(جامعہ نصرۃ العلوم میں دستار بندی اور تقسیم اسناد کی سالانہ تقریب سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج ہم اپنے ان عزیزوں کو رخصت کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ وقت گزارا اور تعلیم حاصل کی- آج یہ فارغ ہو کر گھروں کو جا رہے ہیں اور ان کی جدائی سے ہم عجیب سی کیفیت سے دو چار ہیں، یہ ہمارے بچے ہیں، اولاد کی طرح ہیں اور اب ہم سے رخصت ہو رہے ہیں، میں ان بچوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے اپنا تعلیمی نصاب مکمل کر لیا ہے اور اب وہ عملی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں- خدا کرے کہ ان کا پڑھنا ان کے لیے، ان کے والدین کے لیے، اساتذہ کے لیے، ان کے ساتھیوں کے لیے اور ہم سب کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بنے اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں کا باعث ہو، آمین یا رب العالمین۔
آج ہم کئی نسبتوں کے ساتھ یہاں بیٹھے ہیں، ہمارے حضرات شیخین کریمین حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی نسبت تو سب سے پہلے ہے کہ ان کا لگایا ہوا گلشن ہے۔ میں ان کے ساتھ استاذِ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کو بھی شامل کرنا چاہوں گا جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا ہے اور مجھے دو روز قبل ان کے گاؤں اور قبر پر حاضری کا موقع ملا ہے۔ یہ جامعہ ان بزرگوں کا صدقہ جاریہ ہے اور ان کی محنتوں کا ثمرہ ہے، ان کے ساتھ ہی آج ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ آج جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب مدظلہ نے کیا ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ یاد آ جاتے ہیں جن کی صحبتوں سے ہم اکٹھے فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ جبکہ ابھی ہمارے محترم بزرگ حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب مدظلہ آپ حضرات سے خطاب کریں گے اور فضلاء کے سروں پر دستار رکھیں گے، وہ ہمارے شیخ امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ نسبت رکھنے کے ساتھ ساتھ مخدوم العلماء حضرت مولانا سید نفیس الحسینیؒ کی نسبت سے بھی بہرہ ور ہیں۔ اسی طرح ہمارے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی بھی حضرت شاہ صاحبؒ کے خلفاء میں سے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ساتھ اس وقت ہمارے محترم اور بزرگ دوست حضرت صوفی عطاء اللہ صاحب بھی تشریف فرما ہیں جو حضرت سید علاء الدین شاہ صاحبؒ کی یاد کو تازہ کئے ہوئے ہیں۔ اس طرح آج ہم بہت سی نسبتوں میں بیٹھے ہیں جو بہت مبارک بات ہے اور مجھے اس پر بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں اپنے عزیز طلبہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ نسبتیں ہی ہمارا اصل سرمایہ ہیں اور ہمارا سب کچھ ہیں۔ ان نسبتوں کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن اگر نسبتیں قائم ہیں تو سب کچھ قائم ہے۔ یہ کنکشن ہیں، کنکشن اگر قائم ہو تو لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے آنے کی امید ہوتی ہے،، اور ہماری یہ سعادت ہے کہ یہ کنکشن اور یہ نسبتیں سلامت ہیں اور قائم ہیں، اس لیے اس بات کی کوشش بھی کرتے رہیں کہ یہ نسبتیں سلامت رہیں اور دعا بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نسبتوں پر قائم رہنے اور ان کو نبھانے کی توفیق سے نوازیں۔
ابھی حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب آپ حضرات سے مخاطب ہوں گے ان کی باتیں توجہ سے سنیں، لیکن چونکہ برادرم مولانا محمد ریاض خان سواتی نے میری گفتگو کا اعلان کرتے ہوئے نصیحت کا ذکر بھی کیا ہے اس لیے میں عزیز فضلاء سے نصیحت کے طور پر ایک دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ایک یہ کہ آپ حضرات یہاں سے بظاہر علم حاصل کر کے اور سند لے کر جا رہے ہیں کہ آپ عالم ہو گئے ہیں لیکن یہ محض رسمی سی بات ہے، آپ نے علم حاصل نہیں کیا بلکہ علم کے حصول کا راستہ دیکھا ہے اور کتابوں سے استفادے کا سلیقہ سیکھا ہے۔ علم سے واسطہ آپ کا اب پڑے گا جب آپ اس علم سے استفادہ کر کے سوسائٹی کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں گے، آپ عام مسلمانوں کی راہنمائی کریں گے اور جہاں آپ جائیں گے وہاں کے لوگ آپ سے اپنے مسائل و مشکلات میں راہنمائی کے طالب علم ہوں گے۔ آپ لوگوں نے قرآن و حدیث کے جو علوم اپنے اساتذہ کے سامنے بیٹھ کر سیکھے ہیں اب وہ آپ نے عام لوگوں کے سامنے بیان کرنے ہیں اس لیے کتاب سے، علم سے اور فن سے آپ کے استفادے کا اصل وقت اب آیا ہے۔ طالبعلم تو انسان ساری زندگی رہتا ہے اور علم اسے ہی نصیب ہوتا ہے جو ساری زندگی طالب علم رہے۔ اس لیے پہلی بات یہ ہے کہ خود کو علماء سمجھ کر دھوکے میں نہ پڑ جانا اور علم کے ساتھ، کتاب کے ساتھ اور استاد کے ساتھ استفادے کا تعلق مسلسل قائم رکھنا۔
دوسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ مدرسے کے ماحول میں آٹھ دس سال گزار کر سوسائٹی میں واپس جا رہے ہیں تو یوں سمجھیں کہ اصحابِ کہف کی طرح غار سے نکل کر شہر میں واپس جا رہے ہیں۔ آپ کو سوسائٹی میں ہر بات اجنبی لگے گی، بہت سی باتیں انجانی ہوں گی اور قدم قدم پر آپ کو یہ احساس ہو گا کہ آپ کہاں آگئے ہیں؟ اصحابِ کہف تین صدیاں گزار کر شہر واپس گئے تھے تو ہر چیز بدلی ہوئی تھی، لیکن وہ تو دوبارہ غار میں واپس جا کر سو گئے تھے، آپ حضرات کا کیا پروگرام ہے؟ آپ نے غار میں واپس آ کر پھر سے سو جانا ہے یا سوسائٹی میں خود کو ایڈجسٹ کرنا ہے؟ آپ لوگوں کو سوسائٹی میں اپنے لیے جگہ خود بنانی ہو گی، لوگوں کے ساتھ مانوس ہونا ہو گا، ان کے ماحول اور نفسیات سے آگاہی حاصل کرنی پڑے گی، ان کی زبان و اسلوب سے واقف ہونا ہو گا اور ہر حال میں سوسائٹی کا حصہ بن کر اس کی دینی راہنمائی کے راستے نکالنے ہوں گے۔
سوسائٹی کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے دین سے دستبردار ہو جائیں یا دینی احکام اور اصولوں میں لچک پیدا کرنی شروع کر دیں بلکہ آپ کو اپنے دین پر، اپنی تہذیب پر، اپنے احکام و قوانین پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے لوگوں کے مزاج، نفسیات، اسلوب، زبان، محاوروں اور طور طریقوں کو سمجھ کر اس کے مطابق ان سے بات کرنا ہو گی اور انہیں دین کے احکام قوانین کی طرف حکمت عملی کے ساتھ واپس لانا ہو گا۔ اب آپ کا کمال یہ ہو گا کہ اپنی بات کو قائم رکھتے ہوئے ایسی حکمت اور تدبر کے ساتھ لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ دین کی بات کو قبول کریں اور اس کی طرف رجوع کریں۔
بہرحال یہ چند باتیں میں نے خیر خواہی اور نصیحت کے طور پر عرض کر دی ہیں، ہم آپ کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت آپ حضرات کو دین کا سچا خادم بنائیں اور عزت و وقار کے ساتھ دین کی سر بلندی اور فروغ کے لیے محنت کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔