جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شش ماہی امتحانات کے دوران میں حسبِ سابق دو چار دن کے لیے کراچی میں ہوں۔ پیر کے دن پہنچا تھا اور جمعۃ المبارک کو گوجرانوالہ واپسی کا پروگرام ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
جامعہ اسلامیہ کلفٹن میں علمائے کرام کی خصوصی تربیتی کلاس میں تعارفِ ادیان و مذاہب کے حوالہ سے مسلسل تین دن تک گفتگو ہوتی رہی اور جمعرات کو جامعۃ الرشید کی دو نشستوں میں حاضری تھی۔ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں حضرت مولانا مفتی عبد المجید دین پوری شہیدؒ کی تعزیت کے لیے حاضری دی۔ وہاں بھی شش ماہی امتحانات چل رہے ہیں، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم اور دیگر اساتذہ سے تعزیت کی۔ دارالافتاء میں حضرت مولانا مفتی عبد المجید دین پوریؒ کی نشست خالی دیکھ کر دل سے ایک ہوک سی اٹھی اور ان کے ساتھ مختلف ملاقاتوں کے مناظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے۔ ان کے ساتھ شہید ہونے والے مولانا مفتی صالح محمد کاروڑیؒ اور حافظ محمد حسان علی شاہ شہیدؒ کا تذکرہ ہوتا رہا اور دارالافتاء میں مولانا مفتی ابوبکر سعید الرحمٰن صاحب اور دیگر احباب کے ساتھ تعزیت کی۔ مجلس صوت الاسلام کے ناظم اعلیٰ مولانا جمیل الرحمٰن فاروقی اور مولانا خادم حسین میرے ہمراہ تھے۔
وہاں سے فارغ ہو کر جامعہ درویشیہ گئے، جہاں حافظ محمد حسان علی شاہ شہیدؒ کے والد محترم مولانا سید لیاقت علی شاہ سے تعزیت کی اور اس المناک سانحہ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اسی روز جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے مہتمم مولانا مفتی محی الدین سے ان کے والد بزرگوار کی وفات پر تعزیت کا موقع ملا، جن کا گزشتہ دنوں خوشاب کے علاقہ میں کم و بیش ایک سو دس سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔ جبکہ جامعۃ الرشید کے سربراہ مولانا مفتی عبد الرحیم کے والد گرامی کی وفات پر تعزیت کے لیے وہاں گیا اور اس طرح کراچی کا یہ سفر ایک لحاظ سے تعزیتوں کا سفر ہی بن گیا ہے۔
اس دفعہ کراچی کا ماحول کچھ مختلف سا لگ رہا ہے۔ سوگواری تو فطری بات ہے کہ چند برسوں سے کراچی عمومی طور پر اور دینی راہ نماؤں کے قتل عام کے حوالہ سے بالخصوص غم و اندوہ کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔ غم اور پریشانی پر اب اضطراب اور پھر مایوسی کے سائے منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کو اس کیفیت سے دوچار کرنے والے عناصر اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
کراچی معاشی لحاظ سے ملک کی معیشت کا دل ہے کہ جس طرح انسانی جسم میں خون کی گردش دل کی حرکت سے وابستہ ہوتی ہے، اسی طرح پاکستان میں دولت کی گردش کراچی کی معاشی سرگرمیوں سے منسلک ہے۔ جو اَب مسلسل انحطاط کا شکار ہونے لگی ہیں، سرمایہ اور سرمایہ کاری کراچی سے منتقل ہوتے جا رہے ہیں اور پورے ملک کی معیشت اس کے منفی اثرات کی زد میں ہے۔ مذہب اور مذہبی تعلیم کے حوالہ سے بھی کراچی کو ملک میں کم و بیش یہی پوزیشن حاصل ہے۔ دینی مدارس و مراکز کی اعلیٰ سطح اور ان کے پھیلاؤ کی مرکزیت کراچی میں موجود چلی آ رہی ہے۔ تحریکی مرکزیت اگرچہ کراچی سے فاصلے پر رہتی ہے، لیکن تعلیم اور فتویٰ میں کراچی پہلے کی طرح اب بھی پورے ملک کی قیادت کر رہا ہے۔ جبکہ کراچی کے مستقبل کے بارے میں اپنا الگ ایجنڈا رکھنے والوں کی راہ میں کراچی کی یہ علمی اور مذہبی مرکزیت بھی ایک اہم رکاوٹ ہے اور ہمارے خیال میں کراچی کی اسی مذہبی اور معاشی مرکزیت کو بکھیرنے کی خاطر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
مجھے کراچی آتے ہوئے تقریباً پینتیس برس ہو گئے ہیں اور اپنے ان اسفار کی تعداد اگر تین ہندسوں میں بیان کروں تو بھی مبالغہ نہیں ہو گا، لیکن اس دفعہ پہلی بار مجھے اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ کراچی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے پہلے راستوں کا حال معلوم کرنا پڑتا ہے اور خدشات و خطرات کی فضا میں نقل و حرکت کا ”رسک“ لینا پڑتا ہے۔ ورنہ میں نے اسی کراچی میں ایک ایک دن میں آٹھ آٹھ جگہ حاضری دی ہے اور پروگرام بھگتائے ہیں۔
خطرے کا الارم یہ ہے کہ سرمایے کی طرح علم نے بھی کراچی سے باہر نکلنے کی باتیں سوچنا شروع کر دی ہیں اور بہت سے علمی مراکز اور شخصیات کراچی سے فاصلے پر پناہ گاہوں کی تلاش میں مصروف دکھائی دینے لگی ہیں۔ رواں تعلیمی سال اساتذہ اور طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے پہلے سالوں سے مختلف ہے، اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ”روزگار“ کے متبادل ذرائع کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اس سفر میں یہ سانحہ بھی ہوا ہے کہ کراچی میں جب بھی آتا ہوں جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن میں حاضری لازمی تصور ہوتی ہے، درخواستی خاندان کے اس مدرسہ کو میں اپنا مرکز سمجھتا ہوں۔ اس سفر میں بھی وہاں حاضری اور تخصص فی الفقہ کی کلاس میں گفتگو کا پروگرام طے تھا، جو عموماً صبح نماز فجر کے بعد ہوتی ہے، مگر رات کو قریب کے مختلف علاقوں میں دس کے لگ بھگ افراد کے قتل کے باعث راستوں کی صورت حال مخدوش ہونے پر باہمی مشورہ سے یہ پروگرام منسوخ کرنا پڑا اور میں اس وقت کو جامعہ اسلامیہ کلفٹن میں بیٹھا یہ کالم لکھنے میں استعمال کر رہا ہوں۔
کراچی میں اس بار جنرل مشرف کے دور کی باقیات میں سے ”ماڈل دینی مدرسہ“ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا، جو حاجی کیمپ کے ایک حصے میں رینجرز کے ایک ونگ کے ہیڈ کوارٹر کے پڑوس میں قائم ہے۔ پاکستان کے دینی مدارس کی طرف لوگوں کے رجحان کو کمزور کرنے کے لیے دینی مدارس کا متبادل نظام ہمیشہ ہماری بیوروکریسی کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور حکومت میں محکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف دونوں نے دینی مدارس کے الگ سلسلے کا آغاز کیا تھا، لیکن ان کا تذکرہ اب فائلوں میں ہی ملتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ”ماڈل دینی مدارس“ کے عنوان سے دینی تعلیم کے ایک متبادل نظام کی بات کی تھی اور مختلف شہروں میں ان کے لیے بلڈنگیں مخصوص کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں فنڈز کی فراہمی کا بھی اہتمام کیا تھا، لیکن وہی ہوا جو ہونا تھا۔
ہم نے اس موقع پر ہی عرض کر دیا تھا کہ سرمائے اور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کیونکہ ”جس کا کام اسی کو ساجھے“ کے مصداق دینی مدرسہ چلانا مولوی کا ہی کام ہے، جو بالکل بے سروسامانی کے عالم میں ایک دینی مدرسہ کا آغاز کرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں اسے بڑے تعلیمی ادارے کی شکل میں تبدیل کر لیتا ہے۔ اس کام کی صلاحیت و توفیق اللہ تعالیٰ نے مولوی کو دی ہے اور قوم بھی اس سلسلہ میں صرف مولوی پر ہی اعتماد کرتی ہے۔ جس کی ایک مثال کراچی کا یہ ”ماڈل دینی مدرسہ“ ہے کہ خانماں بربادی کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اب اس نے رفتہ رفتہ ایک تعلیمی ادارے کی صورت اختیار کرنا شروع کی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی خاندان کے ایک فرد نے اس کا نظم سنبھالا ہے۔ ڈاکٹر عامر طاسین حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے نواسے ہیں، جو گزشتہ دس ماہ سے اس کے پرنسپل ہیں، اسے ایک تعلیمی ادارے کا روپ دینے میں مصروف ہیں۔ ان کی مثبت پیشرفت دیکھ کر ہمارے دل سے بھی اس ”ماڈل مدرسے“ کی کامیابی کی دعا نکلی۔