۸ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا دن منایا جاتا ہے، اس موقع پر خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر مشتمل رپورٹیں سامنے آتی ہیں، سیمینارز منعقد ہوتے ہیں، اخبارات کی خصوصی اشاعتوں کا اہتمام ہوتا ہے، این جی اوز اپنے اپنے انداز میں پروگرام کرتی ہیں اور عورتوں کی مظلومیت کا تذکرہ ہر سطح پر ہوتا ہے۔
عورت بلاشبہ مظلوم ہے، ہر دور میں مظلوم رہی ہے، اور آج بھی مظلوم ہے، بلکہ اس کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے اور اسے مردوں کے ساتھ مساوی حقوق دلانے کا نعرہ لگانے والی مغربی اقوام نے بھی اس کی مظلومیت میں کمی کرنے کی بجائے کچھ اضافہ ہی کیا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا تو راقم الحروف نے عرض کیا کہ مشرق کی عورت بھی مظلوم ہے اور مغرب کی عورت بھی مظلوم ہے، البتہ دونوں کی مظلومیت کا رنگ الگ الگ ہے، اور طرز جدا جدا ہے:
- ہمارے ہاں مبینہ طور پر عورت کی مظلومیت یہ ہے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل ہو جاتی ہے، اس کے خلاف جھوٹے مقدمات بنتے ہیں، اسے رائے کی آزادی حاصل نہیں ہوتی، اسے حق مہر اور وراثت کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور وہ خاندانی روایات کی بھینٹ چڑھتی رہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
- مگر مغرب میں عورت کی مظلومیت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس پر مرد کے ساتھ مساوات کے نام سے دوہری ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ مرد نے عورت کے فطری فرائض میں اس کا ہاتھ بٹانے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں میں اسے شریک کر لیا ہے، اور ذمہ داریوں میں اضافے کو حقوق کا نام دے کر اس غریب کو خوش کر دیا گیا ہے کہ وہ برابر کے حقوق سے بہرہ ور ہو گئی ہے۔ اپنے تحفظ کی تمام تر ذمہ داری اس کے ناتواں کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ قدرت نے عورت کے اردگرد مقدس رشتوں کا حصار قائم کر کے اسے جو فطری تحفظ فراہم کیا تھا، اسے اس سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اور مغرب میں عورت کی مظلومیت کا نقطۂ عروج دیکھنا ہو تو ہر شہر میں آباد ’’اولڈ پیپلز ہومز‘‘ میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جہاں ہزاروں بوڑھی خواتین اپنے جذبات اور ارمان سینوں میں دبائے سال بھر اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کب کرسمس کا دن ہو گا اور اس کے بیٹے یا بیٹیوں میں سے کوئی آ کر اسے اپنا منہ دکھائے گا۔
عورت کی مظلومیت اور بے بسی کی طرف اسلام نے نسلِ انسانی کی توجہ دلائی تھی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں بطور خاص ارشاد فرمایا تھا کہ میں عورتوں کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں، بلکہ ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت کے لیے بطور خاص وصیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنا حق وصول کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ لیکن اسلام کی یہ تعلیمات قصۂ پارینہ بن گئی ہیں:
- اسلام نے جاہلیت کے رواج کو ختم کر کے عورت کو وراثت میں حصہ دار قرار دیا، مگر ہمارے معاشرہ میں عورت کے لیے باپ یا خاوند کی وراثت میں اپنا جائز حصہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ وہ اپنی زبان پر وراثت کا لفظ لائے تو خاندانی روایات کا ماتم شروع ہو جاتا ہے۔ وراثت کے حق سے محروم کرنے کے لیے قرآن کریم کے ساتھ شادی کے نام پر مکروہ کاروبار روا رکھا جاتا ہے، جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کے تقدس کے نام پر اسے مرد سے شادی کے جائز حق سے محروم کر دیا جائے، کیونکہ اس صورت میں وہ جائیداد میں حصہ کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔
- حق مہر عورت کا شرعی حق ہے، مگر ہمارے معاشرہ میں کتنی عورتیں ہیں جن کا مہر ان کے جائز استحقاق کے مطابق طے پاتا ہے؟ اور پھر ان میں کتنی ہیں جن کو ان کا حق مہر پورے کا پورا مل بھی جاتا ہے؟ اسلام نے عورت کو رائے کا حق دیا ہے مگر ہمارے ہاں علاقائی ثقافت کی روایات کا اس قدر غلبہ ہے کہ اکثر و بیشتر عورتیں اس حق سے محروم رہتی ہیں۔
- اسلام میں عورت کی رائے کا مقام یہ ہے کہ بخاری شریف کی روایات کے مطابق حضرت عمرؓ کو ایک بار اپنے گھر میں یہ شکایت پیدا ہو گئی کہ ان کی بیوی ان کے سامنے کسی مسئلہ پر اظہار خیال کرنے لگی اور اس نے حضرت عمرؓ کی رائے پر انہیں ٹوک دیا۔ یہ بات ان کے لیے نئی تھی، اس لیے کہ قریش میں عورتوں کو عام طور پر یہ حق حاصل نہیں ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ یہ سمجھے کہ شاید انصارِ مدینہ کی عورتوں کو دیکھ کر ہماری عورتوں نے بھی یہ رنگ اختیار کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو اس پر ڈانٹا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے ڈانٹنے سے پہلے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ سے معلوم کر لو، وہ بھی نبی اکرمؐ سے سوال و جواب کرتی ہیں، انہیں بعض مسائل پر رائے بھی دیتی ہیں، اور آپس میں کبھی کبھی ناراضگی بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ اسی غصے میں اپنی بیٹی ام المؤمنین حضرت حفصہؓ کے پاس گئے اور ان سے صورتحال دریافت کی۔ انہوں نے مذکورہ بالا بات کی تصدیق کی تو انہیں سمجھایا کہ ایسا نہ کیا کرو۔ وہ تو بیٹی تھیں چپ رہیں، لیکن حضرت عمرؓ نے جب یہی بات ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ سے کی تو انہوں نے دوٹوک جواب دیا کہ عمرؓ! تم ہر بات میں مداخلت کرتے ہو، اب میاں بیوی کے معاملات میں بھی دخل دینے لگے ہو۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ِمبارکہ میں ماں، بہن، بیٹی اور بیویوں کے ساتھ جو سلوک کیا، کیا آج ہماری معاشرت میں اس کی کوئی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے؟
- نبی اکرمؐ کی حقیقی والدہ بچپن میں ہی داغِ مفارقت دے گئی تھیں، مگر رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ اپنے خاوند کے ساتھ حضور اکرمؐ کے پاس آئیں تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس اعزاز و اکرام کا معاملہ فرمایا۔
- نبی اکرمؐ کی حقیقی بہن کوئی نہیں تھی، لیکن رضاعی بہن حضرت شیماؓ غزوۂ حنین کے بعد آپ کے سامنے لائی گئیں تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت اور حسنِ سلوک کا جو مظاہرہ فرمایا وہ ایک بھائی کے ذمے بہن کے حقوق کی نشاندہی کرتا ہے۔
- اپنی ازواج مطہراتؓ کے ساتھ نبی اکرمؐ کا لطف و مہربانی کا جو معاملہ تھا۔ اور پیاری بیٹیوں حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ کے ساتھ شفقت و محبت کے معاملات کی دوسری کون سی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟
آج ہماری معاشرتی روایات اور خاندانی اقدار میں اسلامی تعلیمات کا حصہ بہت کم ہے اور علاقائی ثقافتوں کی نمائندگی زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے ہم انہی علاقائی ثقافتوں کی مروجہ اقدار کو اسلامی اقدار کا نام دے کر ان کا تحفظ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف مغرب نے عورت کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے، اسے دو حوالوں سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک تو عورتوں کو ہر معاملے میں ترجیح دینے کا جو نتیجہ نکلا ہے اس کی ایک جھلک اس خبر میں نظر آتی ہے جو لندن سے شائع ہونے والے ایک اردو روزنامہ نے ۲۹ جون ۱۹۹۵ء کو شائع کی تھی کہ
’’یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے وزراء کی فیملی آفیئرز کے موضوع پر منعقدہ سہ روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر برائے وومن یوتھ مس کلاڈیا نولٹ نے کہا کہ خواتین کے حقوق سے متعلق کئی عشروں کی مہم کے بعد اب ماہرین کو مردوں کے کردار اور اسٹیٹس کے بارے میں تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ جبکہ کونسل آف یورپ کے سیکرٹری جنرل ڈینیئل ٹارسکی نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ فیملی معاملات میں مردوں کی فعال شمولیت میں اضافے کے لیے مزید اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ خاندان کے بکھرنے کی صورت میں بچوں کی مالی ذمہ داریوں کا بار ان کے والدین پر ہی ڈالا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین مردوں کی ضرورت محسوس نہ بھی کریں تب بھی مردوں کو خواتین کی اور بچوں کو والدین کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی سوویت یونین کے آخری وزیر اعظم میخائل گورباچوف کا یہ تبصرہ بھی لائقِ توجہ ہے جو انہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’پرسٹرائیکا‘‘ میں مغرب کے خاندانی نظام کی تباہی کا رونا روتے ہوئے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہم خواتین کے ان حقوق اور ضروریات کی طرف توجہ دینے میں ناکام رہے جو ایک ماں اور گرہستن عورت کی حیثیت سے، نیز بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ان کے ناگزیر کردار سے پیدا ہوتے ہیں۔ خواتین چونکہ سائنسی تحقیق میں مشغول ہو گئیں، نیز زیرتعمیر عمارتوں کی دیکھ بھال میں، پیدواری کاموں اور خدمات میں، اور دوسری تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رہیں، اس لیے ان کو اتنا وقت ہی نہیں مل سکا کہ وہ خانہ داری کے روز مرہ کام انجام دے سکیں، بچوں کی پرورش کر سکیں، اور ایک اچھی خاندانی فضا پیدا کر سکیں۔ اب ہمیں اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل، جو بچوں اور نوجوانوں کے ذریعے ہماری اخلاقیات، ثقافت اور پیداواری عمل سے تعلق رکھتے ہیں، اس وجہ سے بھی کھڑے ہوتے ہیں کہ خاندانی رشتوں کی گرفت کمزور پڑ گئی ہے، اور خاندانی فرائض کے بارے میں ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ پروان چڑھا ہے۔ ہم نے عورتوں کو ہر معاملہ میں مردوں کے برابر قرار دینے کی جو مخلصانہ اور سیاسی اعتبار سے درست خواہش کی تھی، یہ صورتحال اس کا تضاد آفرین نتیجہ ہے۔‘‘
یورپی وزراء کی مذکورہ کانفرنس میں دیے جانے والے ریمارکس اور مغرب کے خاندانی نظام پر روسی لیڈر میخائل گورباچوف کا یہ تبصرہ عورتوں کی آزادی کے بارے میں مغرب کے اس طرز عمل کے منطقی نتیجہ کی نشاندہی کرتا ہے جس نے نہ صرف خاندانی نظام کو تباہی سے دوچار کیا ہے بلکہ عورت کو بھی اس کے فطری مقام اور تقدس سے محروم کر دیا ہے۔ آج عورت کو مغرب اور مشرق دونوں جگہ مسائل کا سامنا ہے، مشکلات درپیش ہیں، اور حق تلفی سے سابقہ ہے۔ اس کا حل نہ تو ہماری علاقائی ثقافت کے پاس ہے اور نہ ہی مغربی فلسفہ کے پاس اس کا کوئی حل ہے۔ یہ حل صرف اور صرف اسلامی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں ہے، مگر آج کی دنیا کو اس کی طرف توجہ کون دلائے گا؟