یادش بخیر حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے روزنامہ جنگ لاہور کے ۱۳ جنوری ۱۹۸۸ء کے شمارہ میں شائع ہونے والے ایک بیان میں ’’قومی سنی کنونشن‘‘ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے تین باتیں فرمائی ہیں:
- کنونشن کے سلسلہ میں ان کی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور وہ اس کے مقاصد اور اہداف سے بے خبر ہیں۔
- کنونشن میں بریلوی اور اہلحدیث مکاتبِ فکر کی کوئی جماعت شریک نہیں ہوئی۔
- کنونشن چند چھوٹی چھوٹی تنظیموں کا مذہبی اجتماع تھا۔
متعدد احباب نے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے اس بیان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تقاضا کیا ہے کہ اس کا جواب قومی اخبارات میں دیا جائے۔ لیکن ہم نے اس بنا پر اسے مناسب نہیں سمجھا کہ یہ اخباری بحث ’’قومی سنی کنونشن‘‘ کے مقاصد کو سبوتاژ کرنے کا باعث بن سکتی ہے اور اسے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔ اس لیے قومی اخبارات کی بجائے ’’ترجمانِ اسلام‘‘ کے ذریعے صحیح صورتحال کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ متعلقہ احباب اس سلسلہ میں اصل حالات سے آگاہ ہو سکیں۔
تجاہلِ عارفانہ
جہاں تک ’’قومی سنی کنونشن‘‘ کے سلسلہ میں اعتماد میں نہ لینے اور مقاصد سے بے خبر ہونے کا تعلق ہے، مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی طرف سے اس کے اظہار کو تجاہلِ عارفانہ ہی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ
- کنونشن کے دس دعوت نامے مولانا موصوف کی جماعت کے امیر حضرت مولانا سید حامد میاں مدظلہ کی خدمت میں باضابطہ ارسال کیا گئے، جن کی وصولی کی اطلاع خود حضرت سید موصوف نے جمعیۃ کے مرکزی دفتر کو فون کے ذریعہ کنونشن سے چار روز قبل فرما دی تھی۔ اس دعوت نامے میں کنونشن کے مقاصد کا واضح طور پر ذکر ہے۔
- کنونشن کی مجلس استقبالیہ کے صدر مولانا میاں محمد اجمل قادری اور مولانا فداء الرحمٰن درخواستی نے کنونشن سے تین روز قبل مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے ملاقات کر کے کنونشن میں شرکت کی استدعاء کی تو انہوں نے دعوت نامہ موصول نہ ہونے یا مقاصد سے بے خبر ہونے کا عذر نہیں کیا، بلکہ اپنے مخصوص انداز میں ایسے الفاظ کے ساتھ بے نیازی کا اظہار فرمایا جن کا ذکر کسی طور پر بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
اس لیے مولانا فضل الرحمٰن کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ ’’قومی سنی کنونشن‘‘ کے مقاصد سے بے خبر ہیں۔
بریلوی اور اہلحدیث
بریلوی اور اہلِ حدیث مکاتبِ فکر کی ذمہ دار شخصیات سے، جن میں مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا محمد عبد اللہ بھی شامل ہیں، اہلِ سنت کو درپیش مسائل و مشکلات اور مشترکہ جدوجہد کے بارے میں ہماری گفتگو ہوئی ہے، اور گفتگو کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، لیکن پہلے مرحلہ میں ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو یکجا کیا جائے اور پھر اس کے بعد دوسرے مکاتبِ فکر کے ساتھ حالات اور ضروریات کے مطابق بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔ اس امر کی وضاحت ’’قومی سنی کنونشن‘‘ کے سربراہی اجلاس میں کر دی گئی تھی جس پر تمام شرکاء نے اطمینان اور اعتماد کا اظہار فرمایا۔
چھوٹی چھوٹی جماعتیں
حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو یہ بھی اشکال ہے کہ یہ چند ’’چھوٹی چھوٹی جماعتوں‘‘ کا مذہبی اجتماع ہے اور غالباً ان ’’چھوٹی چھوٹی جماعتوں‘‘ کے درمیان بیٹھنے کو اپنے مرتبہ سے کم سمجھتے ہوئے مولانا موصوف نے کنونشن میں شرکت سے گریز فرمایا ہے۔ لیکن ان کی خدمت میں مؤدبانہ طور پر عرض ہے کہ ’’قومی سنی کنونشن‘‘ کا اہم مقصد پہلے مرحلہ میں دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے تمام حلقوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا جس میں بحمد اللہ توقع سے زیادہ کامیابی ہوئی ہے۔ اور مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت اور مجلسِ احرار کے سوا دیوبندی کہلانے والے تمام معروف حلقے اور جماعتیں کنونشن میں شریک ہو کر ’’متحدہ سنی محاذ‘‘ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو گئی ہیں۔ جہاں تک مجلسِ احرارِ اسلام کا تعلق ہے اس کی عدمِ شرکت کو ہم کسی اختلاف کے حوالہ سے نہیں دیکھتے کیونکہ مجلسِ احرارِ اسلام پہلے ’’متحدہ سنی محاذ‘‘ کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اس جدوجہد میں مکمل طور پر شریک ہے اور آئندہ بھی وہ ان شاء اللہ بھرپور کردار ادا کرے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے گزارش
البتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے رویہ پر نظرثانی فرمائیں۔ یہ درست ہے کہ ان کی سیاسی اڑان بہت اونچی ہے اور ہم اختلافی امور سے قطع نظر ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اڑان کو اور زیادہ بلندیوں سے آشنا کرے، لیکن دینی و مسلکی تقاضوں کو نظرانداز کر دینا کسی طور پر بھی ان کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ہمارے اکابر و اسلاف نے ہمیشہ قومی سیاست اور دینی مقاصد کے درمیان توازن قائم رکھا ہے اور آج بھی حالات کا تقاضا یہی ہے۔ ’’قومی سنی کنونشن کے انعقاد یا ’’متحدہ سنی محاذ‘‘ کو ازسرنو متحرک اور فعال بنانے کا مقصد اہل سنت کے ساتھ ہونے والی مسلسل زیادتیوں اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سدباب ہے اور اس مشن میں ہم حضرت مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے رفقاء کے تعاون کے اب بھی خواستگار ہیں، امید ہے کہ وہ اس سلسلہ میں ’’متحدہ سنی محاذ‘‘ اور ملک کے دینی و مسلکی حلقوں کو مایوس نہیں کریں گے۔