بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرۂ مبارکہ تو ہماری زندگی کے ہر سانس کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نسلِ انسانی کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ اسوۂ حسنہ، نمونہ، آئیڈیل۔ آئیڈیل تو پھر ہر وقت سامنے رہتا ہے۔ اسوۂ حسنہ کا معنیٰ یہ ہے کہ جو کام زندگی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر کے حضورؐ کی یاد ذہن میں تازہ کر کے کریں گے وہ صحیح ہو گا اور جو کام حضورؐ کو یاد کیے بغیر کریں گے اس کے صحیح ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
اس لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اور حضورؐ کی یاد تو زندگی کی ہر سانس کے ساتھ ہے۔ صبح، شام، دن، رات۔ اور ہوتا بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہر وقت دنیا میں ہوتا رہتا ہے۔ کوئی ایک دن بھی شاید سال کا ایسا نہ ہو جس میں کروڑوں لوگوں نے حضورؐ کا نام نہ لیا ہو، حضورؐ کو یاد نہ کیا ہو، درود شریف نہ پڑھا ہو۔ عملاً بھی ہوتا رہتا ہے۔
لیکن ربیع الاول میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے تذکرہ زیادہ ہوتا ہے۔ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ تذکرہ عام دنوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ تو اس حوالے سے ربیع الاول کے دوران ہمارے ’’الحسنات‘‘ کے دوستوں نے یہ ترتیب رکھی ہے کہ جمعے کے دن عصر کی نماز کے بعد مختصر نشست میں ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کر کے اپنے ایمان کو تازہ کریں گے، محبت کو تازہ کریں گے، عقیدت کو تازہ کریں گے، رحمتوں اور برکتوں کا ماحول پیدا کریں گے، اور اللہ کی رضا کے مستحق ہوں گے۔ اللہ پاک ہمیں یہ نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج کی گفتگو کے لیے عنوان انہوں نے رکھا ہے ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی اصلاحات‘‘۔ لیکن یہ آج کی نشست نہیں، ربیع الاول کی پوری نشستوں کا موضوع یہی ہو گا۔ کیونکہ یہ مختصر بات نہیں ہے، تھوڑی سی تفصیل کرنی پڑے گی۔ تو یہ جو ربیع الاول کی چار نشستیں ہوں گی، چاروں میں ان شاء اللہ العزیز رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی اصلاحات کے حوالے سے بات ہو گی۔
آج یہ عرض کروں گا کہ معیشت کیا ہے؟ زندگی کے اسباب مہیا کرنا۔ زندگی کے اسباب حاصل کرنا، خرچ کرنا اور ان سے استفادہ کرنا۔ انسانی زندگی کا حساب کتاب مال اور اسباب سے ہے۔ اسباب اور مال کے بغیر انسان کی زندگی نہیں گزرتی۔ قرآن پاک نے بھی اس کو فرمایا ہے۔ ’’ولا تؤتوا السفہآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما‘‘ (النساء ۵) یہ مال اور دولت جو ہے نا، یہ تمہارے لیے قیام ہے۔ یعنی زندگی کا ذریعہ ہے، زندگی کے اسباب ہیں۔ اور یہ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ جس قدر اسباب زیادہ ہوں زندگی اچھی گزرتی ہے۔ اسباب کم ہوں زندگی تنگ گزرتی ہے۔ یہ تو قرآن پاک؛ معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی معیشت، لین دین، تجارت، معاملات، زراعت، کھیتی باڑی، کاروبار، اس کے بارے میں آسمانی ہدایات آتی رہی ہیں۔ اللہ کے ہر پیغمبر نے جہاں زندگی کے دوسرے معاملات میں رہنمائی کی ہے، معیشت میں بھی رہنمائی کی ہے۔ میں دو حوالے دینا چاہوں گا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے، جن کا قرآن پاک نے ذکر کیا ہے۔
ایک تو اللہ کے پیغمبر ہیں حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خسر بزرگوار، اور معاصر بھی ہیں، وہی زمانہ تھا۔ مدین کی طرف۔ مدین اس وقت اسرائیل کی ایک بندرگاہ ہے۔ مدین کے علاقے میں آئے تھے۔ ان کا قوم کے نام ایجنڈا اور دعوت کیا تھی؟ پہلی تو وہی ’’اعبدوا اللہ ما لکم من الٰہ غیرہ‘‘ اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو۔ اللہ کی عبادت، توحید۔ ’’فاتقوا اللہ واطیعون‘‘ (الشعراء ۱۴۴) ہر پیغمبر کی یہی دعوت رہی ہے: اللہ سے ڈرو، میری اطاعت کرو۔ اللہ کے سامنے جھکو، میری پیروی کرو۔ شعیب علیہ السلام کی بنیادی دعوت تو، جیسے ہر پیغمبر کی تھی، یہی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ماحول کے مطابق شعیب علیہ السلام کا ایجنڈا کیا تھا؟
اوفوا الکیل ولا تکونوا من المخسرین۔ وزنوا بالقسطاس المستقیم۔ ولا تبخسوا الناس اشیآءھم ولا تعثوا فی الارض مفسدین۔ (الشعراء ۱۸۱ تا ۱۸۴)
ماپ تول صحیح کرو بھئی، ماپ تول میں کمی نہیں کرو، ایک۔ ’’ولا تبخسوا الناس اشیآءھم‘‘ چیزوں کا معیار کم نہیں کرو۔ آج کی زبان میں، دو نمبر مال نہیں بیچو۔ ترازو صحیح رکھو، پیمانہ صحیح رکھو، دو نمبر مال نہیں بیچو۔ ’’ولا تعثوا فی الارض مفسدین‘‘ زمین میں فساد نہیں پھیلاؤ۔ یہ شعیب علیہ السلام نے؛ توحید اور خدا کی بندگی کے بعد دوسرا بڑا ایجنڈا قوم کے لیے کیا تھا؟ معیشت کی اصلاح۔ تجارت کی اصلاح۔ دیانت پیدا کرو۔
دو باتیں فرمائیں: پہلی بات ’’اوفوا الکیل ولاتکونوا من المخسرین‘‘ ماپ تول پورا کرو، کمی نہیں کرو، ڈنڈی نہیں مارو۔ اور دوسرا ’’ولا تبخسوا الناس اشیآءھم‘‘ چیزوں کا معیار خراب نہیں کرو۔ آج کی زبان میں کیا کہیں گے؟ دو نمبر مال نہیں بیچو۔ ’’ولا تعثوا فی الارض مفسدین‘‘ یہ زمین میں فساد کا ذریعہ بنتا ہے۔ معاشرے میں فساد پیدا نہیں کرو۔
یہ حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قوم کو اللہ کے حکم سے دعوت دی۔ اور ایجنڈا کیا تھا؟ معیشت کی اصلاح۔ معیشت خراب ہو تو معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ معیشت صحیح ہو تو نظام صحیح رہتا ہے۔ معیشت میں گڑبڑ کریں تو معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ یہ حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایجنڈا تھا۔
اسی زمانے میں؛ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ وہی ہے۔ قرآن پاک نے بہت تفصیل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک کا ذکر کروں گا۔ ’’ان قارون کان من قوم موسیٰ فبغیٰ علیھم‘‘۔ قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا اور باغی ہو کر فرعون کے ساتھ مل گیا تھا۔ ہوتے ہیں، ہر علاقے میں، ہر زمانے میں، ہر قوم میں غدار ہوتے ہیں۔ ہے بنی اسرائیل میں سے اور ساتھی کس کا ہے؟ فرعون کا۔ یہ ہر زمانے میں ایسا ہوتا ہے۔ قارون کا تذکرہ قرآن پاک نے کیا ہے، کس حوالے سے، کہ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا سرمایہ دار تھا۔
ان قارون کان من قوم موسیٰ فبغیٰ علیھم واٰتیناہ من الکنوز مآ ان مفاتحہٗ لتنوء بالعصبۃ اولی القوۃ اذ قال لہٗ قومہٗ لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین (القصص ۷۶)
قارون کے خزانوں کی صورت یہ تھی کہ اس کے خزانوں کی چابیاں اٹھاتے ہوئے بھی نوجوانوں کا مضبوط گروہ تھک جایا کرتا تھا۔ خزانے تو خزانے ہیں۔ قرآن پاک کہتا ہے ’’ان مفاتحہ لتنوء بالعصبۃ اولی القوۃ‘‘ مضبوط نوجوان خزانوں کی چابیاں اٹھاتے ہوئے بھی تھک جایا کرتے تھے۔ لیکن اس کا مکالمہ قوم کے ساتھ، وہ پڑھنے کا ہے۔ قوم کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ قوم کی بات اللہ پاک نے بیان کی ہے۔ جو اللہ پاک نے قارون کو قوم کے ذریعے، بنی اسرائیل کے ذریعے، مال، اسباب، معیشت کی SOPs بیان کی ہیں۔ وہ عرض کرتا ہوں۔
’’اذ قال لہ قومہ لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین‘‘ قوم نے قارون سے کہا جناب ٹھیک ہے آپ کے پاس پیسے ہیں، اکڑو نہیں، اِتراؤ نہیں، اپنے مال پہ فخر نہیں کرو، اللہ کی دین ہے۔ پہلی بات بنی اسرائیل قوم نے قارون سے کیا کہی؟ ’’لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین‘‘ اپنے مال پہ اترانا، میرے پاس یہ ہے، میرے پاس یہ ہے، یہ نہیں کرو، اللہ پاک کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ یہ پہلی بات۔ دوسری بات:
وابتغ فیمآ اٰتاک اللہ الدار الاٰخرۃ ولا تنس نصیبک من الدنیا واحسن کمآ احسن اللہ الیک ولا تبغ الفساد فی الارض ان اللہ لا یحب المفسدین (القصص ۷۷)
’’وابتغ فیما اتاک اللہ الدارۃ الاٰخرۃ‘‘ یہ مال صرف دنیا کے لیے نہیں آخرت کے لیے بھی ہے۔ یہ مال صرف دنیا میں خرچ کرنے کے لیے نہیں ہے، آخرت کی تیاری بھی اسی مال سے کرنی ہے۔ اپنے مال کے ساتھ دارِ آخرت کی کامیابی تلاش کرو۔ گویا اس مال کو دنیا کی ضروریات کے لیے بھی استعمال کرو، اور آخرت کی تیاری کے لیے بھی یہی مال کام آئے گا۔ یہ دوسری بات۔
اور فرمایا ’’ولا تنس نصیبک من الدنیا‘‘ دنیا کا حصہ بھی بھولو نہیں، دنیا کا بھی حصہ ہے۔ قرآن پاک نے تو ہمیں تعلیم ہی یہ دی ’’ربنآ اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ (البقرۃ ۲۰۱) دین کے لیے دنیا کی نفی نہیں، دنیا کے لیے دین کی نفی نہیں۔ دنیا کے لیے آخرت کی نفی نہیں، اور آخرت کے لیے دنیا کی نفی نہیں۔ دنیا کا اپنا مقام ہے، آخرت کا اپنا مقام ہے، دونوں میں ’’حسنۃ‘‘ چاہیے ہمیں۔ ہمیں تعلیم کیا دی ہے؟ ’’ربنآ اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘۔ یہ سب سے مختصر، سب سے جامع دعا ہے۔
اور موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی جب اللہ پاک سے درخواست کی تھی، ایک درخواست قرآن پاک میں ہے ’’واکتب لنا فی ھٰذہ الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ انا ھدنا الیک‘‘ (الاعراف ۱۵۶) موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے یہی کہا، یا اللہ! ہمارے لیے لکھ دے، دنیا میں بھی حسنۃ لکھ دے، آخرت میں بھی لکھ دے (ویڈیو کا کچھ حصہ غائب ہے)
اور اس کی ایک جھلک صرف، کہ محروم کسے کہتے ہیں۔ سائل تو اپنی ضرورت بیان کر دیتا ہے نا جی۔ محروم بیچارہ اندر اندر کڑھتا رہتا ہے۔ اس محروم کو آج کل کیا کہا جاتا ہے؟ ’’سفید پوش‘‘۔ ’’چٹ کپڑیا‘‘۔ اور انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟ ’’وائیٹ کالر‘‘۔ ظاہری حالت بالکل ٹھیک ٹھاک ہے، اندر کا حال وہ جانتا ہے یا خدا جانتا ہے، اندر کیا ہو رہا ہے غریب کے ساتھ۔ اس کا حق۔ اس پر بیسیوں روایات میں سے ایک روایت عرض کرتا ہوں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’لا یؤمن احدکم من بات شبعان وجارہ جائع الیٰ جنبہ وھو يعلم بہ‘‘ فرمایا وہ آدمی مومن نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کے رات گزاری اس نے، پڑوسی پڑوس میں بھوکا سویا ہے، اور اِس کو پتہ ہے اُس کا۔ شرم کے مارے مانگا نہیں اس نے، بھوکے رات گزار دی ہے۔ اِس کو پتہ ہے کہ میرے پڑوس کا حال کیا ہے۔ تو یہ اللہ پاک نے اس کو کیا قرار دیا؟
بنی اسرائیل نے قارون کو کیا کہا؟ ’’احسن کما احسن اللہ الیک‘‘۔ یہ مال اللہ کا احسان ہے۔ کسی نے گارنٹی سے لیا ہے؟ یا کسی کو اپنی طلب میں ملتا ہے؟ اُس کی تقسیم ہے۔ ’’واللہ فضل بعضکم علیٰ بعض فی الرزق‘‘ (النحل ۷۱) یہ رزق کی درجہ بندی، وہ کہتا ہے میری مرضی ہے، جس کو کم دوں، جس کو زیادہ دوں۔ تمہیں چیک کرنے کے لیے کہ جن کو دیا ہے وہ نا رکھنے والوں کو دیتے ہیں کہ نہیں دیتے، ان کا حق ادا کرتے ہیں کہ نہیں کرتے۔ چار۔
پانچویں بات، قارون سے قوم کی بات نقل کر رہا ہوں میں۔ ’’ولا تبغ الفساد فی الارض‘‘۔ تمہاری دولت معاشرے میں خرابی اور فساد کا باعث نہیں بننی چاہیے۔ تمہاری دولت کی وجہ سے معاشرے میں خرابی نہیں آنی چاہیے، فساد نہیں آنا چاہیے۔ تم دولت کی نمائش کرو گے، غریب لوگ تنگ ہوں گے۔ چھوٹی سی ایک، ہلکی سی مثال۔ بڑا لمبا موضوع ہے یہ، میں تو خلاصہ کر رہا ہوں۔ تمہاری دولت دوسروں کے لیے فساد کا باعث کیسے بنتی ہے، اس کی ایک ہلکی سی جھلک۔
حدیثِ رسولؐ ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ تمہیں گھر میں اللہ پاک نے توفیق دی، پھل ول لائے ہو، بچوں کو کھلایا پلایا، حق ہے بچوں کا۔ چھلکے دروازے سے باہر گلی میں مت پھینکو۔ گھر میں پھل ول کھایا ہے، بچوں کو کھلایا ہے، ٹھیک ہے، بچوں کا بھی حق ہے، تمہارا بھی حق ہے۔ لیکن چھلکے باہر گلی میں مت پھینکو۔ کیوں؟ پڑوسی کے بچے چھلکا دیکھ کر گھر والوں سے ماں باپ سے پھل کی ضد کریں گے، وہ لانے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ فساد کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔
تم نے محلے میں رہتے ہوئے کیا پوزیشن اختیار کی ہے۔ محلے والے اندر اندر کڑھتے رہتے ہیں۔ کیوں جی، کڑھتے ہیں نہیں کڑھتے؟ کیا حال ہوتا ہے لوگوں کا۔ اور بچوں کو تو پتہ نہیں نا۔ بچے جب جا کے ماں باپ کو؛ یہ بھی چاہیے، یہ بھی چاہیے، تو کیا کرے گا؟ یا بچوں پر جبر کرے گا، یا حرام کمائے گا۔ فساد کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔
پڑوسی کو دیکھ کر پڑوسی کے بچے ماں باپ سے کچھ تقاضا کریں گے۔ وہ پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کیا کرے گا؟ یا اِن پر جبر کرے گا، یا حرام کمائے گا۔
یہ میں نے دو باتیں عرض کی ہیں۔ اللہ کے پیغمبر کی زبان سے۔ اور ایک قوم کی زبان سے۔ شعیب علیہ السلام نے کیا کہا تھا؟ ماپ تول پورا کرو، دو نمبر مال نہیں بیچو، معیشت میں خرابی پیدا نہیں کرو۔ اور قومِ موسیٰ نے، بنی اسرائیل کی قوم نے قارون سے کیا کہا تھا؟ پانچ باتیں پھر دہرا دیتا ہوں۔ کیا فرمایا تھا؟
(۱) ’’لا تفرح‘‘۔ اتراؤ نہیں۔ نمائش نہیں کرو۔ یہ نمائش کیا ہے؟ اترانا ہے۔ نمائش نہیں کرو دولت کی کہ لوگوں کے لیے مصیبت کا باعث بنے۔
(۲) ’’وابتغ فی ما اٰتک اللہ الدار الاٰخرۃ‘‘۔ اس مال کے ذریعے آخرت صحیح کرو اپنی۔
(۳) ’’ولا تنس نصیبک من الدنیا‘‘۔ دنیا میں بھی اپنا حصہ سیدھا رکھو، اس سے انکار نہیں ہے۔ کھاؤ پیو۔ یہ بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے۔ ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ یہ مال دنیا کے لیے بھی ہے، دنیا کی بہتری کے لیے بھی، اس سے بھی منع نہیں کیا، بلکہ ترغیب دی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے سے ایک آدمی گزرا۔ میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، بال بکھرے ہوئے، میل جمی ہوئی، برا حال، جیسے کئی دن سے نہایا نہیں ہے، کئی ہفتوں سے کپڑے نہیں بدلے۔ بلایا۔
کون ہو؟ میں فلاں ہوں۔ او خدا کے بندے! اتنی توفیق بھی نہیں ہے کہ ایک درہم کا تیل خریدو، نہاؤ دھو، تیل ملو، بال وال سیدھے کرو یار، اپنی شکل سیدھی کرو، کپڑے دھو لو۔ اتنی توفیق بھی نہیں؟ یا رسول اللہ! کیا فرما رہے ہیں آپ۔ میرے پاس تو اتنے سو اونٹ ہیں، میں کھاتا پیتا آدمی ہوں، ٹھیک ٹھاک بندہ ہوں۔ اونٹوں کا مالک ہوں، بکریوں کا مالک ہوں، باغات کا مالک ہوں، میں کھاتا پیتا آدمی ہوں۔ حضورؐ نے ایک جملہ فرمایا ’’[فاذا آتاک اللہ مالا فلیر اثر نعمۃ اللہ علیک]‘‘۔ اللہ پاک نے تجھ پر احسان کیا ہے نا، تو اللہ کی نعمتیں تجھ پر نظر بھی آنی چاہئیں۔ اس کے اثرات تجھ پر نظر آنے چاہئیں، یار ٹھیک ٹھاک رہو، پتہ چلے لوگوں کو اللہ پاک نے اس پر بڑا احسان کیا ہے۔ لیکن احسان کے اظہار کی حد تک۔ دوسروں پر رعب جمانے کے لیے نہیں۔ کیا فرمایا ’’ولا تنس نصیبک من الدنیا‘‘۔
(۴) اور چوتھی بات کیا فرمائی؟ ’’احسن کما احسن اللہ الیک‘‘۔ اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے، اس نے لوگوں کا حق رکھا ہے، وہ ادا کرو، لوگوں کو بھی دو، خرچ کرو۔
(۵) اور ’’ولا تبغ الفساد فی الارض‘‘۔ سوچ سمجھ کر خرچ کرو۔ تمہارا دولت کا خرچ کرنا معاشرے میں فساد کے لیے خرابی کے لیے ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ اس سے لوگوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، لوگوں کے لیے کوئی تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
تو یہ معیشت ہمیشہ آسمانی مذاہب کا موضوع رہی ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کا موضوع رہی ہے۔ اور انبیاء کرام جہاں عبادت کی بات کرتے رہے ہیں، توحید کی بات کرتے رہے ہیں، وہاں معیشت کی بات بھی کی ہے، خاندان کی بات بھی کی ہے، تجارت کی بات بھی کی ہے۔
اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی زندگی کا آغاز ہی تجارت سے کیا تھا۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز کس سے کیا تھا؟ تجارت سے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا قافلہ لے کر گئے تھے شام۔ حضورؐ کی پریکٹیکل لائف کا آغاز کہاں سے ہے؟ تجارت سے ہے۔ یہ بات میں تفصیل سے بعد میں کروں گا لیکن آج میں نے صرف؛ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریکٹیکل زندگی کا آغاز ہی تجارت سے ہے۔ اور پھر وہ تجارت کیسی تھی، جس تجارت کے نتیجے میں، اپنے وقت کی مالدار خاتون خود پیشکش کر رہی ہیں کہ میں شادی کروں گی۔ وہ تجارت بے برکت نہیں رہی تھی کسی بھی حوالے سے۔ حضورؐ کی تو شادی ہی تجارت کی وجہ سے ہوئی تھی۔ تو آج تو میں اتنی بات …