بن گئے ہیں، اس کا بھائی بچے کا ماموں بن گیا ہے، اس کی بہن بچے کی خالہ بن گئی ہے، اس کا خاوند بچے کا باپ بن گیا ہے، خاوند کا بھائی چچا بن گیا ہے۔ چچا بھتیجی، ماموں بھانجی، خالہ بھانجا وغیرہ جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔
خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے معاملات میں سے چند واقعات عرض کرنا چاہوں گا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اماں حلیمہ کا دودھ پیا، ان کا اور بچوں نے بھی دودھ پیا، ان کا دودھ پینے والی ایک بیٹی خاتون حضرت شیما ؓ بنو ہوازن کی جنگ میں قیدیوں میں آ گئیں۔ ایک زمانہ گزر گیا تھا، کہاں بچپن میں دودھ پینے کی مدت اور کہاں غزوہ حنین اور احزاب۔ لیکن جب قیدیوں میں آئیں تو گرفتار کرنے والوں سے کہا کہ آرام سے بات کرنا، میں تمہاری پھوپھی لگتی ہوں، تمہارے پیغمبر کی بہن ہوں۔ انہوں نے کہا ہمارے پیغمبر کا تو کوئی بہن بھائی نہیں تھا، حضرت شیماؓ نے کہا میں ان کی بہن ہوں۔ جب وہ حضرت شیماؓ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے تو انہوں نے آنحضرتؐ سے عرض کیا میں آپ کی بہن ہوں۔پوچھا کیسے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت حلیمہ کا دودھ آپ نے بھی پیا ہے اور میں نے بھی پیا ہے۔ ہم بچپن میں اکٹھے کھیلتے رہے ہیں، اگر یاد نہیں آ رہا تو ایک واقعہ یاد کرا دیتی ہوں۔ ہم بچے اکٹھے کھیل رہے تھے، کھیلتے کھیلتے آپ نے میری کمر پر دانت گاڑے تھے، وہ نشان ابھی تک ہے، دکھا دوں؟ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا یاد آ گیا ، آپ میری بہن ہیں ۔ پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس خاتون کو بہن کا پروٹوکول دیا۔ فرمایا تم میری بہن ہو، اگر بھائی کے ساتھ مدینہ منورہ چلتی ہو تو پورے احترام کے ساتھ رکھوں گا۔ میری طرف سے پیشکش ہے، جیسے بہنوں کا احترام ہوتا ہے دوں گا۔ اور اگر اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہو تو پورے اعزاز کے ساتھ بھیجوں گا۔ انہوں نے عرض کیا کہ بھائی جان! بات یہ ہے کہ بہنیں اپنے گھر ہی اچھی لگتی ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کے عرف کے مطابق دو اونٹ سامان تیار کیا، گارڈ ساتھ دی کہ یہ میری بہن ہے۔ اپنی پھوپھی کو پورے اعزاز کے ساتھ گھر پہنچا کر آؤ۔ یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی بات ہے۔
سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ آپؓ احد میں شہید ہو گئے تھے، کچھ عرصہ کے بعد ان کی جوان بیٹی مسلمان ہوئی، مدینہ آگئی تو کسی نے حضورؐ کو مشورہ دیا کہ حمزہ کی بیٹی آپ کی چچا زاد ہے، مسلمان ہو کر آئی ہے تو بجائے اس کے کہ کسی اور کے نکاح میں جائے، آپ اپنے نکاح میں لے آئیں۔ اس کا اعزاز اور پروٹوکول یہ بنتا ہے کہ آپ اس سے نکاح فرما لیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے ، یہ میری چچا زاد ہے، لیکن حمزہ اور میں چچا بھتیجا ہونے کے ساتھ ساتھ رضاعی بھائی بھی ہیں۔ حضرت حمزہ اور میں دونوں نے حضرت ثویبہؓ کا دودھ پیا ہوا ہے۔ اس رشتے میں یہ میری بھتیجی ہے، اس سے میرا نکاح جائز نہیں ہے۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں، ان کے ساتھ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی، جسے عربی میں ربیب اور ربیبہ کہتے ہیں اور پنجابی میں پچھ لگ کہتے ہیں۔ بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام زینب تھا۔ زینب بنت ابی سلمہ حضور ؐ گھر میں بیٹیوں کی طرح پلی ہے۔ جوان لڑکی تھی، اس کے بارے میں کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ آپ کے گھر میں ہے، کسی اور جگہ دینے کی بجائے آپ خود نکاح کر لیں۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دو وجہ سے مجھ پر حرام ہے۔ ایک تو یہ میری ربیبہ ہے، میری بیوی کی بیٹی ہے، اس لیے حرام ہے۔ بیوی کے لیے بھی خاوند کی بیٹی بیٹا اس کا بیٹی بیٹا ہوتا ہے، اور خاوند کے لیے بیوی کی بیٹی بیٹا اس کا بیٹی بیٹا ہوتا ہے۔ اور فرمایا دوسری بات یہ ہے کہ اس کے باپ ابو سلمہؓ اور میں نے ثویبہ کا دودھ پیا ہوا ہے، ہم رضاعی بھائی ہیں اور یہ میری بھتیجی لگتی ہےاس لیے بھی حرام ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح مجھ پر رشتے پیش نہ کیا کرو۔
دودھ پینے کے ساتھ حلال حرام کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور باقی مسائل بھی متعلق ہو جاتے ہیں۔اس پر بخاری شریف کی روایت ہے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے رضاعی رشتے کے چچا افلح تھے۔ دودھ کے رشتے میں چچا لگتے تھے، وہ ہمارے گھر آیا کرتے تھے جیسے محرم ہوتے ہیں وہ بھی آتے جاتے تھے۔ جب پردے کے احکام آئے کہ غیر محرم کے سامنے نہیں آؤ گی، کسی کے گھر میں نہیں جاؤ گے تو حضرت عائشہؓ نے افلح کو دروازے پر روک دیا کہ ٹھہریں، اب پردے کے احکام آگئے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گی کہ آپ میرے گھر آ سکتے ہیں یا نہیں آ سکتے۔ جناب نبی کریمؐ شام کو تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! افلح آئے تھے، میں نے ان کو گھر نہیں آنے دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیوں؟ جبکہ وہ تمہارا چچا ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ! وہ چچا کیسے ہے؟ میں نے دودھ اس کی بھابھی کا پیا ہے، عورت کادودھ پیا ہے تو وہ میرا چچا لگ گیا ہے؟ فرمایا ہاں جس عورت کا دودھ پیا ہے، اس کا خاوند تیرا باپ ہے اور اس کا بھائی تیرا چچا ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی ہیں۔ حضور نبی کریمؐ کے دودھ کے ساتھ حرمت کا رشتہ برقرار رکھا اور عمل کر کے دکھایا کہ دودھ سے جو رشتے قائم ہوتے ہیں ان کا بھی احترام ہوتا ہے۔
بخاری شریف میں ایک اور واقعہ مذکور ہے، حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ معروف صحابی ہیں، خود فرماتے ہیں میرا نکاح ہو گیا، گھر والوں نے کسی خاتون کے ساتھ میری شادی کر دی۔ ہم میاں بیوی کے طور پر بسنا شروع ہو گئے۔ ایک دن ایک عورت آئی اور اس نے کہا میں نے تمہیں بھی دودھ پلایا ہوا ہے اور تمہاری بیوی کو بھی پلایا ہوا ہے، تم کیسے میاں بیوی بن گئے ہو تم تو بہن بھائی ہو۔ فرماتے ہیں مجھے بڑا غصہ آیا ’’امراۃ سوداء‘‘ وہ کالی عورت آئی اور رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ میں نے کہا مجھے پہلے نہ تم نے بتایا نہ گھر والوں نے، خواہ مخواہ کہہ رہی ہو۔ حضرت عقبہ بن حارثؓ ذرا فاصلے پر رہتے تھے، کہتے ہیں میں گھوڑے پر سوار ہوا اور مدینہ منورہ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میری شادی ہوئی ہے ، اب ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے تمہیں بھی دودھ پلایا ہے اور تمہاری بیوی کو بھی پلایا ہے، تم بہن بھائی ہو، اب میں کیا کروں؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملہ فرمایا ”کیف وقد قیل“ جب یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ تم بہن بھائی ہو، تو اکٹھے کیسے رہ سکو گے، لہٰذا نکاح ختم کر دیا۔
یہ میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ دودھ کے رشتے بھی نسب کے رشتوں کی طرح حلال حرام اور محرم غیر محرم کے ہوتے ہیں۔ اگر دودھ بینک میں جمع ہے اور بلاتفریق بچوں کو پلایا گیا ہے تو کیسے فرق ہوگا کہ کون کس کی ماں ہے، کون کس کا بیٹا ہے، کون کس کی بہن ہے اور کون کس کا بھائی ہے؟ ہمیں عورت کا دودھ پلانے سے انکار نہیں ہے لیکن دودھ پلانے سے جو نتائج اخذ ہوں گے ان کو کون کنٹرول کرے گا؟ دودھ سے ماں حرام ہوتی ہے، بہن حرام ہوتی ہے، بھتیجی حرام ہے، بھانجی حرام ہے، خالہ حرام ہے۔ دودھ پینے سے یہ سارے رشتے قائم ہو جاتے ہیں، تو اگر کھلا بینک ہوگا کہ جس کا دودھ جسے مرضی پلا دیں تو کون تمیز کرے گا؟
اس لیے ہماری گزارش یہ ہے کہ کسی شرط اور کسی نظم کے بغیر یہ معاملہ درست نہیں ہے۔ اس سے رشتوں کا احترام ختم ہوگا، رشتوں کا امتیاز ختم ہوگا اور حلال حرام کا فرق ختم ہوگا۔ اس لیے جو خبر آئی ہے، اگر یہ خبردرست ہے تو یہ معاملہ بہت غلط ہوا ہے، اس کے خلاف ہمیں آواز اٹھانی چاہیے اور بات کہنی چاہیے کہ یہ قرآن پاک کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ یہ کسی مجتہد کا قول نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے۔ قرآن پاک کے صریح احکام جس سے متاثر ہوتے ہوں ایسے کسی کام کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور متعلقہ حکام کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔