افریقہ میں اسلام کی دعوت و نفاذ کی تازہ لہر

   
جولائی ۲۰۰۰ء

مالیر کوٹلہ بھارت سے مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی کے زیر ادارت شائع ہونے والے دینی جریدہ ماہنامہ دارالسلام نے مئی ۲۰۰۰ء کے شمارہ میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ افریقہ کے مسلم اکثریت رکھنے والے ملک تنزانیہ میں، جہاں ایک عرصہ سے جولیس نریرے نامی عیسائی حکمران مسلط تھا اور اس نے سوشلزم کے نام پر مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا، اس سال کے آغاز میں اسلام کا ایک عظیم معجزہ رونما ہوا کہ صدر جولیس نریرے کے بیٹے، بیٹیوں اور بہوؤں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جولیس نریرے کے بیٹوں نے تنزانیہ کے سب سے بڑے شہر دارالسلام میں اسلام کی حقانیت پر مسیحی مناظرین کے ساتھ فروری کے دوران ایک کھلے میدان میں مناظرہ کا اہتمام کیا جس میں ستر ہزار افراد نے شرکت کی اور دو دن مناظرہ جاری رہا۔ اس میں مسلم مناظرین کا پلہ بھاری رہا اور تین سو افراد نے موقع پر اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ سالہا سال تک مسلم اکثریت پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے والے سوشلسٹ عیسائی حکمران جولیس نریرے نے اقتدار سے الگ ہو کر مسلم دانشور شیخ علی حسن مونٹے کو ملک کا نیا صدر نامزد کر دیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی افریقہ کے ایک اور مسلم ملک نائجیریا کے مختلف صوبوں میں نفاذِ شریعت کا عمل جاری ہے، اور عیسائی اقلیت کی طرف سے شدید احتجاج اور فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے کے باوجود یہ عمل مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ جون ۲۰۰۰ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق نائجیریا کے سب سے بڑے صوبے کانو میں شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا ہے، اور اس سلسلہ میں ایک عوامی تقریب منعقد ہوئی ہے جس میں دس لاکھ کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی۔

براعظم افریقہ کے بارے میں عالمی مسیحی اداروں کی ایک عرصہ سے کوشش اور خواہش چلی آ رہی ہے کہ اسے مسیحی اکثریت کے براعظم میں تبدیل کر دیا جائے، اور اس مقصد کے لیے ہزاروں مسیحی مشنریاں مختلف افریقی ممالک میں مسلسل سرگرم عمل ہیں، لیکن مذکورہ بالا حوصلہ افزا خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ادارے اور تحریکات بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہیں، اور بحمد اللہ تعالیٰ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور مسلم معاشرے میں اسلامی قوانین و احکام کے نفاذ میں پیشرفت ہو رہی ہے، اور امید ہے کہ اس براعظم کے مسلمان اپنے دینی وجود اور تشخص کے تحفظ کی جدوجہد میں کامیاب رہیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter