ممتاز نعت گو اور نعت خواں قاری محمد حنیف شاہد کی المناک شہادت پر دنیا کے مختلف حصوں میں رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے، انہیں گزشتہ دنوں ۱۸ دسمبر کو گوجرانوالہ میں غنڈوں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
گزشتہ روز انٹرنیٹ پر جنگ میں یورپ کی خبریں دیکھ رہا تھا کہ برمنگھم میں قاری محمد حنیف شاہد شہیدؒ کی تعزیت میں ہونے والے اجلاس کی خبر پڑھی اور آج جدہ سے آنے والے میرے ہم زلف قاری محمد اسلم شہزاد نے بتایا کہ جدہ میں بھی شہید کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہو چکا ہے۔ مختلف ممالک اور شہروں میں جہاں جہاں بھی قاری محمد حنیف شاہد رام پوری کے احباب موجود ہیں، انہیں یاد کر رہے ہیں، تعزیتی اجلاس ہو رہے ہیں، ان کی المناک شہادت اور جدائی پر رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے، وحشیانہ قتل کی مذمت کی جا رہی ہے اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
قاری محمد حنیف شاہد کا تعلق ضلع سیالکوٹ کے قصبہ وڈالہ سندھواں کے قریب بستی رام پور سے تھا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے نعت گوئی کا ذوق اور ملکہ عطا فرمایا تھا اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی ذوق اور فن کی آبیاری اور فروغ میں بسر ہوا۔ عمر زیادہ نہیں تھی، یہی چالیس برس کے لگ بھگ تھی۔ حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور مدحِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا خصوصی ذوق تھا، عوامی مجالس اور خصوصی محافل میں جب وہ اپنی آواز اور لے کا جادو جگاتے تو سماں باندھ دیتے تھے۔ اس کے ساتھ انہیں یہ حوصلہ بھی ملا تھا کہ دوسرے نعت خواں دوستوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور چھوٹوں کو آگے بڑھاتے، اس مقصد کے لیے انہوں نے ”بزم حسان رضی اللہ عنہ“ کے عنوان سے مستقل فورم قائم کر رکھا تھا، جس کی سرگرمیوں کا وہ اکثر و بیشتر تذکرہ کرتے رہتے تھے۔
پاکستان کے طول و عرض کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ وہ جب پہلی بار برطانیہ گئے تو میں وہیں تھا۔ برمنگھم میں ہمارے محترم دوست مولانا قاری تصور الحق کے ہاں جلسہ تھا، میں بھی شریک تھا۔ اتفاق سے قاری محمد حنیف شاہد ایئر پورٹ سے سیدھے جلسے کے اسٹیج پر پہنچے، جلسہ اختتامی مراحل میں تھا، قاری محمد حنیف شاہد نے اپنے مخصوص انداز میں معروف نظم ؎
اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے
پڑھی، یہ برطانیہ میں ان کا پہلا تعارف تھا اور سامعین پر وجد کی کیفیت طاری تھی۔ اس جلسے کا منظر آج بھی میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے اور قاری محمد حنیف شاہدؒ کی آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے۔
ان کی یہ مقبولیت و شہرت اپنے گاؤں اور علاقے میں مسئلہ بن گئی۔ علاقے کے بعض غنڈہ عناصر نے دیکھا کہ ایک عام خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ قاری نہ صرف عالمی سطح پر متعارف ہو رہا ہے، بلکہ اس کے فوائد سے بھی بہرہ ور ہو رہا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ مغربی ملکوں میں جانے والے اس مولوی کے پاس دولت بھی بہت ہو گی، انہوں نے اس سے رقم کا مطالبہ کیا، جو عام معنوں میں جگا ٹیکس کہلاتی ہے، اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر تلخی بڑھی اور غنڈوں نے اس انکار کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں۔ ۲۰۰۷ء کی بات ہے کہ پہلے انہیں دھمکیاں دی گئیں، پھر ان کے گھر پر رات کے وقت فائرنگ کی گئی، جس سے ان کی ایک بچی شہید ہو گئی اور دوسری زخمی ہوئی۔ انہوں نے اس کا مقدمہ پورے حوصلے سے لڑا اور مجرموں کو عدالت سے سزا دلوائی۔ مگر دشمنی اور منتقم مزاجی میں شدت پیدا ہو گئی، انہیں مسلسل دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ انہوں نے گاؤں چھوڑ کر گوجرانوالہ شہر کی گلشن کالونی میں رہائش اختیار کر لی اور اپنا مکان بنا لیا، مگر غنڈوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔
۲۶ نومبر کو دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ کے سالانہ جلسے میں ان سے میری ملاقات ہوئی، جو آخری ملاقات بھی ثابت ہوئی۔ رات عشاء کے بعد کی نشست میں میرا بیان ہوا، میں حسبِ معمول پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعہ گیا تھا۔ میرے بیان کے بعد قاری محمد حنیف شاہد شہید سے جلسے کے منتظمین نے مزید رکنے کا تقاضا کیا کہ آخر میں ایک دو نعتیں اور ہو جائیں، مگر قاری صاحب نے ان سے کہا کہ اگر آپ حضرات اجازت دے دیں تو میں استاذ صاحب کو اپنی گاڑی پر واپس لے جاؤں، رات کے وقت ویگن پر ان کا جانا ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے بھی اپنی غرض سے سفارش کر دی اور وہ اجازت لے کر مجھے ساتھ لے کر گوجرانوالہ میرے گھر تک آئے۔
راستے میں انہوں نے اپنے کیس کے بارے میں تفصیلی بات کی اور بتایا کہ انہیں مسلسل دھمکیاں بھی مل رہی ہیں اور ایک بار پھر ان پر چند روز قبل فائرنگ ہو چکی ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ انتظامیہ کے اعلیٰ افسران سے اس سلسلے میں بطور خاص بات کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا کہ آپ جب چاہیں اور جس افسر کے پاس جانا چاہیں، میں تیار ہوں۔ ہمارا مشورہ ہوا کہ محرم کے پہلے عشرہ کے دوران تو کسی افسر سے اطمینان کے ساتھ بات کرنا مشکل ہو گا، محرم کی چھٹیاں گزرنے کے بعد ہم ضلعی اور صوبائی سطح پر ذمہ دار افسران سے ملیں گے۔ مگر غنڈے جو مسلسل گھات میں تھے، محرم الحرام کی چھٹیوں ہی میں اپنا کام کر گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
قاری صاحب شہیدؒ کے ساتھ اگر سینکڑوں نہیں تو بیسیوں جلسوں میں ملاقاتیں ہوئی ہیں، مگر یہ آخری ملاقات تھی جس میں انہوں نے ایک بات اور کہی کہ انہوں نے اپنے گاؤں رام پور میں شہید بیٹی کی یاد میں ”عاتکہ شہید فری میڈیکل کمپلیکس“ کے نام سے ہسپتال کی تعمیر شروع کر رکھی ہے، جو مکمل ہونے والی ہے اور تقریبِ تکمیل میں آپ بھی ضرور شرکت کریں۔ میں نے ان سے یہ وعدہ بھی کر لیا، مگر کسے معلوم تھا کہ ڈسکہ اور گوجرانوالہ کے درمیان سڑک پر رات کے وقت جو وعدے ہو رہے ہیں یہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ یہ زیرِ تعمیر ہسپتال میں نے گزشتہ روز مولانا محمد ریاض سواتی، مولانا محمد ایوب صفدر اور مولانا شاہ نواز فاروقی کے ہمراہ رام پور جا کر دیکھا ہے۔ ڈھانچے کی حد تک تین منزلوں کی تعمیر ہو چکی ہے، اب تکمیلی مراحل طے پا رہے ہیں۔
۲۵ دسمبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں قاری محمد حنیف شاہد شہیدؒ کی یاد میں تعزیتی جلسہ منعقد ہوا، جو ان کے وحشیانہ قتل کے خلاف احتجاجی جلسہ بھی تھا۔ اس میں راقم الحروف کے علاوہ صاحبزادہ مولانا زاہد محمود قاسمی، مولانا صاحبزادہ حافظ اجود عبید، مولانا حافظ محمد امجد، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا عبد الواحد رسول نگری، مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا محمد معاویہ اعظم اور دیگر مقررین نے خطاب کیا، قاری محمد حنیف شاہد شہیدؒ کی دینی و سماجی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے وحشیانہ قتل کی مذمت کی اور قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔
قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری کے لیے ہم سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، افسران یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ وہ قاتلوں کی گرفتاری کے لیے مسلسل مصروف ہیں اور ہماری کوشش بھی یہ ہے کہ قاری محمد حنیف شاہد شہیدؒ کے قاتل جلد از جلد اپنے انجام کو پہنچیں۔
قارئین سے گزارش ہے کہ شہید کے لیے جنت الفردوس میں بلند سے بلند درجات کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں، ان کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور اگر کوئی صاحبِ خیر زیرِ تعمیر ہسپتال کی تکمیل کی طرف توجہ دے سکیں تو بہت اجر و ثواب کی بات ہو گی۔