حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۱۰ اپریل ۲۰۱۳ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو ہمارے دیوبندی حلقوں میں سید الطائفۃ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یعنی ہمارے پورے دیوبندی گروہ کے سب سے بڑے سردار۔ دیوبندیت کوئی مذہب نہیں ایک مکتبِ فکر ہے۔ ہم حنفی ہیں اور اہلِ سنت کے اجتماعی دھارے کا حصہ ہیں۔ لیکن دیوبندیت کے حوالے سے فکری اور علمی تحریک کے طور پر ہمارا تعارف ہے۔ ہمارے اکابر میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ بہت بڑے بزرگ تھے، ہم انہیں اپنا سب سے بڑا پیر اس لیے کہتے ہیں کہ ہمارے چار پانچ بڑے بزرگ ان کے مرید، ان کے خلیفہ اور ان سے فیض یافتہ ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہم اللہ تعالیٰ، ہمارے یہ بزرگ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے مرید اور خلیفہ ہیں اور ان کی تحریک کے ساتھی ہیں۔

حضرت حاجی صاحبؒ کا یہ اعزاز ہے کہ وہ ہمارے دیوبندیوں کے پیر تو ہیں ہی، بریلویوں کے پیر بھی ہیں۔ یہ وہ پیر ہیں جنہیں دیوبندی بریلوی سب مانتے ہیں۔ جہاں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ حضرت حاجی صاحبؒ کے خلیفہ ہیں، وہاں حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ بھی حاجی صاحبؒ کے خلیفہ ہیں، اور حضرت خواجہ غلام فریدؒ چاچڑ والے، جن کی بڑی خانقاہ ہے، وہ حضرت حاجی صاحبؒ کے معاصر ہیں اور انہوں نے حاجی صاحبؒ کی بڑی تعریف کی ہے کہ ہمارے بزرگوں میں سے ہیں، اللہ کے ولی ہیں۔ تو یہ وہ مقام ہے جہاں ہم حضرت حاجی صاحبؒ کی شخصیت پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ تھانہ بھون کے تھے، جس نسبت سے انہیں تھانوی کہا جاتا ہے۔ تھانہ بھون ایک جگہ کا نام ہے، آج کل غالباً مظفر نگر میں ہے، پہلے ضلع سہارنپور ہوتا تھا۔ سہارنپور کے قریب قریب کے خطے نانوتہ، گنگوہ، تھانہ بھون اور کیرانہ ہیں جہاں کے ہمارے مختلف بزرگ معروف ہیں۔ کوئی کیرانوی بزرگ ہیں، کوئی تھانوی ہیں، کوئی گنگوہی ہیں اور کوئی نانوتوی ہیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا ننہال نانوتہ میں تھا جہاں ان ولادت ۲۲ صفر ۱۳۳۳ھ بمطابق ۱۸۱۷ء میں ہوئی۔ انہوں نے تقریباً نوے سال عمر پائی اور آج سے تقریباً ایک صدی پہلے ان کا انتقال ہوا۔ ہمارے تذکروں میں مولانا مملوک علی نانوتویؒ کا نام اکثر آتا رہا، یہ حضرت شاہ محمد اسحاقؒ کے شاگردوں میں بڑے عالم تھے اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے استاد تھے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مولانا مملوک علیؒ کے ساتھی ہیں۔

سات برس کی عمر میں حاجی صاحبؒ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا تھا اور پھر خاندان میں ہی دوسرے لوگوں نے ان کی پرورش کی۔ سولہ سال کی عمر میں علم حاصل کرنے کے لیے دہلی گئے۔ اس زمانے میں باضابطہ مدارس اور اس میں موجودہ درجات نہیں ہوتے تھے، کسی بڑے عالم کے پاس کچھ ساتھی اکٹھے ہو جاتے تھے اور مختلف علوم و فنون جیسے نحو، صَرف، فارسی وغیرہ اُن سے پڑھتے رہتے تھے، اور ان کی شاگردی ہی طلبہ کی سند ہوتی تھی۔ باقاعدہ سندوں کا سلسلہ اور درجہ بندی ثانیہ، ثالثہ وغیرہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ فارسی اس زمانے میں تعلیمی زبان بھی تھی اور سرکاری زبان بھی، تو سب سے ترقی یافتہ اور جدید ترین زبان اس زمانے میں فارسی شمار ہوتی تھی۔ فارسی پڑھا ہوا شخص اس زمانے میں لکھا پڑھا شمار ہوتا تھا، جیسے آج کل انگریزی والے کو لکھا پڑھا سمجھا جاتا ہے۔

مختلف علوم کا عالم ہو، صرف انگریزی نہ پڑھی ہو تو کہتے ہیں کہ اَن پڑھ آدمی ہے۔ اس پر ایک لطیفے کی بات بتاؤں کہ پاکستان میں جب پہلی دفعہ الیکشن ہوئے ہیں تو شرط تھی کہ پرائمری پاس ہو، پڑھا ہوا آدمی ووٹ دے سکتا ہے، اَن پڑھ نہیں دے سکتا۔ غالباً ۱۹۵۲ء یا ۱۹۵۳ء کی بات ہے، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ چونکہ پرائمری پاس نہیں تھے اس لیے سرکاری کاغذات میں ان کا نام اَن پڑھوں میں لکھا گیا، ان کا ووٹ نہیں بنا تھا۔ اور پرائمری پاس میں بھی نہیں ہوں ، میں نے چوتھی جماعت سے چھوڑا تھا پھر سکول واپس نہیں گیا۔

جس طرح آج کے زمانے میں انگریزی معیار ہے، اس زمانے میں فارسی معیار ہوتی تھی۔حضرت حاجی صاحبؒ نے فارسی زبان میں اس زمانے کے اعتبار سے اتنا عبور حاصل کیا کہ مولانا رومؒ کی مثنوی حاجی صاحبؒ کا خاص موضوع تھی اور آپؒ مثنوی کی شرح کرتے تھے۔ حضرت گنگوہیؒ اور حضرت نانوتویؒ جیسے بڑے بڑے علماء ان کے سامنے بیٹھ کر مثنوی سبقاً سبقاً پڑھتے تھے۔ مولانا رومؒ کی مثنوی بڑی معرکہ کی کتاب ہے، اللہ پاک کسی کو ذوق دے تو یہ ذوق والوں کی کتاب ہے۔ اس کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا کہ ’’ہست قرآن در زبان بہلوی، مثنوی مولوی معنوی‘‘ کہ یہ فارسی زبان کا قرآن ہے۔ اہلِ علم کہتے ہیں کہ مثنوی کی زبان اتنی معیاری ہے کہ اگر قرآن پاک فارسی میں نازل ہوتا تو اس اسلوب میں نازل ہوتا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ باقاعدہ اس طرح عالم نہیں تھے جس طرح آج مختلف درجات کی تعلیم اور سند کا سلسلہ ہے، لیکن علوم کے عالم تھے۔ فارسی اور صَرف نحو کے بھی اتنے بڑے عالم تھے کہ علماء ان کے سامنے شاگردی کے طور پر بیٹھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

حضرت حاجی صاحبؒ دہلی گئے تو وہاں ان کا حضرت سید نصیر الدین دہلویؒ سے تعلق قائم ہوا۔ یہ اپنے وقت کے عظیم ترین عالم، مجاہد، صوفی اور مفکر تھے۔ ہمارے اکابر میں یہ کمال رہا ہے کہ جہاد میں بھی صفِ اول میں ہوتے تھے، تصوف اور ریاضت میں بھی، اور علم میں بھی۔ حضرت سید نصیر الدین دہلویؒ حضرت شاہ رفیع الدینؒ کے نواسے، حضرت شاہ محمد اسحاقؒ کے داماد، اور حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ ان کے باقی ساتھی شہید ہو گئے تھے، یہ بچ کر دہلی آ گئے تھے، اس لیے انہیں غازی سید نصیر الدین دہلویؒ کہا جاتا ہے۔ اپنے وقت کے بڑے علماء اور صوفیاء میں تھے، اللہ والے تھے۔ حضرت حاجی صاحبؒ ان سے بیعت ہوئے، ایک مجاہد صوفی کے ہاتھ پر۔

عام طور پر صوفی اور جہاد متضاد سمجھے جاتے ہیں کہ صوفیوں کا کیا کام جہاد سے اور مجاہدین کا کیا کام تصوف سے؟ لیکن ہمارے اکابر کا یہ کمال ہے، حضرت مجدد الف ثانیؒ کو دیکھ لیں، حضرت شاہ ولی اللہؒ کو دیکھ لیں، حضرت شاہ عبد العزیزؒ کو دیکھ لیں، سید احمد شہیدؒ کو دیکھ لیں، شاہ اسماعیل شہیدؒ کو دیکھ لیں، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو دیکھ لیں کہ صوفی بھی کمال کے تھے اور مجاہد بھی کمال تھے۔ ہمارے ہاں تصوف اور جہاد لازم و ملزوم رہے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں سرکاری سطح پر ’’صوفی ازم‘‘ کی تحریک کو زندہ کرنے کی بات کی گئی تھی کہ مولویوں کا اسلام بڑا سخت ہے، صوفیوں کا اسلام ٹھیک ہے۔ ان کا خیال تھا کہ صوفی صرف اللہ اللہ کرتے ہیں، دن کو روزہ رکھتے ہیں، رات کو ذکر کرتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے۔ جنرل پرویز مشرف خود صوفی کونسل کے چیئرمین اور سرپرست اعلیٰ بنے تھے، اس کونسل کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین تھے۔ یہ اس زمانے کے بڑے بڑے ’’صوفیاء کرام‘‘ تھے جنہوں نے پاکستان صوفی کونسل بنائی تھی۔ ان کا خیال یہ تھا اور آج کل مغرب والوں کو مغالطہ ہے کہ صوفی اسلام ٹھیک ہے جبکہ مولویوں کا اسلام ٹھیک نہیں ہے۔ مولوی تو نماز پڑھاتے ہیں، ڈنڈے مارتے ہیں، شرعی سزاؤں کی اور غلامی کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ صوفیاء اللہ والے لوگ ہیں، اللہ اللہ کرتے ہیں اور لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرتے ہیں، یہ خطرناک لوگ نہیں ہیں۔

میں نے اس زمانے میں کالم لکھا تھا کہ اصل صوفی کون تھے؟ اگر صوفی سے مراد تصوف ہے تو پھر حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے بڑا صوفی کون ہوگا؟ لیکن یہ سارے صوفی میدانِ جنگ میں کفر کے خلاف بڑی مضبوط لڑائی لڑنے والے صوفی تھے۔ میں نے کہا یہ تصوف اور صوفی ازم ہمیں قبول ہے، بہت سے کام ہم مولویوں سے نہیں ہو سکتے جو صوفیاء کرام روحانی قوت اور باطن کی صفائی کی وجہ سے کر گزرتے ہیں، اگر یہ صوفی ازم لانا ہے تو ہم حاضر ہیں، ہم تو شکر کریں گے کہ ہماری جگہ ہم سے اچھے لوگوں نے سنبھال لی ہے۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سید نصیر الدین دہلویؒ سے بیعت ہوئے تو ان کے رنگ میں ایسے رنگے گئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے جہاد اور تصوف دونوں میں اول درجے کا کام لیا۔ پھر ہمارے ایک اور بزرگ تھے حضرت میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ جو حضرت سید احمد شہیدؒ کے مریدین میں سے تھے اور میاں جی کے نام سے معروف تھے۔ حضرت حاجی صاحبؒ کو خواب میں اشارہ ہوا کہ سید نصیرالدین دہلویؒ کی وفات کے بعد میاں جیؒ سے بیعت ہو جائیں، تو حاجی صاحبؒ اُن سے بیعت ہو گئے، یہ ان کے دوسرے پیر ہیں، یہ بھی صوفی تھے اور مجاہدین کے ساتھی تھے۔

حضرت حاجی صاحبؒ کا ایک دائرہ تصوف تھا کہ اللہ اللہ سکھاتے تھے اور اپنے بزرگوں کے ساتھ لوگوں کو وابستہ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت حاجی صاحبؒ کے کارناموں میں بہت بڑا کارنامہ وہ ہے جس کو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کہتے ہیں۔ یہ وہ صوفی ہیں جنہوں نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر میدانِ جہاد میں جنگ لڑی۔ پورے ملک میں مردان سے لے کر کلکتہ تک بیسیوں مقامات پر انگریزوں کے تسلط کے خلاف بغاوت ہوئی تھی، ان میں ایک محاذ تھانہ بھون اور شاملی کا تھا۔ اس پورے علاقہ کے علماء کرام اکٹھے ہوئے اور طے کیا کہ انگریزوں کے خلاف ہمیں جہاد کرنا چاہیے۔ لمبی داستان ہے، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے ’’سوانح قاسمی‘‘ میں تفصیل لکھی ہے کہ کیسے یہ مشاورت ہوئی۔ دیوبند، تھانہ بھون اور شاملی میدانِ جنگ رہے ہیں۔ جب میں دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں گیا تو دوستوں نے وہ مسجد دکھائی جس میں جہاد کے سلسلے میں ایک مشاورتی میٹنگ ہو رہی تھی تو انگریز فوج نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر فائرنگ کی تھی اور کئی علماء شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تھے۔ مسجد پر اس وقت کی گولیوں کے نشان ابھی تک موجود ہیں، چھوٹی سی مسجد ہے، ابھی تک قائم رکھی ہوئی ہے۔ بعد میں دیوبند کے ایک سفر کے دوران مجھے شاملی کا میدان دیکھنے اور تھانہ بھون، کاندھلہ اور دیگر مقامات میں حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوئی، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی خدمات میں یہ بڑا کارنامہ شمار کیا جاتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی شاملی اور تھانہ بھون کے مورچے پر ان کی امارت میں لڑی گئی۔ حضرت حاجی صاحبؒ سب کے پیر تو تھے ہی، علماء نے اکٹھے ہو کر ان کو اپنا امیر جہاد منتخب کر لیا، اور پیر صاحب نے یہ نہیں فرمایا کہ تم جا کر لڑو میں یہاں اللہ اللہ کرتا ہوں، بلکہ ساتھ گئے۔ تھانہ بھون اور شاملی جا کر علاقہ آزاد کروایا اور پھر کم و بیش تین ہفتے امیر المومنین رہے۔ شیر تو ایک دن بھی شیر ہی ہوتا ہے۔ سلطان ٹیپو نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے۔ انہوں نے شاملی میں علاقہ فتح کیا، حاجی صاحبؒ امیر المومنین چنے گئے، حضرت مولانا محمد قاسم ناناتویؒ سپہ سالار، اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ قاضی القضاۃ تھے۔ اس زمانے میں میمنہ میسرہ یعنی دائیں فوج بائیں فوج ہوتی تھی، مولانا منیر ناناتویؒ اور حافظ ضامن شہیدؒ اس کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے ایک فوج منظم کی تھی، باقاعدہ فوج کہیں سے نہیں منگوائی، یہی مریدین تھے جنہوں نے تھوڑی بہت ٹریننگ کے ساتھ معرکہ لڑا اور شاملی کے محاذ پر قبضہ کیا۔

درمیان میں ایک معرکہ کا ذکر آتا ہے۔ انبالہ دہلی کے راستے میں ہے۔ کہتے ہیں کہ انہیں پتہ چلا کہ مجاہدین کے خلاف انگریزوں کی مدد کے لیے ایک دستہ انبالہ سے دہلی توپ خانہ لے کر جا رہا ہے، وہاں جا کر یہ مجاہدین کے خلاف استعمال ہوگا۔ انہوں نے سوچا کہ ان کو راستے میں ہی روکنا چاہیے، تو مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی قیادت میں چالیس آدمیوں کا دستہ مقرر ہوا جو حاجی صاحبؒ کے حکم پر اس نظم کے تحت رات کی تاریکی میں جا کر ارد گرد چھپ گئے، ایک جگہ جا کر انہوں نے شب خون مارا، توپ خانہ چھینا اور صبح لا کر حاجی صاحبؒ کی خدمت میں پیش کر دیا۔

حاجی صاحبؒ نے شاملی کے محاذ پر لڑائی لڑی اور انگریزوں کو نکال کر قبضہ کر لیا۔ لیکن جب دہلی پر قبضہ ختم ہو گیاتو شاملی میں بھی شکست ہو گئی۔ درمیان میں غداری ہو گئی تھی اور بالآخر انگریزوں نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ شاملی کی شکست میں ان مجاہدین کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت گنگوہیؒ تو گرفتار ہو گئے لیکن حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ گرفتار ہوتے ہوتے بچے تھے، اصل تو اللہ پاک بچاتے ہیں مگر سبب ان کی فراست بن گئی۔ حضرت نانوتویؒ ایک جگہ روپوش تھے، انگریز فوجی تلاش کرنے کے لیے چھاپے مارتے رہے۔ یہ تین دن کے بعد خود ہی باہر آ گئے، ساتھیوں نے کہا کہ حضرت! انگریز فوج آپ کا پیچھا کر رہی ہے اور آپ باہر پھر رہے ہیں۔ جواب میں عجیب بات فرمائی کہ میرے میاںؐ کی سنت تین دن چھپنا ہی ہے۔ یہ غارِ ثور کی طرف اشارہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن چھپے تھے۔ ایک جگہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ قابو آ گئے۔ پکڑنے والے فوجی انگریز تھے لیکن جو دوسرے ساتھی تھے وہ بھی ان کو جانتے نہیں تھے۔ وہ خود مولانا سے پوچھنے لگے کہ آپ نے مولوی محمد قاسم کو تو نہیں دیکھا؟ اب کیا جواب دیں، جھوٹ بھی نہیں بولنا اور سچ بولا نہیں جا سکتا تھا۔ باتیں کرتے کرتے انہیں تھوڑا سا آگے لے گئے اور کہا کہ ابھی تو یہیں تھے۔ وہ پتہ کرنے چلے گئے اور یہ گرفتار ہوتے ہوتے بچے۔

اس طرح کا ایک لطیفہ ہمارے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ جامع مسجد نور کی واگذاری کی تحریک کے دوران یہاں کی پولیس تقریباً تین مہینے مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر الحمد للہ نہیں پکڑا گیا۔ ایک دفعہ بالکل یوں بچا جیسے مولانا قاسم نانوتویؒ بچے تھے۔ پولیس کی گاڑی جامع مسجد کے دروازے کے قریب آ کر رکی، سارے نیچے اترے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ مولانا صاحب اندر ہیں؟ میں نے پوچھا بڑے مولانا صاحب؟ کہنے لگے ہاں۔ اس وقت مفتی عبد الواحد صاحبؒ حیات تھے، میں نے کہا کہ وہ سامنے کارخانہ ہے وہاں دفتر میں بڑے مولانا صاحب بیٹھے ہوں گے۔ انہوں نے اُدھر دھیان کیا اور میں وہاں سے نکلا اور لاہور جا کر سانس لیا کہ انہیں تو ابھی دس منٹ میں پتہ چل جائے گا کہ ہم جس کو تلاش کر رہے ہیں یہ وہی تھا۔ اس وقت ڈی سی میاں عبد الرشید تھے، بعد میں ایک دن لاہور انہیں ملنے گیا تو کہنے لگے مولوی صاحب ! بتائیں کہ ہم نے چاروں طرف سے گھیرا ڈالا ہوتا تھا، آپ نکل کیسے جاتے تھے؟ میں نے کہا پیشہ ورانہ راز کی باتیں نہیں بتائی جاتیں، ہمیں پھر بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سب سے بڑے امیر تھے، ان کی سربراہی میں سب کچھ ہوا تھا، ان کو تلاش کر نے کی کوشش جاری رہی۔ ان پر کئی چھاپے پڑے اور وہ بھی گرفتار ہوتے ہوتے بچے۔ ان کے ایک مرید علاقے کے بڑے رئیس تھے، یہ ان کے ہاں چھپے ہوئے تھے کہ پولیس نے چھاپہ مار دیا۔ حاجی صاحب گھوڑوں کے اصطبل میں نوکروں کی چارپائی پر چادر اوڑھ کر لیٹ گئے۔ پولیس ادھر ادھر تلاشی لیتی رہی، جب ان کے اصطبل کی طرف آنے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس رئیس مرید نے سمجھداری دکھائی اور اپنے نوکروں کو آواز دی کہ اس بڈھے کو جا کر کہیں چھوڑ آؤ، ساری رات کھانس کھانس کر ستیاناس کر دیا ہے۔ نوکروں نے چارپائی اٹھائی اور پیچھے کے دروازے سے نکل گئے۔ پولیس والے سمجھے کہ کوئی نوکر کوئی خادم ہوگا۔ یوں چھاپوں سے بچتے بچاتے حضرت حاجی صاحبؒ کسی طریقے سے کراچی پہنچے اور پھر ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے، اس لیے انہیں مہاجر مکی کہا جاتا ہے۔

مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا میں نے بتایا تھا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے۔ یہ جو ٹولہ تھا جس میں پانچ سات آدمی ہی تھے، زیادہ نہیں تھے، اللہ پاک کی تقسیم ہے کہ ان میں سے دو تین کو وہاں بھیج دیا، اور تین چار کو یہاں کام پر لگا دیا۔ حضرت حاجی صاحبؒ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دی اور پھر وہیں رہے۔ ۱۸۵۷ء میں یہ سارا معرکہ ہوا اور اس کے آٹھ سال بعد ۱۸۶۶ء میں دیوبند کا مدرسہ بنا۔ مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حاجی عابد حسینؒ، اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے والد مولانا ذوالفقار علیؒ وغیرہ چند لوگوں نے مشورہ کیا کہ ہم مدرسہ بنانا چاہیے۔

ایک روایت ہے کہ دیوبند میں مدرسہ قائم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ایک بزرگ حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے اور حضرت حاجی صاحبؒ سے ملاقات ہوئی تو انہیں بتایا کہ ہم نے دیوبند میں ایک مدرسہ قائم کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حضرت حاجی صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’ہماری پیشانیاں یہاں اس مقصد کے لیے سجدوں میں دعائیں کرتے کرتے گھس گئی ہیں اور تم کہتے ہو کہ ہم نے مدرسہ قائم کیا ہے‘‘۔ بہرحال یہ روایت جس درجہ کی بھی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں رہ کر کام کا ازسرنو آغاز کرنے والوں کی پشت پر حرمین شریفین سدھار جانے والے ان بزرگوں کی مخلصانہ دعائیں ہی کام کر رہی تھیں۔

اس زمانے میں حج سستا ہوتا تھا لیکن اتنا آسان نہیں ہوتا تھا۔ آج کل مہنگا ہو گیا ہے لیکن آسان ہو گیا ہے کہ چار پانچ گھنٹے میں وہاں پہنچے، چار پانچ دن حج پر لگائے اور چھٹے دن واپس آگئے۔ اس زمانے میں حج کے لیے کلکتہ سے بادبانی بحری جہاز جاتا تھا، اڑھائی مہینے میں کلکتہ سے جدہ پہنچتا تھا۔ اڑھائی مہینے سمندر میں جاتے ہوئے اور اڑھائی مہینے سمندر میں آتے ہوئے لگتے تھے۔ وہاں دو تین مہینے رہتے تھے، تقریباً سال کا نسخہ ہوتا تھا۔ اس لیے لوگ جاتے ہوئے سارے خاندان کو بلا کر بخش بخشوا کر جاتے تھے کہ سمندر کا سفرہے، پتہ نہیں واپس آنا ہے یا نہیں، اس لیے معاف کر دینا۔ یہ رسم تو باقی ہے اور دعوتیں ہوتی ہیں لیکن مقصد فوت ہو گیا ہے۔

اس زمانے میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے بھی سمندری سفر کیا اور ان کا ایک کمال کتابوں میں ذکر ہے۔ تقریباً‌ اڑھائی مہینے کا سفر تھا، راستے میں ماہِ رمضان آ گیاجو سمندر میں ہی گزرنا تھا۔ پتہ کیا کہ مسافروں میں کوئی حافظ ہو تو ہم تراویح میں قرآن پاک سن لیں، اللہ کی قدرت کہ کوئی حافظ نہیں تھا۔ حضرت نانوتویؒ پریشان ہوئے کہ پہلے پتہ چلتا تو ساتھ کسی حافظ کو لے آتے۔ اس زمانے میں ویزہ وغیرہ نہیں ہوتا تھا، جس کے پاس پیسے ہوتے، جا سکتا تھا۔ جہاز میں بڑی پریشانی پھیلی کہ سفر میں کوئی کام تو ہے نہیں، دن رات فارغ ہوں گے لیکن رمضان میں قرآن مجید نہیں سن سکیں گے۔ چاند نکلنے میں ایک آدھ دن رہتا تھا کہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ایک ساتھی سے کہا کہ اعلان کر دو کہ اگر کل چاند ہو گیا تو تراویح ہوں گی اور قرآن پاک سنایا جائے گا۔ اس نے پوچھا کون سنائے گا؟ فرمایا تم اعلان تو کرو، اللہ تعالیٰ انتظام کر دیں گے۔ حضرت نانوتویؒ نے اس بڑھاپے میں ایک مہینے کے اندر قرآن مجید اس طرح حفظ کیا کہ سارا دن پارہ یاد کرتے اور رات کو تراویح میں سنا دیتے۔ یوں رمضان المبارک کے پورے مہینے میں قرآن پاک حفظ کیا اور جہاز میں لوگوں کو تراویح میں سنایا۔

جہاز کی بات ہوئی ہے تو ایک لطیفہ ذکر کر دیتا ہوں۔ ہمارے بزرگوں میں مولانا شبلی نعمانیؒ گزرے ہیں، بڑے علماء میں سے تھے۔ ایک دفعہ لندن جا رہے تھے، بحری سفر تھا، دو تین مہینے راستے میں رہنا تھا۔ انہیں احساس ہوا کہ جہاز میں تو ہندو سکھ وغیرہ سبھی لندن جا رہے ہیں تو ہانڈی میں گوشت وغیرہ کے حلال حرام کا مسئلہ پریشان کن ہے۔ اس لیے کمپنی والوں سے کہا کہ ہم اس شرط پر جائیں گے کہ مسلمان مسافروں کے لیے ہنڈیا الگ پکے گی، ہم مشترکہ کھانا نہیں کھائیں گے۔ کمپنی والوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ جو پندرہ سولہ افراد مسلمان تھے ان کی ہنڈیا الگ پکتی تھی۔ لطیفہ یہ ہوا کہ دورانِ سفر دو چار دن کے بعد مولانا شبلی نعمانیؒ کو خیال ہوا کہ ہم جا کر اپنی ہنڈیا کا بندوبست دیکھتے ہیں کہ کیسے پک رہی ہے؟ وہاں جا کر دیکھا کہ ان کا سامان الگ ہے اور ہنڈیا الگ پک رہی ہے۔ خوش ہوئے کہ معاملہ ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ باورچی نے وہی چمچہ جو بڑی دیگ میں چلاتا تھا، ان کی ہنڈیا میں چلا دیا۔ مولانا پریشان ہو گئے کہ یہ کیا؟ ہنڈیا الگ الگ ہے مگر چمچہ ایک ہی ہے۔ انہوں نے شور مچایا کہ یہ کیا بات ہوئی، اگر چمچہ دونوں جگہ ایک ہے تو ہنڈیا الگ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ ہمارا چمچہ الگ کرو۔

یہ لطیفہ ایک اور واقعہ سے پورا ہو گا، جب جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں چند شرعی قوانین نافذ ہوئے اور فیصلہ ہوا کہ موجودہ عدالتیں شرعی قانون نافذ کریں گے تو میں نے یہ لطیفہ سنایا اور کہا کہ ہمیں یہ نہیں چاہیے، ہمارا چمچہ الگ کرو۔ شرعی قوانین کا جج الگ ہوگا اور ملکی قوانین کا جج الگ ہو گا، ورنہ بات وہی ہو جائے گی کہ ہنڈیا الگ الگ ہے اور چمچہ ایک ہے۔

بہرحال حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور باقی زندگی وہیں گزاری۔ ان کا انتقال ۱۸۹۹ء میں ہوا اور جنۃ المعلیٰ میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؒ کے قدموں میں ان کی قبر ہے۔ بزرگوں کے تذکرہ سے ہماری غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے اکابر سے متعارف ہو جائیں، ہمارے نوجوان طلباء کو پتہ ہو کہ ہم جو دیوبندی کہلاتے ہیں تو کن کی وجہ سے کہلاتے ہیں اور ہمارے بزرگوں کی خدمات کیا تھیں اور ان کا ذوق کیا تھا؟ اللہ پاک ہم سب کو ان بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ دسمبر ۲۰۲۴ء)
2016ء سے
Flag Counter