اے پی پی کے حوالے سے ایک خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ امریکی ریاست نیوجرسی نے غلاموں کی تجارت میں اپنے کردار پر معافی مانگنے کے لیے ایک بل پر غور شروع کر دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق نیوجرسی میں دو سو سال قبل غلاموں کی تجارت پر پابندی عائد کی گئی تھی، تاہم ریاستی حکومت اس تجارت میں اپنے کردار پر بدستور پریشان ہے، جس کی وجہ سے معافی مانگنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ اگر ریاستی اسمبلی نے بل کی منظوری دے دی تو نیوجرسی غلاموں کی تجارت میں ملوث ہونے پر معافی مانگنے والی پانچویں امریکی ریاست، جبکہ ۱۸۶۱ء تا ۱۸۶۵ء کی سول وار کے دوران غلاموں کی تجارت کے خلاف محاذ بنانے والی شمالی امریکی ریاستوں میں پہلی ریاست ہو گی۔ بل کے مسودہ کے مطابق نیوجرسی غلاموں کی تجارت میں اپنے کردار پر پشیمان اور معافی کی خواستگار ہے، جس نے امریکی معاشرے پر برے اثرات مرتب کیے۔ خبر کے مطابق گزشتہ برس الاباما، ورجینیا، شمالی کیرولینا اور میری لینڈ نے بھی غلاموں کی تجارت میں ملوث ہونے پر امریکی قوم سے معافی مانگی تھی۔
انسانوں کو غلام بنانے کا رواج قدیم زمانہ سے چلا آ رہا ہے، حتیٰ کہ ۱۹۴۸ء کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کا منشور منظور ہونے پر دنیا بھر میں اس کا خاتمہ ہوا، جس کی ایک مستقل دفعہ میں دنیا کی اقوام نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ آئندہ کسی انسان کو غلام نہیں بنایا جائے گا اور ”بردہ فروشی“ یعنی انسانوں کی تجارت کی ہر شکل ممنوع ہو گی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا میں غلامی کا ہر طرف دور دورہ تھا اور کسی انسان کو غلام بنانے کی مختلف صورتیں مروج تھیں، مثلاً
- ایک آزاد انسان کو بے سہارا دیکھ کر طاقت ور لوگ پکڑ لیا کرتے تھے اور غلام بنا کر فروخت کر دیتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو معروف صحابی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اسی طرح غلام بنے تھے۔
- دوسری صورت یہ تھی کہ کسی قرض یا تاوان وغیرہ کی صورت میں ادائیگی نہ کر سکنے والے شخص کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ وہ خود رضا کارانہ طور پر یہ حیثیت قبول کر لیتا تھا یا کوئی جرگہ اس کے بارے میں یہ فیصلہ کر دیتا تھا۔
- تیسری صورت یہ تھی کہ جنگوں میں گرفتار ہونے والے دشمنوں یعنی جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا اور یہ ضروری نہیں ہوتا تھا، بلکہ آپشنز میں سے ایک آپشن ہوا کرتا تھا کہ جنگی قیدیوں کو بسا اوقات قتل کر دیا جاتا تھا، کبھی ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں آزاد کر دیا جاتا تھا اور کبھی فدیہ لے کر چھوڑ دیا جاتا تھا اور اگر ان میں سے کوئی صورت قابلِ عمل نہ ہوتی تو انہیں غلام بنا لیا جاتا تھا۔
اس زمانے میں چونکہ قید خانوں کا نظام اس قدر منظم نہیں ہوتا تھا اس لیے اجتماعی قید خانوں میں ڈالنے کی بجائے انہیں بطور غلام خاندانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا، جنہیں گھر کے دوسرے درجے کے فرد کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ غلام اور لونڈی کا یہ تصور اس زمانہ میں عام تھا اور کسی کو غلام بنانے کی یہ تینوں صورتیں اس معاشرے میں جائز متصور ہوتی تھیں، مگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دونوں صورتوں کو ناجائز قرار دے دیا اور اعلان فرما دیا کہ کسی آزاد شخص کو آئندہ کسی صورت میں غلام نہیں بنایا جائے گا، چنانچہ ”بیع الحر حرام“ کا ارشادِ نبویؐ اس سلسلے میں اسلام کی واضح ہدایت ہے۔ البتہ جنگی قیدیوں کو تین چار آپشنز میں سے ایک آپشن کے طور پر غلام بنانے کی گنجائش اسلام نے باقی رکھی ہے، جس کے مختلف احکام قرآن کریم، احادیث نبویؐ اور فقہ اسلامی کی کتابوں میں مستقل ابواب کی صورت میں موجود ہیں اور ان پر آج کی دنیا کی طرف سے اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اسلام غلامی کو روا رکھتا ہے جبکہ پوری دنیا غلامی کے خلاف متفق ہو چکی ہے، لیکن اسلام پر اعتراض کرنے والے اس سلسلے میں ان حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ
- کسی آزاد انسان کو زبردستی پکڑ کر غلام بنانے کو سب سے پہلے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا اور اسلامی تعلیمات میں اس کی کسی درجہ میں گنجائش نہیں ہے۔
- تاوان یا جرمانہ کی صورت میں کسی کو غلام بنانے کی گنجائش بھی اسلامی تعلیمات میں موجود نہیں ہے۔
- جنگی قیدیوں کو نظام بنانے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ پہلے سے چلے آنے والے مختلف آپشنز میں سے ایک آپشن کے طور پر اسے برقرار رکھا گیا ہے اور اس کے لیے واضح احکام و قوانین طے کر کے ان کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے۔
- اس آپشن کو باقی رکھنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ اس دور میں اجتماعی قید خانوں کا رواج نہیں تھا اور مستقل قیدی رکھنے کی صورت میں خود قیدی کے لیے بھی سہولت اس بات میں ہوتی ہے کہ اسے قید خانے میں ڈالنے کی بجائے نیم آزاد حیثیت سے کسی خاندان کے سپرد کر دیا جائے اور اس کے حقوق و فرائض طے کر دیے جائیں۔ اس کی ایک مثال آج بھی جیل خانوں میں قید کاٹنے والوں اور پیرول پر مختلف خاندانوں میں نیم قیدیوں کے طور پر قید کا کچھ حصہ گزارنے والوں کے درمیان فرق میں دیکھی جا سکتی ہے۔
- یہ اس دور کا عالمی عرف تھا جو اگرچہ اسلامی تعلیمات کا تقاضا نہیں تھا، لیکن صریح اسلامی احکام سے متصادم بھی نہیں تھا، اس لیے اسے قبول کر لیا گیا اور غلاموں کے حقوق و فرائض متعین کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں آزاد کرنے کو مستقل نیکی شمار کر کے اور مختلف سزاؤں اور کفارات میں انہیں آزاد کرنے کا حکم دے کر اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔
- آج کے عالمی عرف میں چونکہ کسی کو غلام نہ بنانے پر اتفاق ہو چکا ہے، اس لیے آج اسے قبول کر لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پوری صدی کے دوران جہاں بھی جہاد کے عنوان سے جنگ لڑی گئی ہے کسی کو غلام یا لونڈی نہیں بنایا گیا۔
- اسلام چونکہ قیامت تک کے لیے ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانے والے عالمی عرف کی طرح انہیں غلام نہ بنانے والا عالمی عرف بھی باقی نہ رہے اور کسی دور میں وہی پہلے جیسے حالات لوٹ آئیں تو غلامی کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام اور فقہ اسلامی کے ضوابط اصولی طور پر موجود ہیں اور اسی وجہ سے مسلسل پڑھائے بھی جا رہے ہیں۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو غلامی کی وہ صورت جسے بردہ فروشی کہا جاتا ہے، امریکا میں اب سے ایک صدی پہلے تک موجود رہی ہے اور امریکا میں اس وقت سیاہ فام نسل کی جو بہت بڑی آبادی ہے، ان کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے آباء و اجداد کو امریکی تاجر بحری جہازوں میں بھر بھر کر افریقہ سے لاتے تھے اور امریکا میں غلاموں کے لیے بنائی گئی منڈیوں میں فروخت کر دیتے تھے اور اس کے حق میں امریکی دانش ور مستقل دلائل بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ انیسویں صدی کے دوران امریکا میں شمال اور جنوب کے درمیان جو خانہ جنگی ہوئی ہے، اس میں ایک بڑا مسئلہ غلامی کے جواز اور عدمِ جواز کا بھی تھا اور اس دور کے امریکی لٹریچر پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو بڑے بڑے امریکی دانش ور اور مفکر غلامی کا جواز فراہم کرنے اور اس کے حق میں دلائل فراہم کرنے میں مصروف دکھائی دیں گے۔
امریکی سیاہ فاموں کو، جو غلاموں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، آزادی کے بعد بھی ووٹ کا حق ۱۹۶۴ء میں صدر کینیڈی کے دور میں ملا ہے، جس کے لیے انہیں مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں ایک صبر آزما جدوجہد سے گزرنا پڑا ہے اور ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے عدالتی جنگ لڑنے والوں میں موجودہ امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزارائس کے والد بھی شامل ہیں۔ اس لیے اگر آج امریکی ریاستوں کو ؎
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
کے مصداق غلامی کے فروغ میں اپنے کردار پر دو صدیوں کے بعد پشیمانی ہو رہی ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن اس طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ افراد کو غلام بنانے کے ساتھ ساتھ اقوام و ممالک کو غلام بنا لینا اور ان کی آزادی کو سلب کر لینا بھی حریت کی نفی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا نے جن اقوام و ممالک کی آزادی کو فوجی اور معاشی طاقت کے زور پر سلب کر رکھا ہے، انہیں غلام بنانے پر پشیمانی کا احساس امریکی قوم میں کتنی صدیوں کے بعد پیدا ہو گا؟