جماعتی قائدین اور کارکنوں کے ساتھ آٹھ دن

   
یکم فروری ۱۹۷۴ء

’’ترجمانِ اسلام‘‘ میں اعلان ہو چکا تھا اور احباب کو خطوط بھی لکھے جا چکے تھے۔ چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ۷ جنوری کو گکھڑ سے روانہ ہو کر عشاء کی نماز کے قریب ٹیکسلا پہنچا۔ انجمن شبان اسلام کے دفتر میں جماعتی احباب اور ترجمانِ اسلام کے ایجنٹ حضرات گرد و نواح سے جمع تھے۔ جماعتی مسائل پر گفتگو کے علاوہ ترجمانِ اسلام کا معیار بلند کرنے اور اس کی اشاعت کو وسیع تر کر دینے کے سلسلہ میں تبادلۂ خیالات ہوا، کچھ مفید باتیں سامنے آئیں۔

۸ جنوری کو صبح ٹیکسلا سے روانہ ہوا، کچھ دیر کیمبل پور میں ٹھہرنے کے بعد جندو تک ریل کار پر اور وہاں سے کوہاٹ تک بس پر سفر کیا۔ مدرسہ تعلیم القرآن کوہاٹ جب پہنچا تو عشاء کی نماز ہو چکی تھی، محترم جناب حاجی محمد ابراہیم صاحب پراچہ کے ہاں قیام تھا۔ حاجی صاحب پرانے قومی کارکن اور علماء حق سے وابستہ ہیں۔ کوہاٹ میں مدنی فکر کی آبیاری اور علم دین کی اشاعت میں ان کے خاندان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جمعیۃ طلباء اسلام کے مرکزی راہنما جناب جاوید پراچہ حاجی صاحب کے ہی فرزند ہیں۔ رات کافی دیر تک محترم حاجی صاحب سے جمعیۃ کے تنظیمی امور اور ترجمانِ اسلام کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی اور حاجی صاحب نے مفید مشوروں سے نوازا۔

۹ جنوری کو صبح ہنگو گیا۔ جمعیۃ ضلع کوہاٹ کے امیر جناب حافظ فخر الاسلام صاحب سے ملاقات کا قصد تھا، کافی دیر تلاش کے بعد مولانا محمد رفیق صاحب سے ملا، انہیں حاضری کے مقصد سے آگاہ کیا، وہ بڑی محبت سے پیش آئے۔ امیر ضلع کے لیے تحریری پیغام مولانا محمد رفیق کے حوالے کیا اور واپسی کے لیے اڈہ پر پہنچا تو محترم حافظ فخر الاسلام صاحب سے بھی سرِ راہے ملاقات ہو گئی۔

ہنگو سے روانہ ہو کر عصر کے وقت پشاور پہنچ گیا۔ صوبائی دفتر عید الاضحیٰ کی تعطیلات کی وجہ سے بند تھا۔ جمعیۃ کے مخلص کارکن جناب ڈاکٹر عبد الرحمٰن صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دفتر کی چابیاں انہی کے پاس تھیں، رات دفتر میں قیام کیا۔ محترم جناب عبد العزیز صاحب، جناب نصر اللہ جان اعوان صاحب اور جناب فضل دین صاحب کو معلوم ہوا تو وہ بھی تشریف لائے۔ رات کافی دیر تک ان کے ساتھ مختلف امور پر بات چیت ہوتی رہی۔

۱۰ جنوری کو صبح بھذماڑی میں محترم جناب ڈاکٹر فدا حسین صاحب سے ملاقات کی۔ اتفاق سے حضرت الامیر مولانا محمد ایوب بنوری مدظلہ بھی وہیں تشریف لائے، ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا اور کچھ ترجمانِ اسلام کے بارے میں گفتگو بھی ہوئی۔ دونوں بزرگوں نے متعدد تجاویز پیش فرمائیں۔

یہاں سے فارغ ہو کر ترجمانِ اسلام کے قلمی معاون جناب حق نواز خاں خلیل سے ملاقات کی اور عازم مردان ہوا۔

مردان پہنچ کر دفتر کا رخ کیا تو وہ بند تھا، معلوم ہوا کہ صوابی کے ضمنی الیکشن کے باعث جماعتی احباب مصروف ہیں۔ شاید ضلعی دفتر میں کوئی ساتھی مل جائے، اس خیال سے ضلعی دفتر کی تلاش شروع کی، تلاش کا یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا، کسی نے بتایا کہ کلپانی پل سے اس پار دفتر ہے، مگر کلپانی پل تک پہنچتے پہنچتے اس تلاش نے پنجابی محاورہ کے مطابق مجھے ’’کلپا‘‘ دیا تھا۔ پل پار کیا، چلتے چلتے راستہ میں کسی سے دفتر کا پتہ پوچھ لینے کے ارادہ سے ایک دکان پر بیٹھے ہوئے بزرگ کے پاس پہنچا تو ان کے پاس ترجمانِ اسلام کا پرچہ دیکھ کر دل کو ڈھارس بندھی۔ یہ ضلعی جمعیۃ کے سالار مولانا فضل کریم تھے جن سے ملاقات اور تعارف ایک اتفاقی امر تھا۔ ان کی معیت میں ضلعی دفتر گیا تو وہ بھی بند تھا۔ لاچار انہی کو حاضری کے مقصد سے آگاہ کر کے سخاکوٹ کو چل دیا۔

سخاکوٹ حاضری کا پروگرام پہلے سے تھا، حضرت مولانا نافع گل صاحبؒ کے وصال کی خبر سن کر ارادہ اور بھی پختہ ہو گیا۔ عصر کے وقت وہاں پہنچا، حضرت مولانا عزیر گل صاحب مدظلہ العالی کی خدمت میں حاضری دی۔ وہیں نوشہرہ کے مولانا مجاہد صاحب سے ملاقات ہو گئی، ان کے ساتھ حضرت مولانا نافع گل صاحبؒ کی قبر پر آیا، جو کچھ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی پڑھ کر ایصال ثواب کیا، اور واپسی کے لیے مغرب سے قبل شیر گڑھ پہنچ گیا۔

رات دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں قیام کا ارادہ تھا مگر جب پہنچا تو کافی دیر ہو چکی تھی، تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے ابتداءً کچھ پریشانی بھی ہوئی مگر بلوچستانی طلباء نے کسی ابتدائی جان پہچان کے بغیر یہ پریشانی دور کر دی۔ رات بھر انہی کا مہمان رہا اور جب کچھ دیر کے بعد ان کو کسی طرح پتہ چل گیا تو بے حد خوش ہوئے۔ مولوی عبد النافع صاحب، مولوی محمد انور صاحب اور ان کے رفقاء نے بڑی خدمت کی اور کافی دیر تک بلوچستان میں عوام پر حکومت کے مظالم کے بارے میں تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے رہے۔

۱۱ جنوری کو صبح نماز کے بعد اکوڑہ خٹک سے روانہ ہو کر جمعہ کے وقت مانسہرہ پہنچا۔ جمعہ مرکزی جامع مسجد میں ادا کیا۔ حضرت مولانا عبد اللہ خالد صاحب خطیب جامع مسجد سے ملاقات ہوئی اور اس کے بعد رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے کورے حاجی آباد چلا گیا۔

۱۲ جنوری کو ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں جمعیۃ کا ضلعی کنونشن تھا۔ کنونشن میں شرکت کی خاطر ایبٹ آباد جانے کے لیے حاجی آباد اڈہ پر پہنچا تو پتہ چلا کہ صوبہ سرحد کی سوا درجن ارکان پر مشتمل کابینہ میں تعلیمی اعتبار سے سب سے سینئر وزیر جناب حق نواز خاں کا ورود مسعود ہونے والا ہے۔ تھوڑی دیر میں وزیر صاحب تشریف لائے تو بچوں جوانوں اور بوڑھوں سمیت پینتیس چالیس افراد کے ’’جمِ غفیر‘‘ نے ان کا شاندار خیر مقدم کیا۔ حق نواز صاحب جو جمعیۃ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور مفتی صاحب کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں، اب ما شاء اللہ چشم بد دور شکل و صورت کے اعتبار سے بھی ’’عوامی‘‘ بن چکے ہیں اور وزیر قانون ہونے کی نسبت سے انہوں نے وفاقی وزیر قانون کی وضع قطع کی سنت بھی پوری طرح اپنا لی ہے۔ یہی حق نواز کبھی مفتی کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے یہاں آتے تھے تو علاقہ بھر کے عوام دیدہ و دل فرشِ راہ کرتے تھے، مگر اب گنڈاپور کے کھونٹے سے بندھے ہیں تو پینتیس چالیس افراد کا ہجوم بھی غنیمت ہے۔ اے کاش وہ اب بھی سمجھ جائیں۔

اس کے بعد ایبٹ آباد پہنچا، اچھڑیاں کے مولانا محمد معین صاحب اور میرے ماموں قاری محمد امین صاحب بھی ہمراہ تھے۔ ڈسٹرکٹ کونسل ہال پہنچے تو وہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہال میں ۶۰۰ کے قریب نشستوں کی گنجائش تھی، ہمیں بڑی مشکل سے ایک صاحب نے جگہ بنا کر دی۔ لوگ کھڑے بھی تھے، حضرت مفتی صاحب مدظلہ اپنے مخصوص انداز میں قومی و جماعتی مسائل پر روشنی ڈال رہے تھے۔ خطاب مکمل ہوا اور دعا پر کنونشن ختم ہوا تو کارکنوں نے مفتی صاحب کو گھیرے میں لے لیا۔ بڑی مشکل سے ان تک رسائی ہوئی۔ سلام دعا کے بعد پروگرام کے بارے میں دریافت کیا تو ساتھ چلنے کی بات ہو گئی۔

وہاں سے ایک جماعتی بزرگ کی قیام گاہ پر پہنچے، کھانا انہی کے ہاں تھا۔ حضرت مولانا عبد الحئی صاحب، حضرت مولانا قاضی محمد نواز صاحب، حضرت مولانا شفیق الرحمٰن صاحب، حضرت مولانا محمد یوسف صاحب اور دیگر حضرات سے بھی ملاقات ہو گئی۔ خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کے اخلاص کی وجہ سے کارکنوں کی جدوجہد کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔ جمعیۃ میں مارشل لاء نافذ کر کے سربراہی کا منصب سنبھالنے کے دعویدار اس اپنے ضلع میں بھی جمعیۃ کی افرادی قوت کے لیے چیلنج نہ بن سکے۔ جماعتی حلقہ کو محفوظ رکھنے میں جناب مولانا فقیر محمد خاں صاحب بٹگرام، حضرت مولانا محمد یوسف صاحب مانسہرہ، اور حضرت مولانا شفیق الرحمٰن صاحب ایبٹ آباد کی توجہات خصوصاً قابل ذکر ہیں۔

وہاں سے فارغ ہو کر حضرت قائد محترم مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ، حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب نائب امیر صوبائی جمعیۃ بلوچستان، راقم الحروف اور مفتی صاحب کے ڈرائیور سعید شاہ صاحب پر مشتمل قافلہ نوشہرہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ مغرب سے قبل محترم جناب حاجی شیر افضل خاں صاحب کی قیام گاہ پر پہنچے۔ حاجی صاحب پرانے قومی ورکر ہیں، دارالعلوم حقانیہ سے غالباً شروع سے وابستہ ہیں، اور اکابر جمعیۃ بالخصوص حضرت درخواستی دامت برکاتہم کے ساتھ خصوصی قلبی تعلق رکھتے ہیں۔

عشاء کے وقت شہر سے حکیم رفیع الدین صاحب اور دیگر احباب بھی پہنچ گئے اور رات گئے تک محفل جمی رہی جو سیاسی، علمی اور معاشرتی مسائل پر محیط تھی۔ حضرت مفتی صاحب حاضرین کی اکثریت کے لحاظ سے پشتو میں مسائل پر تبصرہ فرما رہے تھے۔ مجھے اگرچہ پٹھان ہونے کے باوجود پشتو سے کوئی نسبت نہیں ہے مگر پھر بھی گفتگو کے انداز اور کچھ عربی و اردو الفاظ کی وجہ سے اجمالی مفہوم سے بہرہ ور ہو رہا تھا۔

۱۳ جنوری کو حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب نائب امیر صوبائی جمعیۃ بلوچستان سے کچھ تبادلۂ خیالات ہوا۔ پھر حضرت مفتی صاحب مدظلہ مردان چلے گئے اور راقم الحروف اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔ عصر کے وقت راولپنڈی جمعیۃ کے امیر حضرت مولانا قاری محمد امین صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر اسلام آباد چلا گیا۔

۱۴ جنوری کو صبح راولپنڈی سے روانہ ہو کر چکوال پہنچا۔ محترم جناب حافظ عبد الرحمٰن قاسمی صاحب سے انتظار طویل کے باوجود ملاقات نہ ہو سکی، البتہ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب مدظلہ کی خدمت میں حاضری دی اور دوسرے احباب سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہاں سے عصر کے وقت روانہ ہو کر رات آٹھ بجے بخیر و عافیت گکھڑ پہنچ گیا۔

ترجمانِ اسلام کے بارے میں احباب و اکابر کے ارشادات و تجاویز اور کارکنوں سے تبادلۂ خیالات کی رپورٹ ان شاء اللہ آئندہ صحبت میں پیش کروں گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter