مسئلہ ختم نبوت و ناموسِ رسالت اور اہلِ مغرب کا دوہرا معیار

   
۲۹ مئی ۲۰۱۰ء

روزنامہ جنگ راولپنڈی میں ۲۱ مئی ۲۰۱۰ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ نے حال ہی میں ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ ناموس رسالت کے قانون کو تبدیل کرے۔ جبکہ کانفرنس میں شریک پاکستان کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے اس موقع پر کہا ہے کہ وہ اس پر کام کر رہے ہیں اور سال رواں کے آخر تک توہینِ رسالت قانون میں ترمیم کر دی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ناموس رسالت قانون اقلیتوں کے قتل کے لیے استعمال ہوتا ہے، انتہا پسند گروہ اور ذاتی عناد رکھنے والے عناصر توہینِ رسالت کے قوانین کا غلط استعمال کرتے ہیں، جبکہ مذکورہ قانون ملک میں موجود مذہبی اقلیتوں کے خلاف جن میں ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ مت اور پارسی شامل ہیں تشدد میں اضافے کا بھی باعث ہے اور خاص طور پر احمدیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں منعقد ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں منظور کی جانے والی یہ قرارداد اور پاکستانی وزیر کی طرف سے کروائی جانے والی یہ یقین دہانی بظاہر کوئی نئی بات نہیں ہے اور جب سے تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے یہ قوانین ملک میں نافذ ہوئے ہیں تب سے یہ سلسلہ اسی طرح چلا آ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا کمیشن، امریکی وزارت خارجہ کا جنوبی ایشیا ڈیسک، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی پارلیمنٹ اور اس طرز کے دیگر عالمی ادارے ان قوانین کو مسلسل ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں اور پاکستان کی سیکولر لابیاں بعض اقلیتی عناصر کو آگے کر کے اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ بظاہر یہ معمول کی کارروائی لگتی ہے کہ سالہا سال سے اسی طرح ہوتا چلا آ رہا ہے، لیکن ہمارے قومی معاملات جس رخ پر آگے بڑھ رہے ہیں اور سیاسی کشمکش جس انداز میں پیشرفت کر رہی ہے، اس کے پیش نظر اسے صرف معمول کی بات قرار دینے کو جی نہیں چاہتا اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس محاذ پر کسی نئے راؤنڈ کا آغاز ہونے والا ہے، جو شاید مجوزہ انیسویں دستوری ترمیم میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے۔

جب آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے لیے تیاریاں شروع ہوئیں اور اس کے لیے پورے آئینی ڈھانچے پر نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کی طرف سے دستوری ترمیم کمیٹی قائم کی گئی تو اس کے ساتھ ہی مختلف اطراف سے دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا کہ دستور کی اسلامی دفعات میں بھی ترامیم کی جائیں، ملک کا بدل کر ”اسلامی“ کا لفظ حذف کر دیا جائے، قرارداد مقاصد کو غیر عملی اور نمائشی حیثیت دی جائے، تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے قوانین میں ترامیم کی جائیں، وفاقی شرعی عدالت کو ختم کیا جائے اور دستور میں ملک کی نظریاتی اور اسلامی حیثیت کو نمایاں کرنے والی دفعات کو غیر مؤثر کیا جائے، لیکن پارلیمنٹ کی دستوری ترامیم کمیٹی نے اس دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پھر پارلیمنٹ نے بھی ایسی ترامیم کی تجاویز کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا تو سیکولر حلقوں کو مایوسی ہوئی اور اپنے مقاصد پورے نہ ہونے پر انہوں نے پینترا بدلا۔ چنانچہ اب عالمی دباؤ کو نئے انداز سے منظم کرنے کی طرف توجہ مبذول کر دی گئی ہے اور ہمارے خیال میں یورپی پارلیمنٹ کی یہ قرارداد اس نئی مہم کا نقطہ آغاز ہے جو نویں دستوری ترمیم کی تجویز کے پس منظر میں یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے۔

جہاں تک دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات، نفاذ اسلام کو حکومت کی دستوری ذمہ داری قرار دینے، قرارداد مقاصد، تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے قوانین اور اسلامائزیشن کے دیگر دستوری اقدامات کا تعلق ہے، یہ فیصلے اس ملک میں ہمیشہ منتخب اسمبلیوں نے کیے ہیں۔ یہ قوم کے جمہوری اور سیاسی فیصلے ہیں جن کا احترام جمہوریت کا نام لینے والے ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جمہوریت کا صبح و شام راگ الاپنے والا مغرب اگر اس کے باوجود ان فیصلوں اور قوانین کو تبدیل کروانے پر مصر ہے اور ان میں ترامیم کے لیے مسلسل زور دے رہا ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مغرب کے نزدیک جمہوریت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کسی ملک کے عوام اپنے ملک میں اپنی اکثریتی رائے کے مطابق جس قانون کو مناسب سمجھیں، نافذ کر لیں، بلکہ ان فیصلوں کی مغرب سے منظوری لینا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی ملک کے عوام کی اکثریت اور ان کے منتخب نمائندوں کے فیصلے مغرب کی مرضی کے مطابق ہیں اور دنیا پر مغرب کے فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو مسلط کرنے کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں تو وہ درست اور جمہوری فیصلے ہیں، لیکن اگر کسی بھی ملک کے عوام کی اکثریت اور منتخب پارلیمنٹ کا کوئی فیصلہ اور ان کا طے کردہ کوئی قانون مغرب کی ثقافتی بالادستی کو قبول نہیں کرتا تو وہ فیصلہ مغرب کے نزدیک غیر جمہوری ہے اور درست نہیں ہے، خواہ کسی ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر وہ قانون منظور کیا ہو اور اس ملک کے عوام کی غالب اکثریت اس قانون کی پشت پر کھڑی ہو۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کے حوالے سے مغرب کے اسی دوہرے معیار اور دوغلے پن نے جمہوریت پر بہت سی اقوام کا اعتماد مجروح کر رکھا ہے اور خاص طور پر مسلم ممالک میں مغرب کو جس مبینہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسلسل فروغ کی شکایت ہے، اس کے اسباب میں سب سے بڑا سبب مغرب کا یہ دوغلاپن اور اسلامی عقیدہ و ثقافت کے ساتھ اس کا یہ جانب دارانہ بلکہ معاندانہ رویہ ہے، جس نے بہت سے مقامات پر ”تنگ آمد بہ جنگ آمد“ کی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔

جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے ہمیں معلوم ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی مذکورہ بالا قرارداد کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ پارلیمنٹ یورپی ممالک کے عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ ہے اور اس کی کسی قرارداد کو یورپی عوام کی اجتماعی رائے کی نمائندگی کا درجہ حاصل ہے، لیکن ہم یورپی پارلیمنٹ کے ذمہ داران کی توجہ کو ان حقائق کی طرف لانا چاہتے ہیں کہ

  • ”قرارداد مقاصد“ پاکستان کی منتخب دستور ساز اسمبلی نے منظور کی تھی۔
  • ملک میں نفاذِ اسلام کی دستوری ضمانت عوام کے منتخب نمائندوں نے دی ہے۔
  • نفاذِ شریعت کو قیام پاکستان کا حقیقی مقصد عوام کی منتخب دستور ساز اسمبلی نے قرار دیا ہے۔
  • قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ عوام کے منتخب نمائندوں نے کیا ہے۔
  • ”تحفظ ناموس رسالت“ کا قانون عوام کے منتخب نمائندوں نے طے کیا ہے اور
  • اسلامائزیشن کے سلسلے میں تشکیل پانے والا اب تک کا کوئی قانون یا ضابطہ ایسا نہیں ہے جس کی منظوری عوام کے منتخب نمائندوں نے نہ دی ہو۔
  • اسی طرح مبینہ دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ میں قوم کا متفقہ موقف بھی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد کی صورت میں طے کر رکھا ہے، جو فریزر میں منجمد پڑا ہے اور جمہوریت کا شب و روز راگ الاپنے والے مغرب کے دباؤ پر وہی پالیسیاں جاری ہیں جنہیں عوام نے گزشتہ انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ مسترد کر دیا تھا۔

یورپی پارلیمنٹ سے ہمارا سوال ہے کہ اسے بعض اقلیتوں کے چند افراد کی خود ساختہ شکایات اور این جی اوز کی پیدا کردہ مصنوعی صورت حال پر تو اس قدر تشویش ہے کہ اس کے لیے اس نے باقاعدہ قرارداد منظور کی ہے اور حکومت پاکستان سے قوانین تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کے عقائد، جذبات، رجحانات اور منتخب پارلیمنٹ کے جمہوری فیصلوں کے بارے میں اس کا کیا خیال ہے؟ کیا یورپی پارلیمنٹ یا یورپ کے کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ اپنے کسی جمہوری اور اکثریتی فیصلے کے خلاف شور مچانے والے کسی اقلیتی گروہ کو اپنے ملک کے خلاف لابنگ اور محاذ آرائی کی وہ سہولتیں دینے کے لیے تیار ہو گی جو انہوں نے پاکستان کی بعض اقلیتوں کے مخصوص افراد اور خاص طور پر پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو مسترد کرنے والے قادیانیوں کو دے رکھی ہیں؟

جہاں تک قوانین کے غلط استعمال کا تعلق ہے، ہم بار بار اس کی وضاحت کر چکے ہیں اور آج بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ بعض اقلیتی عناصر اور خاص طور پر قادیانیوں کی طرف سے عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف کیا جانے والا یہ مسلسل پروپیگنڈہ زمینی حقائق کے منافی ہے اور واقعات و حقائق کے خلاف ہے۔ اس کے لیے کوئی بھی غیر جانبدار فورم تحقیقات میں سنجیدہ ہو تو ہم اس کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار ہیں اور پھر اگر کسی قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہو تو اس کا حل قانون کو ختم کرنا نہیں، بلکہ اس کے غلط استعمال کو روکنا اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ہوتا ہے، جس کی طرف ہماری سرے سے توجہ ہی نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter