بعد الحمد والصلوٰۃ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی ہجرت ہماری تاریخ کا نہایت اہم واقعہ ہے اور اس پر امت کی اجتماعی زندگی کے کئی مسائل کا مدار ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی تاریخ کا آغاز ہجرتِ نبوی سے قرار دیا، اسی وجہ سے ہمارا سن ہجری چل رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی اصل قومی و اجتماعی تاریخ ہجرتِ مدینہ سے شروع ہوئی۔
مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں نے تیرہ برس تک سخت مظالم برداشت کیے جو صبر و استقامت کی ایک الگ تاریخ ہے۔ ان دوران بعض صحابہ کرامؓ پہلے ہی حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ اور آزادی کا ماحول میسر آ سکے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے مختلف قبائل سے مذاکرات کیے۔ طائف تشریف لے گئے مگر انہوں نے پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ بنو عامر جیسے طاقتور قبیلے سے بات ہوئی مگر انہوں نے شرط رکھی کہ آپ کے بعد قیادت ان کے پاس ہوگی، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ سربراہی اللہ کے حکم سے طے ہوگی۔
اسی دوران یثرب کے قبائل اوس و خزرج سے تعلقات قائم ہوئے۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور بیعتِ عقبہ ثانیہ کے ماحول میں دو تین سال خفیہ ملاقاتیں اور مذاکرات چلتے رہے۔ ان مذاکرات میں حضرت عباس بھی شریک ہوتے، گو کلمہ انہوں نے بہت بعد میں پڑھا ہے۔ انہوں نے ان قبائل کو خبردار کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کا مطلب پورے عرب سے دشمنی مول لینا ہے، مگر انصار نے عزم ظاہر کیا کہ وہ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے۔ چنانچہ اس ماحول اور محنت کے نتیجے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
تاریخی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند مہاجرین مدینہ پہنچے اور فوراً ہی حکومت قائم ہو گئی حالانکہ وہ پناہ گزین تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب پہلے سے طے شدہ منصوبہ اور مسلسل تیاری کا نتیجہ تھا۔ اوس و خزرج کے ساتھ باقاعدہ معاہدات ہوئے، یہودی قبائل کو بھی اعتماد میں لیا گیا اور ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے ذریعے سب کو ایک نظام میں شامل کیا گیا اور اس طرح مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ مدینہ میں آنے سے پہلے عبد اللہ بن ابی کو حکمران بنانے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور صرف اس کی تاج پوشی باقی تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد نے یہ نظام بدل دیا اور مدینہ کا اقتدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آ گیا۔ چنانچہ عبد اللہ بن ابی ساری زندگی اسی بات کا غصہ نکالتا رہا۔
ہجرت کا اصل مقصد صرف پناہ لینا نہیں تھا بلکہ اسلام کو بطور ایک مکمل نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ مدینہ پہنچتے ہی ریاست قائم ہوئی، معاہدات طے پائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں دس برس کے دوران پورا جزیرۂ عرب اسلام کے زیر اثر آ گیا، پھر عہدِ خلافت میں یہ ریاست تینوں براعظموں تک پھیل چکی تھی۔ یوں ہجرت کا سب سے بڑا نتیجہ ریاستِ مدینہ کا قیام تھا، جو اچانک نہیں ہوا بلکہ مسلسل حکمتِ عملی، محنت اور تیاری کا ثمرہ تھا۔ اللہ ہمیں بھی ان مقاصد کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔