گزشتہ جمعۃ المبارک کو برادرِ عزیز مولانا حافظ عبد القدوس خان قارنؒ اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک عرصہ سے بیمار تھے مگر معمولات مسلسل جاری رہے، جمعرات کو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حسبِ معمول اسباق پڑھائے اور جمعۃ المبارک کو صبح نمازِ فجر پڑھائی۔ جمعہ سے قبل خطبۂ جمعہ کی تیاری کر رہے تھے، غسل کیا اور کپڑے پہنے، اسی دوران اجل کا بلاوا آ گیا، حرکتِ قلب بند ہوئی اور وہ اپنے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہو گئے۔ مجھے مرکزی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد اس سانحہ کی اطلاع ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب نے دی، فوری ان کے گھر حاضر ہوا تو وہ سوگوارانِ خاندان کے حصار میں ایسے گھرے ہوئے تھے کہ چہرے پر بلا کا سکون تھا، یوں جیسے آرام سے سو رہے ہوں، ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کلمہ طیبہ اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، بیٹوں سے تعزیت کی اور ہم ان کی تجہیز و تکفین کے انتظامات کے مشورہ میں مصروف ہو گئے۔
ان کا سنِ ولادت ۱۹۵۲ء ہے، اس لحاظ سے انہوں نے تہتر سال کی عمر پائی ہے اور وہ ساری عمر پڑھنے پڑھانے اور درس و تدریس میں مصروف رہے۔ حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور عمِ مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمہما اللہ تعالیٰ کے خصوصی تلامذہ اور تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی و تدریسی اور تصنیفی معاملات میں ان کے معاون بھی تھے، اعلیٰ پائے کے مدرس تھے، معقولات و منقولات دونوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے، ابتدا سے دورہ حدیث تک ہر درجہ کی کتابیں پڑھائیں، تفہیم کا ذوق بہت عمدہ تھا، شاگردوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے اور بے تکلف گفتگو کا مزاج تھا جس سے ان کے شاگرد بہت محظوظ ہوتے تھے۔
میں نے فراغت کے بعد کم و بیش بیس سال تک مدرسہ انوار العلوم میں تدریس کے فرائض انجام دیے جبکہ قارن صاحبؒ ابتدا سے ہی جامعہ نصرۃ العلوم میں تدریس سے وابستہ ہو گئے اور کم و بیش نصف صدی کے لگ بھگ مسلسل تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ ایک عرصہ تک جامعہ نصرۃ العلوم کے ناظم بھی رہے۔ حضرت والد محترم اور عمِ مکرم رحمہما اللہ تعالیٰ جب زیادہ بیماری اور معذوری کے دور میں داخل ہوئے تو ان کے حکم پر میں نے بھی جامعہ نصرۃ العلوم میں تدریسی خدمات سنبھال لیں جو بحمد اللہ تعالیٰ اب تک جاری ہیں۔ بزرگوں کی وفات کے بعد دورۂ حدیث میں بخاری شریف ہم دونوں بھائیوں کے سپرد چلی آ رہی ہے، اس ترتیب کے ساتھ کہ ایک سال بخاری اول میرے پاس اور دوم ان کے پاس ہوتی تھی، جبکہ دوسرے سال اول ان کے پاس اور دوم میرے پاس ہوتی تھی۔ اس سال بھی اسی ترتیب سے اول ان کے پاس اور ثانی میرے پاس رہی، مگر وہ اپنے وقت پر بارگاہِ ایزدگی میں پیش ہو گئے اور اساتذہ کے مشورہ سے بخاری اول جامعہ نصرۃ العلوم کے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی کے سپرد کر دی گئی ہے، جو اس سے قبل ترمذی شریف اول پڑھاتے چلے آ رہے تھے۔
تدریس میں ان دونوں کا ذوق فقہی مباحث کا ہے، دونوں حضرت والد محترم رحمہ اللہ کی طرز پر فقہاء کے اختلافات پر محدثانہ بحث کرتے ہیں اور بزرگوں کی روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ مگر میرا مزاج مختلف ہے، اس لیے بخاری شریف کے سبق کے آغاز میں طلبہ سے عرض کر دیا کرتا ہوں کہ میرے ہاں آپ کو سبق میں صرف تین چیزیں ملیں گی: حدیث کا مفہوم و ترجمہ کیا ہے، ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کا تعلق کیا ہے، اور آج کے عصری ماحول میں یہ حدیث ہماری کیا راہنمائی کرتی ہے؟ فقہی مباحث آپ کو قارن صاحب اور فیاض صاحب کے ہاں ملیں گے اور میں تھوڑی بہت یہ خدمت طحاوی شریف میں کرتا رہوں گا، وہ بھی ایک عرصہ سے میرے زیر تدریس چلی آ رہی ہے۔
قارن صاحبؒ اول درجہ کے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین خطیب بھی تھے اور پیپلز کالونی گوجرانوالہ کی جامع مسجد تقویٰ میں گزشتہ کم و بیش پینتیس سال سے جمعہ کی خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ گزشتہ جمعہ کو بھی وہیں خطبہ جمعہ کے لیے جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ وقت آگیا اور وہ خاموشی کے ساتھ اس دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔ عشاء کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جو اُن کے بڑے فرزند اور پاکستان شریعت کونسل ضلع گوجرانوالہ کے امیر مولانا حافظ نصر الدین خان عمر نے پڑھائی اور ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام، دینی کارکنوں اور شہریوں نے اس میں شرکت کی۔ اس کے بعد انہیں قبرستان کلاں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ ان کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، اور ان کے خاندان کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی روایات قائم رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔