اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والے

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۲۰۱۰ء ، ۲۰۱۱ ، ۲۰۱۲

(مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ۲۰۱۰ء/۲۰۱۱ء/۲۰۱۲ء کے دوران بعد از نمازِ فجر سورۃ الاعراف کی آیات ۳۵ تا ۳۷ کا درس)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ولکل امۃ اجل‘‘ (الاعراف ۳۴) ہر امت کی ایک میعاد ہے، اپنا وقت گزارنا ہے، اور اپنا وقت گزار کر ہر قوم نے ہر طبقے نے ہر گروہ نے ہر شخص نے چلے جانا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہاں تو یہ فرمایا کر ہر شخص، گروہ، امت ہر ایک نے چلے جانا ہے، اپنے وقت پر۔ جب اس کا وقت آئے گا تو وقت میں آگا پیچھا نہیں ہو گا، نہ ایک گھڑی پہلے، نہ ایک گھڑی بعد۔ پھر کیا ہو گا؟ فرمایا کہ جو لوگ مومن ہیں، تقوے والے ہیں، اللہ کے رسولوں کو ماننے والے ہیں، اللہ کے احکام پر چلنے والے ہیں، ان کے لیے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، ان کو تو کوئی الجھن نہیں ہو گی، ان کی آنے والی زندگی اِس زندگی سے بہتر ہو گی۔ اور جنہوں نے اللہ کے احکام کو جھٹلا دیا، اللہ کے رسولوں کی بات نہیں مانی، وہ عذاب میں ہوں گے۔ یہ مرحلہ ہو گا قوموں کے فیصلے کا کہ کس نے کدھر جانا ہے۔ فرمایا، ’’یا بنی آدم‘‘ اے آدم کی اولاد، (علیہ الصلوٰۃ والسلام)، اے انسانو، اے بنی آدم۔

اللہ پاک نے پہلے دن ہی یہ کہا تھا ’’اما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ (البقرۃ ۳۸) میری طرف سے تمہارے پاس ہدایات آئیں گی، جس نے ہدایات کی پیروی کی، وہ خوف اور غم سے نجات پائے گا، اور جس نے میری آیات کو جھٹلا دیا، وہ جہنم میں جائے گا۔ جو بات پہلے دن کہی تھی، وہی بات اللہ پاک یہاں دہرا رہے ہیں کہ ہم نے کہا اے آدم کی اولاد، ’’اما یاتینکم رسل منکم‘‘ (الاعراف ۳۵) تمہارے پاس رسول آئیں گے، ہمارے نمائندے آئیں گے، تمہیں میں سے ہوں گے، ہم تم میں سے لوگوں کو منتخب کر کے تمہارے پاس رسول بنا کر بھیجیں گے۔ یہ ’’رسل منکم‘‘ تم میں سے رسول ہونا، یہی بات شروع سے قوموں کے ذہنوں میں اٹکی رہی ہے۔ ’’وبشر یھدوننا‘‘ (التغابن ۶) کیا انسان ہماری رہنمائی کریں گے؟ ہماری طرح کھاتے پیتے لوگ ہیں اور کہتے ہیں ہم نبی ہیں۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں بار بار قوموں کے اس اعتراض کا ذکر کیا ہے۔ نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی کہا تھا، ہود علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی کہا تھا، موسیٰ علیہ السلام کے فرعون نے یہی کہا تھا، تمام قوموں نے کم و بیش اپنے پیغمبروں سے یہی کہا کہ ہمارے درمیان پیدا ہوئے اور ہمارے درمیان جوان ہوئے اور ہمارے درمیان زندگی گزاری ہے اور ہماری طرح کھاتے پیتے ہو اور شادیاں کرتے ہیں اور کہتے ہو کہ ہم پیغمبر ہیں۔

اللہ پاک نے فرمایا کہ رسول تم میں سے ہی ہوں گے ’’یاتینکم رسل منکم‘‘۔ اس کی حکمت بیان فرمائی کہ تمہاری رہنمائی کے لیے آنے ہیں تو تم میں سے ہونے چاہئیں۔ فرمایا ’’لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملک الرسولا‘‘ (بنی اسرائیل ۹۵) سادہ سا جواب دیا، اگر زمین پر فرشتے بس رہے ہوتے تو فرشتے کو رسول بنا دیتے، کیونکہ تم (انسان) بس رہے ہو، تو فطری بات ہے کہ رسول بھی تم میں سے ہوں گے تو رہنمائی کر سکیں گے ورنہ نہیں کر سکیں گے۔

’’یقصون علیکم آیاتی‘‘ (الاعراف ۳۵) وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہیں گے میرے احکام پہنچائیں گے تمہیں۔ میری وحی سنائیں گے میری آیات سنائیں گے میرے احکام بتائیں گے تمہیں۔ وہ معیار ہیں، جس نے ان کی پیروی کی، تقویٰ اختیار کیا، اصلاح اختیار کی ’’فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ (الاعراف ۳۵) وہ لوگ خوف اور غم سے نجات پائیں گے۔ لیکن دوسری طرف ’’والذین کذبوا باٰیاتنا‘‘ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ’’واستکبروا عنھا‘‘ تکبر کیا۔ انکار تکبر سے ہی ہوتا ہے۔ انسان کسی بات کو حقیر سمجھے تو انکار کرتا ہے۔ ہماری آیات کو قبول کرنے سے انکار کیا، تکبر کیا، ’’اولئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون‘‘ (الاعراف ۳۶) وہ دوزخ میں جائیں گے، دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔

پھر یہ بات فرمائی کہ دیکھو، مشرکینِ عرب، مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ جو کہتے ہیں کہ یہ قرآن ہے، اللہ کی وحی ہے، نہیں، انہوں نے خود گھڑ لی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ دیکھو، دونوں باتیں ہیں: کوئی آدمی اپنی طرف سے بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے تو اس سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں۔ اور کوئی آدمی اللہ کی آیات کو، یہ سمجھ کر بھی اللہ کی طرف سے ہیں، انکار کرتا ہے تو اس سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں۔ نبوت اور وحی کا جھوٹا دعویدار بھی ظالم ہے، اور اللہ کے پیغمبر کو پہچان کر انکار کرنے والا بھی بڑا ظالم ہے۔ یہ دونوں طرف بات چلتی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بات کہتے ہیں، تمہیں معلوم ہے کہ نہ یہ شاعری ہے، نہ یہ کہانت ہے، نہ یہ جھوٹ ہے، تم خود سچا مانتے ہو، تم اس بات کا اعتراف کرتے ہو کہ آدمی سچا ہے، پھر الزام لگاتے ہو کہ گھڑا ہے انہوں نے۔ تمہارے اعتراف کے مطابق اگر باقی زندگی میں کوئی جھوٹ نہیں ہے، تو یہاں کیسے کہتے ہو؟

حضورؐ نے پہلی بات تو یہی کہی تھی لوگوں سے کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے بھئی؟ سچا ہوں کہ جھوٹا ہوں؟ سب نے گواہی کیا دی تھی؟ آپ کی زندگی میں ہم نے کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔ فرمایا یہ ماننے کے بعد بھی اگر تم میری بات نہیں مانتے تو تم سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ یہ دونوں طرف بات لگتی ہے کہ کوئی آدمی اللہ کی طرف غلط بات کی نسبت کرتا ہے، اپنی طرف سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کرتا ہے، وہ بھی ’’اظلم‘‘ ہے، سب سے بڑا ظالم ہے۔ اور جو آدمی سچ پہچان کر جان بوجھ کر انکار کرتا ہے، اس سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں۔ ’’فمن اظلم ممن افتریٰ علی اللہ کذبا‘‘ بہت بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا، جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا، جھوٹی وحی کا دعویٰ کیا، بہت ظالم ہے وہ۔ لیکن ’’او کذب باٰیاتہ‘‘ جس نے جان بوجھ کر پہچان کر بھی اللہ کی آیات کا انکار کیا اس سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں۔

’’اولئک ینالھم نصیبھم من الکتاب‘‘ کتاب میں ان کا جو حصہ ہے وہ ان کو پہنچے گا۔ کتاب سے کیا مراد ہے؟ ’’الکتاب‘‘ قرآن پاک کو بھی کہتے ہیں: قرآن پاک میں ایسے لوگوں کے لیے جو سزا بیان کی گئی ہے وہ ان کو ملے گی۔ اور کتاب سے مراد لوحِ محفوظ بھی ہے: وہاں جو کچھ اللہ پاک نے طے کر رکھا ہے وہ ان کو مل کر رہے گا۔ اللہ پاک نے ان کے لیے جو فیصلے کر رکھے ہیں، لوحِ محفوظ میں درج ہیں کہ، یہ یہ انہوں نے کرنا ہے اور یہ یہ ان کے ساتھ ہونا ہے، فرمایا وہ ملے گا۔

فرمایا، زندگی کفر پر گزارتے ہیں، ہاں لیکن موت کے وقت ہر آدمی کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بات کیا تھی۔ فرعون کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ اصل بات کیا ہے۔ فرمایا، ان کا حال یہ ہے ’’حتیٰ اذا جاءتھم رسلنا یتوفونھم‘‘۔ ہمارے فرشتے آتے ہیں وفات کے وقت، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ موت کے وقت جب فرشتے نظر آتے ہیں، تو ان فرشتوں کی کیفیت سے انسان کو پتہ چل جاتا ہے کہ میں نے کدھر جانا ہے۔ یہ گرفتاری کے فرشتے ہیں یا پروٹوکول کے فرشتے ہیں۔ یہ استقبال کرنے آئے ہیں یا پکڑنے آئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں پھول ہیں یا ہتھکڑیاں ہیں۔ اس لیے پھر اس کے بعد پھر ایمان قبول نہیں ہے۔ نزع کی حالت میں جب فرشتے نظر آجاتے ہیں تو اس کے بعد نہ توبہ قبول ہے نہ ایمان قبول ہے۔ جب پتہ چل گیا ہے کہ کیا ہونا ہے تو اب توبہ کا کیا مطلب ہے، اب ایمان کا کیا مطلب؟ فرعون چیختا چلاتا رہا ’’امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوا اسرائیل‘‘ (یونس ۹۰) فرمایا، اب کوئی نہیں، وہ وقت گزر گیا، اس کا وقت نہیں ہے اب۔

فرمایا، فرشتے آتے ہیں ان کو وفات دینے کے لیے، ان کی روح قبض کرنے کے لیے، ان کو وصول کرنے کے لیے، تو فرشتے کہتے ہیں ہاں بھئی! ہم آ گئے ہیں، وہ جن کو سجدے کرتے رہے ہو بلاؤ نا ان کو اب، ’’این ما کنتم تدعون من دون اللہ‘‘ اللہ کے ورے جن کو پکارتے رہے ہو، جن کی عبادت کرتے رہے ہو، جن کو سجدے کرتے رہے ہو، جن کی منتیں مانتے رہے ہو، اب بلاؤ ان کو۔ موت کے فرشتے روح قبض کرنے سے پہلے … بلاؤ اپنے مددگار، کہاں ہیں تمہارے ساتھی، کہاں ہیں تمہارے شریک؟ اس وقت حسرت سے کہیں گے ’’ضلوا عنا‘‘ وہ تو پتہ نہیں کدھر گم ہو گئے۔ اور اس وقت گواہی دے کر مریں گے ’’شھدوا علیٰ انفسھم‘‘ (الاعراف ۳۷) اپنے اپنے نفس پر گواہی دے کر جاتا ہے کہ ’’انھم کانوا کافرین‘‘ (الاعراف ۳۷) زیادتی ہماری تھی، ظالم ہم تھے، ہم نے کفر اختیار کیا، ہم نے انکار کا راستہ اختیار کیا۔ فرمایا ’’وشھدوا علیٰ انفسھم‘‘ اپنے نفسوں پر گواہی دیں گے ’’انھم کانوا کافرین‘‘ کہ بے شک وہی کافر تھے، وہی انکار کرنے والے تھے، وہی ظالم تھے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے انبیاء کرام الصلوات والتسلیمات کو اس لیے بھیجا ہے تم ان کی بات سنو، ان کی بات مانو، ان کی پیروی کرو، تقویٰ اختیار کرو، یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے، اللہ رسول کے احکام کے مطابق گزرے گی تو یہ کامیاب ہے، اور اگر اللہ رسول کے احکام کے خلاف گزرے گی، تو آنکھ بند ہوتے ہی ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، سزاؤں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، اللہ پاک معاف فرمائے۔ (آمین)

2016ء سے
Flag Counter