بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمارا معمول کا موضوع تو انسانی حقوق کا چارٹر چل رہا ہے، لیکن آج موضوع سے ہٹ کر حج کے موضوع پر بات ہو گی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں کیا اصلاحات کی تھیں؟ حج کا موجودہ تسلسل حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوا تھا، اب تک چل رہا ہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ جاہلیت کے زمانے میں بھی حج ہوتا تھا۔ عرب قبائل حج کے لیے آتے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکی دور میں حج کیے ہیں، نبوت سے پہلے بھی اور نبوت کے بعد بھی۔ تین سال تک جو انصار مدینہ کے قبائل اوس اور خزرج سے مذاکرات ہوتے رہے وہ بھی حج کے موقع پر ہی ہوتے رہے۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور بیعتِ عقبہ ثانیہ۔ بلکہ بیعتِ عقبہ اولیٰ سے بھی پہلے ایک سال ابتدائی مذاکرات ہوئے تھے، یہ حج کے موقع پر ہی منیٰ میں ہوئے تھے۔ حج جاہلیت کے زمانے میں ہوتا تھا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام میں حج کا تسلسل قائم رکھا، لیکن اس میں کچھ اصلاحات کیں۔ جاہلیت کے حج کے نظام میں حضور نبی کریمؐ نے تقریباً دس تبدیلیاں کی ہیں۔ میں ان کو اصلاحاتِ حج کے عنوان سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ آج ان تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہیں تاکہ ہمارے ذہن میں ہو کہ جاہلیت کا حج کیا تھا اور ہمارا حج کیا ہے؟
۱۔ حج کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے فوراً بعد کر دی تھی۔ فتح مکہ سے پہلے حرم میں، بیت اللہ کے اندر حج اور عمرہ میں اللہ کی عبادت بھی ہوتی تھی اور بت پرستی بھی ہوتی تھی۔ وہاں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، جن کی پوجا ہوتی تھی۔ بیت اللہ کے اندر ہبل کا بت تھا، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے بت تھے، صفا مروہ پر اساف اور نائلہ کے بت تھے۔ راستے میں کُدید کے مقام پر منات کا بت تھا، طائف کا بت ’’لات‘‘ تھا۔ فتح مکہ کے ساتھ ہی یہ تبدیلی ہو گئی کہ بیت اللہ اور اردگرد کے ماحول کو اور پھر بتدریج پورے جزیرۃ العرب کو حضور نبی کریمؐ نے بت پرستی سے پاک کر دیا۔ سارے بت بلڈوز کر دیے کہ یہاں صرف اللہ کی عبادت ہوگی اور کسی کی عبادت یا طواف نہیں ہوگا۔
۸ ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ ۹ ہجری میں مسلمانوں کی عملداری میں پہلا حج تھا، لیکن حضورؐ نے ۹ھ میں خود حج نہیں کیا، بلکہ صحابہؓ کو بھیجا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امارت میں حج ہوا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ساتھ اعلانات کے لیے گئے۔ یہ حج اصلاحات کے اعلان کا حج تھا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ارادہ اگلے سال حج پر جانے کا تھا، لیکن اس سے پہلے حضورؐ حج کے نظام میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کرنا چاہ رہے تھے۔ ان تبدیلیوں کے اعلان کے لیے ۹ھ کے حج کو استعمال کیا گیا اور اعلانات کرائے گئے کہ اگلے سال یہ یہ کام نہیں ہوں گے۔ اس موقع پر عرب قبائل کے ساتھ جو معاہدات تھے ان کے بارے میں اپنی پالیسی کا اعلان کیا اور حج کے نظام میں کی جانے والی تبدیلیوں کا اعلان کیا۔
ہجرت کے بعد حضور نبی کریمؐ نے ایک ہی حج کیا اور وہ جاہلی روایات سے صاف کر کے خالص حج کیا ہے۔ اگر حضورؐ مخلوط حج میں شریک ہوتے تو بہت سی غلط فہمیاں قیامت تک باقی رہ جاتیں۔ اس میں بہت بڑی حکمت عملی تھی، اس لیے آپؐ نے مخلوط ماحول میں خود حج نہیں کیا بلکہ پہلے اصلاحات کیں اور اگلے سال جب حضور نبی کریمؐ حج پر گئے تو خالص اسلامی حج تھا۔ اس میں آپؐ نے اعلان کیا: ’’خذوا عنی مناسککم لعلی لا القاکم بعد عامی ھذا‘‘۔
۲۔ حج کے نظام میں دوسری بڑی تبدیلی یہ کی کہ پہلے حج میں مختلف علاقوں سے مختلف مذاہب کے لوگ آتے تھے۔ ہر قبیلے کا اپنا مذہب ہوتا تھا۔ مدینہ منورہ سے بھی لوگ حج پر جاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کو خاص مسلمانوں کی عبادت قرار دے دیا اور غیر مسلموں کی شرکت کو روک دیا۔ قرآن پاک نے ۹ھ میں یہ اعلان کر دیا: ’انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا‘‘ اس سال جو آ گئے سو آ گئے۔ اگلے سال کوئی کافر مسجد حرام کے قریب بھی نہیں آ سکتا۔ بلکہ حرم کی حدود میں ہی کفار کا داخلہ منع ہو گیا۔ اب بھی حرم مکہ اور حرم مدینہ میں مسلمانوں کے روڈ الگ ہیں اور غیرمسلموں کے روٹ الگ ہیں۔ طریق المسلمین اور طریق غیر المسلمین الگ الگ ہیں اور وہاں سڑکوں کو یوں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جو غیر مسلموں کے گزرنے کے راستے ہیں وہ حرم سے باہر باہر رہتے ہیں۔ اس سے حج اور عمرہ میں ان کی شرکت بند ہو گئی۔ چوری چھپے ہر زمانے میں جاتے رہے ہیں، آج بھی جاتے ہیں۔ لیکن باضابطہ ریکارڈ میں کوئی غیرمسلم حج میں شریک نہیں ہو سکتا۔ سعودی حکومت اس کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ دوسری بڑی تبدیلی فرمائی کہ حج اور عمرہ صرف مسلمانوں کی عبادت ہیں، ان میں کوئی غیر مسلم شریک نہیں ہوگا۔ تاکہ خالص اللہ کی عبادت ہو اور خالص مسلمان ہی اللہ کی عبادت کریں۔
۳۔ تیسری بڑی تبدیلی جس کا اعلان ۹ھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے ایک سال پہلے ہو گیا تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں رواج تھا کہ بہت سے قبائل بیت اللہ کے طواف کرنے کے لیے ننگے آتے تھے۔ مرد بالکل ننگے ہوتے تھے اور عورتوں نے پہلوانوں کی لنگوٹی طرز کی کوئی چیز باندھی ہوتی تھی اور طواف کرتے ہوئے باقی جسم ننگا ہوتا تھا۔ ان کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ ہم اللہ کے گھر آئے ہیں، اللہ کے ہاں سے جب دنیا میں آئے تھے تو بھی ننگے تھے تو ہم نیچرل حالت میں طواف کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں آج بھی دنیائے مغرب یورپ میں بہت نیچرل کلب ہیں، جہاں مرد وعورتیں بے لباس ہو کر جاتے ہیں اور کچھ دیر نیچرل کیفیت میں گزارتے ہیں۔ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کو بھی نیچرل کلب بنایا ہوا تھا کہ ننگے طواف کرتے تھے۔ بلکہ روایات میں آتا ہے کہ عورتیں طواف کرتی تھیں تو تلبیہ کے ساتھ یہ شعر بھی پڑھا کرتی تھیں ؎
فالذی یبدو فلا احلہ
’’میرا جسم آج سارا ننگا ہو یا آدھا ننگا ہو، لیکن جتنا بھی ننگا ہے میں کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی‘‘۔
میں کہا کرتا ہوں کہ اس زمانے کے نیچرل کلب میں اور آج کے زمانے کے نیچرل کلب میں ایک فرق ہے کہ اس زمانے کی عورت اگر لباس اتارتی تھی تو اس میں اتنی شرم ہوتی تھی کہ ساتھ کہتی تھی کہ مجھے دیکھو نہیں اور آج کی عورت لباس اتار کر کہتی ہے کہ پہلے مجھے دیکھو۔
۹ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروا دیا کہ اگلے سال حج پر نہ کوئی مشرک آئے گا اور نہ کوئی ننگا آئے گا۔ بلکہ ایک ہی یونیفارم مقرر کر دیا، مرد کے لیے دو چادریں اور عورت مکمل لباس میں۔ روایات میں آتا ہے کہ لوگ اس سے پہلے ننگے آتے تھے۔ قریشیوں نے اپنا یہ پروٹوکول بنا رکھا تھا کہ جس کو قریشی کوئی چادر، کپڑا دے دے وہ پہن سکتا ہے اور جس کو قریشیوں کی طرف سے کپڑا نہ ملے وہ ننگے ہی طواف کریں گے۔ یہ اعزاز سمجھا جاتا تھا جیسے آج کل درباروں پر مجاور کسی کو چادر دے تو بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ یہ تین تبدیلیاں تو حجۃ الوداع سے ایک سال پہلے مقرر ہو گئی تھیں۔
۴۔ حج کے نظام میں چوتھی تبدیلی یہ کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاروں طرف سے میقات مقرر کر دیے کہ اس دائرے کے اندر کوئی بغیر احرام کے نہیں آ سکتا۔ ہمارا میقات یلملم ہے، مدینہ والوں کا ذوالحلیفہ ہے، جو مدینہ سے نکلتے ہی شروع ہو جاتا ہے، اب اس کا نام ابیارِ علی ہے۔ وہاں مسجد علی بھی ہے، جہاں سے لوگ احرام باندھتے ہیں۔ حضورؐ بھی جب حجۃ الوداع میں تشریف لے گئے تھے تو ذوالحلیفہ سے احرام باندھا تھا۔ دوسرے اطراف سے بھی حضورؐ نے میقات مقرر کر دیے۔
۵۔ حج کے نظام میں پانچویں تبدیلی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کی کہ جب آپؐ حجۃ الوداع میں تشریف لائے تو پورے اہتمام کے ساتھ تشریف لائے اور اہتمام کا اندازہ اس سے کیجیے کہ پورا سال جہاں جہاں مسلمان بستے تھے وہاں یہ اعلان ہوتے رہے کہ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج پر جانا ہے، جو مسلمان پہنچ سکتے ہیں پہنچیں۔ دوسرے یہ کہ جناب نبی کریمؐ نے حج کے موقع پر یہ بات بیان فرمائی: ’’خذوا عنی مناسککم لعلی لا القاکم بعد عامی ھذا‘‘ حج کے طریقے مناسک جتنے مجھ سے سیکھ سکتے ہو سیکھ لو۔ شاید اگلے سال میری تمہاری ملاقات نہ ہو۔ اور پھر اگلے سال ملاقات نہیں ہوئی۔ یہی ہجرت کے بعد پہلا اور آخری حج تھا۔ اس میں تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کا اجتماع ہوا تھا۔
اس میں تبدیلی یہ ہوئی کہ حضورؐ نے حج کے ساتھ عمرہ کو اکٹھا کر دیا۔ جاہلیت کے زمانے میں حج کے سفر میں حج کے ساتھ عمرے کو درست نہیں سمجھا جاتا تھا۔ حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ حج کے ساتھ عمرہ کرنے کو ’’افجر الفجور‘‘ بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ حج اور عمرہ پہلی بار حجۃ الوداع پر اکٹھا ہوا ہے۔ وہ بھی عجیب طریقے سے کہ جب حضورؐ ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر چلے تو صحابہؓ کے ذہن میں تھا کہ حج کا احرام باندھا ہے۔ آپؐ ۴ ذی الحجۃ کو مکہ میں داخل ہوئے تو عمومی اعلان فرما دیا کہ جو آدمی ہدی کا جانور ساتھ لایا ہے وہ احرام نہیں کھولے گا اور جو ہدی ساتھ نہیں لایا اس کو اجازت ہے کہ عمرہ ادا کرے اور احرام کھول دے، پھر یوم الترویہ ۸ ذی الحجۃ کو احرام باندھ لے۔
حضورؐ نے جب یہ اعلان فرمایا تو صحابہؓ حیران ہوئے کہ یہ کیا ہوا؟ آپؐ نے یہ بھی اعلان فرما دیا کہ میں نے حج اور عمرہ اکٹھا کر دیا ہے، عمرے کو حج میں داخل کر دیا ہے۔ لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی کہ کبھی ایسا ہوا نہیں۔ حضرت علیؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ دونوں یمن سے حج پر آئے تھے۔ حضرت علیؓ جب آئے تو حضورؐ نے ان سے پوچھا کہ علی! تم نے کیا نیت کی تھی؟ کہا کہ میں نے احرام باندھتے ہوئے نیت کی تھی کہ جو نیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی وہی نیت میری ہے۔ فرمایا کہ ہدی کا جانور ساتھ لائے ہو؟ کہا کہ جی کئی جانور لایا ہوں، آپ کے لیے بھی لایا ہوں۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تمہاری نیت میرے والی ہے، لہٰذا تم احرام نہیں کھولو گے حج کر کے احرام کھولیں گے۔
جب حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ آئے تو حضورؐ نے ان سے پوچھا کہ ابوموسیٰ! تم نے کیا نیت کی تھی؟ کہا کہ میں نے احرام باندھتے ہوئے نیت کی تھی کہ جو نیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی وہی نیت میری ہے۔ فرمایا کہ ہدی کا جانور ساتھ لائے ہو؟ کہا: نہیں۔ فرمایا کہ تمہاری نیت میرے والی نہیں ہے۔ تم عمرہ ادا کرو اور اپنا احرام کھول دو۔ اس طرح حضورؐ نے احرام کھلوا دیے۔
حج کے ساتھ عمرے کی اجازت دے دی تو حضرت سراقہ بن مالکؓ نے پوچھ لیا: ’’اَلِعامنا ھٰذا ام لِلاَبَد‘‘۔ یہ حج کے ساتھ عمرہ کی سہولت جو آپ دے رہے ہیں یہ اس سال کے ساتھ خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے یہ سہولت ہے؟ انہیں خیال یہ ہوا کہ کافی عرصہ بعد موقع ملا ہے تو ممکن ہے حضورؐ اس سال کے لیے اجازت دے رہے ہوں کہ ساتھ عمرہ بھی کر لو۔ لیکن حضورؐ نے فرمایا: ’’بل للابد للابد للابد‘‘ میں حج اور عمرہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکٹھا کر رہا ہوں۔ حضور نبی کریمؐ نے حج کے نظام میں یہ ایک بڑی تبدیلی فرمائی کہ حج اور عمرہ کو اکٹھا کر دیا۔
۶۔ ایک اور اصلاح حج کے نظام میں یہ کی کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ بیت اللہ کا طواف سارے ہی کرتے تھے، لیکن صفا مروہ کی سعی سب نہیں کرتے تھے۔ قریش اور ان کے حریف قبائل صفا مروہ کی سعی کرتے تھے، باقی نہیں کرتے تھے۔ اس کی دو وجہیں احادیث میں آتی ہیں۔ ایک وجہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’کنا نعدھا فی الجاھلیۃ کنا نتاثم کنا نتحرج‘‘ اوس اور خزرج انصار کے دونوں قبیلے صفا مروہ کی سعی نہ کرنے والوں میں تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ خزرجی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اسے گناہ کی بات سمجھتے تھے، حرج کی بات سمجھتے تھے اور اسے جاہلی اقدار میں سے سمجھتے تھے۔ اس حوالے سے کہ یہاں حضرت ہاجرہؓ ایک خاتون دوڑی ہے تو قیامت تک لوگ بھی دوڑتے ہی رہیں۔ اس لیے ہم نہیں دوڑیں گے۔
بعض قبائل کی طرف سے یہ بات منقول ہے کہ ہم اس وجہ سے سعی نہیں کرتے کہ صفا مروہ کی سعی حضرت ہاجرہ کی وجہ سے ہے اور وہ قریش کی ماں تھیں تو قریشی دوڑیں ہم کیوں دوڑیں؟ انہوں نے اس کے متقابل سعی کے لیے جگہیں بنا رکھی تھیں۔ حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں حج اور عمرہ میں یوں کرتے تھے کہ قریشی تو بیت اللہ کے طواف کے بعد صفا مروہ کی سعی کے لیے چلے جاتے تھے تو ہم نے اس کا متقابل ٹھکانہ منات بنایا ہوا تھا۔ واپسی میں راستے میں کُدید کے مقام پر منات کے بت خانے پر حاضری دیتے تھے اور اس کو سعی کا متبادل سمجھتے تھے۔
ہوا یوں کہ فتح مکہ کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے بت خانے بلڈوز کروا دیے تھے تو ہمیں اشکال ہوا کہ اب حج اور عمرہ پر جائیں گے، قریشی تو طواف کے بعد صفا مروہ کی سعی کر لیں گے جبکہ ہمارا منات صاف ہو گیا ہے تو ہم کیا کریں گے؟ بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ نے حضرت عائشہؓ سے قرآن پاک کی اس آیت کے بارے میں سوال کیا ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما‘‘ کہ صفا مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں، جو آدمی حج یا عمرہ کرے اس پر کوئی حرج نہیں کہ صفا مروہ کی سعی بھی کر لے۔ حضرت عروہؓ کو اشکال یہ تھا کہ ’’فلا جناح علیہ‘‘ سے تو جواز سمجھ آ رہا ہے، اباحت سمجھ آ رہی ہے تو سعی کا وجوب کہاں سے آ گیا ہے؟ حالانکہ صفا مروہ کی سعی واجب ہے۔ ”کوئی حرج نہیں کہ یہ کام بھی کر لو۔ “ یہ وجوب کا جملہ تو نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ نے کہا بیٹے!قرآن نے یہ تم سے کہا نہیں، اس لیے تمہیں سمجھ نہیں آیا۔ جن سے یہ کہا گیا تھا ان کو سمجھ آ گیا تھا۔ ہم قریشی تو سعی کرتے تھے، یہ جملہ اللہ پاک نے ان سے کہا ہے جو صفا مروہ کی سعی نہیں کرتے تھے اور اسے حرج سمجھتے تھے، اس کو گناہ اور جاہلی قدر سمجھتے تھے کہ صفا مروہ کی سعی صرف ہاجرہ کی وجہ سے نہیں ہے، خود بھی شعائر اللہ میں سے ہے۔ پہلے اللہ پاک نے ذہن صاف کیا۔ فرمایا ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ‘‘ جس طرح بیت اللہ کی تعظیم ضروری ہے، اسی طرح صفا مروہ کی تعظیم بھی ضروری ہے۔ پھر فرمایا ’’فلا جناح علیہ ان یطوف بھما‘‘ کہ ان کی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تو قرآن نے حج کے نظام میں یہ تبدیلی کر دی کہ اعلان فرما دیا: ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما‘‘ اس طرح صفا مروہ کی سعی کو حج و عمرہ میں شامل فرما دیا۔ بلکہ عمرہ میں تو دو ہی چیزیں ہیں بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی۔ اور حج میں بھی صفا مروہ کی سعی واجب ہے۔
۷۔ اسلام نے حج کے نظام میں ساتویں تبدیلی کی جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ حج میں سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفات ہے۔ عرفات مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلے پر ہے۔ حرم کی حدود سے باہر ہے منیٰ کا کچھ حصہ حرم میں ہے مزدلفہ کا کنارہ بھی حرم میں ہے، لیکن عرفات سارے کا سارا حرم سے باہر ہے۔ قریشی اسے اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھتے تھے کہ وقوف عرفات کے لیے حرم کی حدود سے باہر نہیں جاتے تھے۔ کہتے تھے: ’’نحن حمس‘‘ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ہم بہادر لوگ ہیں۔ لیکن میں اس کا ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ ہم شاہی خاندان ہیں، ہم وی آئی پی ہیں۔ عرفات کے میدان میں جانا باقی لوگوں کے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں ہے۔ قریشی وقوف عرفات نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہم مستثنیٰ ہیں ہم پر عرفات میں جانا ضروری نہیں ہے۔
حضرت جبیر بن مطعمؓ کا ڈیرہ عرفات سے آگے طائف کے راستے میں تھا۔ ان کے والد مطعم بن عدی بڑے سرداروں میں تھے اور یہ وہ آدمی تھے کہ جب آنحضرتؐ اور حضرت زید بن حارثہؓ پر طائف کے لڑکوں نے پتھراؤ کیا تھا، وہاں سے نکلے تو راستے میں مطعم بن عدی کا ڈیرہ تھا۔ اس نے دروازہ کھول دیا تھا، ان کو اندر بلا لیا تھا، لڑکوں کو بھگایا تھا اور ان کو پناہ دی تھی۔ مطعم بن عدی نے کلمہ نہیں پڑھا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ مبارکہ ہے کہ آپؐ احسان یاد رکھتے تھے خواہ کافر نے کیا ہو۔ یہ اخلاقیات کی بات ہے۔ حضورؐ نے مطعم بن عدی کا یہ احسان یاد رکھا، چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضورؐ نے ایک جملہ فرمایا تھا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور وہ ان کی سفارش کرتے تو میں ان کی سفارش پر ان کو بغیر فدیے کے چھوڑ دیتا۔
بخاری شریف کی روایت ہے جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ عرفات کا دن تھا، میرے کچھ جانور گم ہو گئے تھے، میں ان کی تلاش میں پھر رہا تھا۔ عرفات میں حاجی آئے ہوئے تھے، میرا وہاں سے گزر ہوا۔ میں نے وہاں ایک بڑا آباد خیمہ دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ بڑی رونق والا خیمہ ہے یہ کس کا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت محمدؐ کا خیمہ ہے تو مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ یہ تو قریشی ہیں بلکہ ہاشمی ہیں یعنی خاص الخاص قریشی ہیں تو یہ یہاں کیوں آئے ہوئے ہیں؟ قریشی تو یہاں نہیں آیا کرتے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ پابندی ختم ہو گئی ہے۔ قرآن پاک کا حکم ہے: ”ثم افیضوا من حیث افاض الناس“ میں اسے یوں تعبیر کرتا ہوں کہ حج میں کوئی پروٹوکول نہیں ہے۔ ایک ہی میدان ہے جہاں سارے پروٹوکول ختم ہو جاتے ہیں۔ وردی بھی ایک، میدان بھی ایک۔ وہاں کوئی منہ سے بول کر بتائے کہ میں بادشاہ سلامت ہوں تو پتہ چلے گا، ورنہ ظاہری ہیئت اور لباس سے کسی کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ یہ بھی حج کے نظام میں ایک تبدیلی تھی کہ پروٹوکول ختم ہو گیا اور سب کے لیے عرفات میں وقوف فرض قرار دیا۔ اگر اس دن وقوف عرفات نہ کیا خواہ کوئی بھی ہو تو اس کا حج نہیں ہوتا۔
۸۔ حج کے جاہلی نظام میں ایک اور تبدیلی اسلام نے یہ کی جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ مکہ اور اس کے قریب آبادی کے لوگ حج پر جاتے۔ ۸ ذی الحجۃ کو احرام باندھ کر رات منٰی میں گزارنی ہوتی ہے۔ منیٰ سے ہی عرفات جاتے ہیں۔ عرفات سے مزدلفہ اور پھر منیٰ آنا ہوتا ہے۔ ۹ تا ۱۳ ذی الحجۃ منیٰ کے ایام ہیں۔ یہ ایام منیٰ میں ہی گزارنے ہوتے ہیں اور خاص طور پر رات تو وہیں رہنا ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو حاجیوں کے انتظامات میں مصروف ہوتے تھے ان کے لیے کسی درجے میں گنجائش ہوتی تھی کہ وہ اپنی ضروریات کے لیے جائیں۔ لیکن رات منیٰ میں آ کر رہیں۔ ان ایامِ منیٰ میں مکہ یا اس کے قریبی آبادی کے کسی آدمی کو گھر میں کسی کام سے جانا پڑتا تو وہ دروازے سے گھر میں داخل نہیں ہوتا تھا۔ کہتے کہ جب تک ہم حج سے فارغ نہیں ہوں گے دروازے سے گھر میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ وہ پیچھے سے دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوتے تھے یا نقب لگا کر آتے تھے۔ اس پر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ’’لیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا و لکن البر من اتقی واتوا البیوت من ابوابھا‘‘ اگر ضرورت سے گھر جانا پڑتا ہے تو گھر میں جاؤ، لیکن دروازے سے جاؤ اور دروازے سے آؤ۔ دیوار پھلانگ کر یا دیوار توڑ کر جانا کوئی نیکی کی بات نہیں ہے۔ یہ حج کے مسائل میں سے نہیں ہے، تمہاری من گھڑت بات ہے۔ ایک بڑی اصلاح یہ بھی کی کہ جاہلیت کا یہ رواج ختم کر دیا۔
۹۔ حج کے نظام میں نویں اصلاح یہ کی، جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ عام طور پر یمن کے لوگ ایسا کرتے تھے کہ کسی زاد راہ کے بغیر حج کے لیے گھر سے چل پڑتے اور کہتے ’’نحن المتوکلون‘‘ ہم توکل کرنے والے لوگ ہیں اور راستے میں لوگوں سے بھیک مانگتے جاتے اور واپسی پر بھی بھیک مانگتے آتے۔ اللہ پاک نے منع فرما دیا اور صرف منع نہیں کیا بلکہ فرما دیا: ’’وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا‘‘ اگر حج کے اخراجات ہیں تو حج فرض ہے ورنہ حج فرض نہیں ہے۔ استطاعت کی صورت مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ جس آدمی کے پاس مکہ جانے اور آنے کے لیے اخراجات موجود ہوں اور اس دوران کا گھر کا خرچہ بھی موجود ہو تو اس پر حج فرض ہے۔
یہاں بھی بخاری شریف کی ایک دلچسپ روایت ہے۔ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان کیا کہ جس آدمی کے پاس مکہ جانے اور آنے کے لیے اخراجات موجود ہوں اور اس دوران کا گھر کا خرچہ بھی موجود ہو اس پر حج فرض ہے تو ایک آدمی نے سوال کیا یا رسول اللہ! کیا ہر سال حج فرض ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال پر ناراض ہوئے کہ جب میں نے مجمل بات کی ہے تو مجمل رہنے دو۔ اگر میں کہہ دوں کہ ہاں ہر سال فرض ہے تو مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔ ایسا سوال جس سے مشکلات بڑھتی ہوں سہولت ہاتھ سے جاتی ہو ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہر سال حج فرض ہو جاتا تو چین اور انڈونیشیا والے کیا کرتے؟ مکہ والے تو ہر سال بآسانی کر لیتے ہیں۔ بہرحال قرآن پاک نے حج کی فرضیت کے لیے استطاعت کی شرط لگا دی اور خالی ہاتھ حج کے لیے چل پڑنا منع فرما دیا۔
۱۰۔ حج کے جاہلی نظام میں ایک اور تبدیلی اسلام نے یہ کی جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ جاہلیت کے زمانے میں یہ رواج بنا ہوا تھا کہ حج پر جانا ہے تو حج کے سفر میں کسی قسم کی کوئی خرید و فروخت نہیں کرنی۔ حج سے پہلے اور حج سے فارغ ہونے کے بعد منڈیاں لگا کرتی تھیں عکاظ، مجنہ، سویق۔ حج کے ایام میں خرید و فروخت نہیں کرتے تھے کہ یہ حج کے مزاج کے خلاف ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ اتنی سختی نہ کرو۔ ’’لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم‘‘ حج پر اسی تجارت کے مقصد کے لیے نہ جاؤ، لیکن اگر کہیں کوئی اچھا سودا مل رہا ہو تو خرید و فروخت کر سکتے ہو۔ خرید و فروخت کی اجازت دے دی اور جاہلیت کے زمانے میں جو ممانعت سمجھی جاتی تھی اس کو ختم کر دیا۔
۱۱۔ حج کے نظام میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہویں اصلاح کی کہ عرفات میں زوال سے پہلے پہنچنا ہوتا ہے اور غروب کے بعد وہاں سے نکلنا ہوتا ہے۔ غروب سے پہلے عرفات سے نہیں نکل سکتے۔ اسی طرح رات مزدلفہ میں گزار کر دس ذی الحجۃ کو صبح سورج نکلنے سے پہلے منیٰ روانہ ہوتے ہیں۔ اس میں افراط و تفریط تھی۔ لوگ عصر کے وقت سے عرفات سے نکل آتے تھے اور صبح اشراق اور چاشت کے وقت تک مزدلفہ میں پڑے رہتے تھے۔ نبی کریمؐ نے وقت متعین فرما دیا کہ عرفات سے غروب سے پہلے نہیں نکلو گے اور مزدلفہ میں طلوع کے بعد نہیں ٹھہرو گے۔
یہ وہ چند اصلاحات ہیں جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں فرمائیں اور حج کا پورا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔ جاہلیت کی ساری رسمیں ختم کیں، اس کے مناسک اور حدود طے کیں اور حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا: ’’خذوا عنی مناسککم‘‘ اور ہوا بھی ایسے کہ حجۃ الوداع پر منیٰ، عرفات، مزدلفہ میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ لوگوں کا پہلا حج تھا۔ لوگ آتے اور پوچھتے یا رسول اللہ! یہ غلطی ہو گئی ہے، یہ غلطی ہو گئی ہے۔ آپ فرماتے ’’لاحرج‘‘۔ پورے حج کا نقشہ اور ڈھانچہ تشکیل پا گیا۔
حجۃ الوداع کے حوالے سے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ حجۃ الوداع تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ حج الوداعی سمجھ کر ہی کیا تھا کہ ’’لعلی لا القاکم بعد عامی ھذا‘‘ اس میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی پالیسی اعلانات کیے اور احکامات ارشاد فرمائے وہ بیسیوں ہیں۔ انہیں خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حجۃ الوداع کا خطبہ ایک نہیں عرفات کا خطبہ الگ ہے، منیٰ کا خطبہ الگ ہے، بلکہ منیٰ کے دو تین خطبے ہیں۔ مسجد حرام میں بھی ایک خطبہ دیا تھا وہ الگ ہے۔ اس پر تین چار بزرگوں نے کام کیا ہے۔ ویسے روایات میں تو سینکڑوں جملے ہیں مختلف صحابہؓ نقل فرماتے ہیں کہ آپؐ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا۔ لیکن تمام خطبات کا مجموعہ ایک خطبے کی شکل میں اس پر شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ نے اور ڈاکٹر حمید اللہ صاحبؒ نے کام کیا ہے۔
اگر ہم آج کے انسانی حقوق کے چارٹر کو اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے خطبے کو سامنے رکھیں تو آج کے انسانیت اور سماج کے اور سوسائٹی کے جو مسائل ہیں میں سمجھتا ہوں کہ آپؐ نے زیادہ جامعیت کے ساتھ ان مسائل کا احاطہ کیا تھا۔ قوموں کے اور نسلوں کے آپس میں تعلقات کیا ہوں گے، قانون کی بالادستی کیا ہوگی، انسانی سوسائٹی کے جو مسائل ہیں، سماج کی جو ضروریات ہیں ان پر بہت جامع خطبہ ہے۔ اور عرفات کا خطبہ بھی پہلے نہیں ہوتا تھا یہ بھی حضورؐ ہی کی سنت ہے، جو آج تک جاری ہے۔ اس کو بھی اصلاحات میں شمار کریں گے۔ یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں تبدیلیاں کیں اور حج کو مسلمانوں کی خاص عبادت کے طور پر متعارف کروایا۔ اللہ تعالیٰ سب کو حرم مکہ اور حرم مدینہ کی حاضری کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔