بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اور ممتاز مسلم لیگی راہنما میر ظفر اللہ جمالی گزشتہ دنوں لندن آئے اور روزنامہ جنگ لندن نے ان کے ساتھ ’’جنگ فورم‘‘ کے عنوان سے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے پاکستان کی صورتحال کے بارے میں مختلف لوگوں کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس نشست کی تفصیلات جنگ لندن کی ۱۸ جون ۱۹۹۷ء کی اشاعت میں شائع ہوئی ہیں جس کے مطابق ایک سوال ان سے یہ بھی کیا گیا کہ
’’پاکستان میں اسلامی قانون آج تک کیوں نافذ نہیں ہو سکا، آخر اس میں کیا مشکلیں اور کیا دشواریاں حائل ہیں؟‘‘
اس کا جواب میر ظفر اللہ جمالی نے یہ دیا کہ
’’کوئی مشکل نہیں ہے بشرطیکہ آپ عمل کرنا چاہیں۔ اگر آپ عمل کرنا چاہتے ہیں تو قرآن شریف آپ کے پاس ہے جو مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ہم اس پر عمل نہیں کرتے اور پھر قانون کے پیچھے پیچھے ہیں کہ اسلامی قانون لے آئیں، آئین میں ترمیم کر دیں، جبکہ اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔‘‘
سوال یہ تھا کہ اسلامی قانون کے نفاذ میں رکاوٹ کیا ہے؟ میر صاحب نے جواب میں معاملہ ہی صاف کر دیا کہ اس کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، قرآن شریف موجود ہے جو مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس پر جو شخص عمل کرنا چاہتا ہے عمل کرے اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی کا یہ جواب دراصل حکمران طبقے کی اجتماعی سوچ کا آئینہ دار ہے، اور اس تہذیبی اور فکری ماحول کا لازمی نتیجہ ہے جس میں تربیت پا کر ہمارے یہ حکمران اعلیٰ مناصب تک پہنچنے کے قابل قرار پاتے ہیں۔ یہ فکر اور سوچ یہ ہے کہ قرآن کریم بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور وہ مکمل ضابطۂ حیات بھی ہے، مگر اس پر عمل ایک اختیاری امر ہے جس میں ریاست، حکومت اور قانون کا کوئی دخل نہیں ہے، اور نہ ہی اس بارے میں قانون کو کوئی ذمہ داری سونپنے کی ضرورت ہے۔
یہ مغرب کے مذہب بیزار فلسفے کے اظہار کا ایک محفوظ طریقہ ہے جو ان لوگوں کے لیے وضع کیا گیا ہے جو آسمانی تعلیمات اور مذہبی قوانین کے نفاذ کے حق میں نہیں ہے، لیکن معاشرتی دباؤ کی وجہ سے مذہبی تعلیمات سے انکار کا حوصلہ بھی نہیں پاتے۔ اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں گزشتہ نصف صدی سے حکمران طبقے اسی محفوظ طریقے کی آڑ میں برطانوی استعمار کے مسلط کردہ نوآبادیاتی نظام کے تحفظ کی ڈیوٹی نباہتے چلے آ رہے ہیں۔ حالانکہ جس قرآن شریف کو میر صاحب موصوف مکمل ضابطۂ حیات تسلیم کر رہے ہیں وہ خود مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داریاں ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ
’’وہ معاشرہ میں نماز کے قیام کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ کا نظام نافذ کرتے ہیں، معروفات کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے لوگوں کو روکتے ہیں۔‘‘ (الحج)
قرآن کریم نے یہ ذمہ داری مسلم حکمرانوں کی بیان کی ہے جو ظاہر ہے کہ قانون کے نفاذ کی صورت میں ہی پوری ہو سکتی ہے۔ اسی لیے حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے ’’ازالۃ الخفاء‘‘ میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ چونکہ قرآن کریم کے بہت سے احکام مثلاً اقامتِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اور حدودِ شرعیہ کا نفاذ حکومت پر موقف ہے، اس لیے ان فرائض کی ادائیگی کے لیے خلافت کا قیام اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز کی ادائیگی کے لیے وضو فرض ہے، کیونکہ اس کے بغیر نماز ادا نہیں کی جا سکتی۔