دراساتِ دینیہ کا نصاب سب کو پڑھنا چاہیے

   
مدنی مسجد، بدوکی سیکھواں، نوکھر، ضلع گوجرانوالہ
۲۴ ستمبر ۲۰۲۰ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم آج یہاں ’’دراساتِ دینیہ‘‘ کی کلاس کے افتتاح کے سلسلہ میں جمع ہیں جو دینی تعلیم کا دو سالہ کورس وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے جاری کیا گیا ہے، اس موقع پر کورس کے اساتذہ ، طلبہ اور منتظمین کو اس کارخیر کے آغاز پر مبارک باد دیتے ہوئے حاضری اور شرکت کے لیے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

دین کی تعلیم ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ اور اسوۂ حسنہ کی پیروی کے لیے ان سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اور علم اور واقفیت کے بغیر اتباع اور اطاعت نہیں ہو سکتی۔ اس علم اور واقفیت کے دو درجے ہیں:

ایک درجہ عالم دین بننے کا ہے جس کے لیے آٹھ دس سال کا باقاعدہ نصاب دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے اور ملک بھر میں ہزاروں مدارس اس نصاب کے ذریعہ لاکھوں طلبہ اور طالبات کو دین کا عالم بنانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ دین کا عالم یا عالمہ ہونا ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے کہ ہر علاقہ اور خاندان میں دو تین ایسے علماء کا ہونا ضروری ہے جن سے بوقت ضرورت کسی بھی مسئلہ میں راہنمائی حاصل کی جا سکے۔ اسے فرض کفایہ کہتے ہیں، اگر کسی علاقہ یا خاندان میں ایک بھی ایسا عالم نہیں ہے تو سب کے سب لوگ گناہ گار ہوتے ہیں۔ اور دینی مدارس اسی ضرورت کو پورا کرنے کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔

البتہ ہر شخص کا مکمل عالم دین بننا نہ ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے، جبکہ بنیادی دینی تعلیم اور معلومات ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے ضروری ہیں، جسے ضروریاتِ دین کہا جاتا ہے اور فقہاء کرام اسے فرضِ عین قرار دیتے ہیں۔ اس میں عقائد، عبادات، فرائض، واجبات، حلال و حرام، جائز و ناجائز، باہمی حقوق و معاملات اور زندگی کے ان معاملات کا علم شامل ہے، جن سے ہم سب کو روزانہ واسطہ پڑتا ہے اور جن کے علم کے بغیر اپنے روز مرہ کے ضروری کاموں کو بھی ہم صحیح طور پر سر انجام نہیں دے سکتے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے اس کے لیے ’’دراساتِ دینیہ‘‘ کا نصاب ترتیب دیا ہے جو ملک بھر میں پڑھایا جاتا ہے اور آج آپ اپنے علاقہ میں اس کی تعلیم کا آغاز کر رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کی تعلیم ہر مسلمان مرد اور عورت کو حاصل کرنی چاہیے۔ اور یہ صرف بچوں کے لیے نہیں بلکہ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بھی ہے، اس لیے جوان اور بوڑھے حضرات کو بھی اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر یہ تعلیم حاصل کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تعلیم کے لیے کوئی عمر متعین نہیں ہے، یہ زندگی کے ہر مرحلہ میں حاصل کرتے رہنا چاہیے، اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو یہ کام مبارک کرے اور اسے زیادہ سے زیادہ پھیلانے اور عام کرنے کی توفیق دے، آمین۔
اس کے ساتھ آج کی اس محفل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک ذوق یہ بھی تھا جس کی طرف ہماری توجہ بہت کم ہو گئی ہے کہ نیکی کے کسی کام کی توفیق ہوئی ہے تو اس کی حفاظت بھی کی جائے اور اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ دنیا کے معاملات میں ہم اس کا خوب اہتمام کرتے ہیں، یہ دیہاتی علاقہ ہے، ہمارے اردگرد ہر طرف کھیت ہی کھیت ہیں، ان میں محنت کر کے غلہ اگایا جاتا ہے، گندم ہے، مکئی ہے، چاول ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چار پانچ مہینوں کی محنت سے جب فصل تیار ہوتی ہے تو اسے اسی حالت میں نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ اس کی اس وقت تک مختلف طریقوں سے حفاظت کی جاتی ہے جب تک وہ استعمال میں نہ آجائے۔ اسی طرح نیکیوں کی حفاظت بھی اس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ حساب کتاب میں ہمارے کھاتے میں قبول نہ ہو جائیں۔

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمومی ذوق تو سب کا تھا کہ اپنے نیک اعمال اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نیکیوں کی حفاظت کرتے تھے اور انہیں اس بات کا فکر ہوتا تھا کہ کہیں یہ اعمال ضائع نہ ہو جائیں۔ اس پر دو تین بزرگوں کے واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا تاکہ یہ بات سمجھ میں آجائے کہ نیکیوں کی حفاظت کا فکر کیا ہوتا ہے اور یہ حفاظت کیسے کی جاتی ہے؟

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اکابر صحابہ کرام میں سے ہیں، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ گئے اور مہاجرین میں شمار ہوئے۔ لیکن جب حج بیت اللہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اپنے پرانے وطن مکہ مکرمہ واپس آئے تو بیمار پڑ گئے اور بظاہر بچنے کی امید نہ رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پرسی کے لیے ان کی قیام گاہ میں آئے تو وہ بیماری کی شدت کی وجہ سے مایوسی کے عالم میں تھے۔ چنانچہ سوال کیا کہ میں تو اپنے وطن سے ہجرت کے مدینہ منورہ چلا گیا تھا، اب حج کے لیے آیا ہوں اور بیمار ہو گیا ہوں، اگر یہیں فوت ہو گیا اور اس جگہ دفن ہوا تو میری ہجرت کا کیا بنے گا؟ یعنی انہیں اس بات کا فکر تھا کہ کہیں میری ہجرت کا ثواب اور اجر کم تو نہیں ہو جائے گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حوصلہ دیا کہ وہ مایوس نہ ہوں ابھی وہ فوت نہیں ہوں گے۔ چنانچہ کافی عرصہ اس کے بعد وہ حیات رہے، وہ ایران کے فاتح ہیں اور حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں کوفہ کے گورنر رہے ہیں بلکہ کوفہ نئے شہر کے طور پر انہی کی نگرانی میں بسایا گیا تھا۔
اسی طرح جب قرآن کریم میں یہ ارشاد نازل ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اپنی آواز کو مدھم رکھو اور ان کی آواز سے تمہاری آواز بلند نہ ہو پائے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نہ بلایا کرو جیسے ایک دوسرے کو بے تکلفی سے بلاتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی بے ادبی کے باعث تمہاری نیکیاں ضائع ہو جائیں اور تمہیں معلوم بھی نہ ہو۔

میں نوجوانوں کو سمجھانے کے لیے اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ جیسے کسی شخص نے کمپیوٹر پر دو تین گھنٹے کام کیا ہے اور اسے سیو نہیں کیا، دوسرے دن جب کمپیوٹر چلایا تو وہ سارا کام غائب تھا اور کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کس وقت اور کیسے سی ڈی صاف ہو گئی ہے، اسی طرح نیکیاں بھی برباد ہو جاتی ہیں اور پتہ تک نہیں چلتا۔
اس آیت کریمہ کے بعد دو بزرگوں کو فکر لگ گئی کہ ہماری آواز ہی بلند ہے اور ہم اونچی آواز سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں باتیں کرتے رہے ہیں، ہماری نیکیوں کا کیا بنے گا؟ ان میں سے ایک حضرت عمرؓ ہیں جو بھاری آواز والے تھے اور دوسرے خطیب الانصار حضرت ثابت بن قیسؓ تھے ان کی آواز بھی قدرتی طور پر بھاری اور بلند تھی۔ حضرت عمرؓ تو اب اس کے بعد اس قدر محتاط ہو گئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بہت ہی آہستہ بولتے حتیٰ کہ بعض اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا کہ اونچی بات کرو تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ جبکہ حضرت ثابت بن قیسؓ یہ آیت سننے کے بعد گھر میں ہی بیٹھ گئے اور مجلس میں آنا چھوڑ دیا۔ ایک دو روز کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مجلس سے غائب پا کر معلوم کرایا تو پتہ چلا کہ وہ تو دو روز سے گھر سے باہر نہیں نکل رہے اور کمرے میں بیٹھے رو رہے ہیں کہ میری نیکیوں کا کیا بنے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر تسلی دی کہ وہ تو معذور ہیں کہ ان کی آواز قدرتی طور پر بلند ہے، اس لیے انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس پر انہوں نے مجلس میں آنا شروع کیا۔

یہ دو تین واقعات میں نے اس لیے عرض کیے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی نیکیوں کی حفاظت کی اس قدر فکر ہوتی تھی۔ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ نیکیوں کے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے کام بھی کرتے چلے جاتے ہیں جن سے کی ہوئی نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں اور کمایا ہوا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت کی بھی مسلسل فکر کرتے رہنا چاہیے کہ وہ محفوظ رہیں اور قیامت کے دن حساب کتاب میں ہمارے حساب میں شمار ہو جائیں، اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ اکتوبر ۲۰۲۰ء)
2016ء سے
Flag Counter