بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے لیے یہ خوشی اور سعادت کی بات ہے کہ جامعہ بنوریہ کے اس نشریاتی پروگرام میں حاضری اور مختلف سامعین، ناظرین سے گفتگو اور بالواسطہ ملاقات کا موقع ملا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری اس گفتگو کو قبول فرمائیں، کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں، اور دینِ حق کی جو بات علم میں آئے، سمجھ میں آئے، اللہ پاک عمل کی توفیق سے بھی نوازیں۔
رمضان المبارک کی ساعات ہیں، تقریباً نصف رمضان گزر گیا ہے، نصف باقی ہے۔ یہ قرآن پاک کا مہینہ ہے اور قرآن پاک ہی کے حوالے سے رمضان المبارک کا تعارف قرآن پاک میں کروایا گیا ہے: ’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن‘‘ (البقرۃ ۱۸۵) یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن پاک اتارا گیا ہے۔ رمضان کا تعارف قرآن پاک کے حوالے سے خود قرآن پاک میں کروایا گیا ہے۔ رمضان المبارک قرآن پاک کا مہینہ ہے، برکتوں کا مہینہ ہے، رحمتوں کا مہینہ ہے، مغفرت کا مہینہ ہے، توبہ کا مہینہ ہے، اور نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے۔ نیکیوں کا سیزن اس کو سمجھ لیجیے۔ اس مہینے میں نیکیوں کے اعمال کی توفیق بھی زیادہ ہوتی ہے، مواقع بھی زیادہ ملتے ہیں، اور اجر بھی زیادہ ملتا ہے۔ اس مہینے میں اعمالِ خیر بڑھ جاتے ہیں، مواقع میں اضافہ ہو جاتا ہے، اور اجر میں تو بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے، ستر گنا اجر بڑھ جاتا ہے عام نیکی کا۔
اس مناسبت سے میں آج کی گفتگو میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ نیکیاں کمانا، اعمالِ خیر کرنا، ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ ایمان کے مظاہر اور ایمان کی علامتیں اور ایمان کے تقاضے یہ اعمالِ صالحہ ہیں۔ ’’ان الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات‘‘ (مریم ۹۶) وہ لوگ جو ایمان لائے اور ایمان کے ساتھ عملِ صالح کیے۔ ایمان اور عملِ صالح آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان کا تقاضا ہیں، ہماری ضروریات ہیں۔ دنیا کی ضرورت بھی ہے، اعمالِ صالحہ کی برکات ہمیں دنیا میں بھی چاہئیں، اور اس کا اجر و ثواب آخرت کی ضرورت تو ہماری ہے ہی۔ اس کے اثرات، اس کے نتائج، ہماری دنیا کی زندگی میں بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اور اس کی ہمیں اصل ضرورت قبر میں، قیامت کے دن ضرورت پڑے گی۔ لیکن نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کو بچانا، نیکیوں کی حفاظت کرنا، یہ مستقل دینی ضرورت ہے۔ اور اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بطور خاص اس طرف توجہ دلائی ہے۔
اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا، الذین ضل سعیھم فی الحیاۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحصنون صنعا‘‘ (الکہف ۱۰۳، ۱۰۴) اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم، کہہ دیجیے ان سے کہ کیا ہم تمہیں خبر دیں کہ اعمال کے اعتبار سے زیادہ خسارے والے کون ہیں؟ ’’بالاخسرین اعمالا‘‘۔ اعمال کے اعتبار سے ’’اخسر‘‘ زیادہ خسارے والے کون ہیں؟ اعمال کے حوالے سے زیادہ خسارے والے وہ ہیں ’’الذین ضل سعیھم فی الحیاۃ الدنیا‘‘ جن کی نیکیاں، جن کی کوشش، جن کی محنت دنیا میں ہی ضائع ہو جاتی ہے ’’وھم یحسبون انھم یحصنون صنعا‘‘ اور وہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم بڑے نیک کام کر رہے ہیں، بڑی نمازیں پڑھ رہے ہیں، بڑے خیر کے کام کر رہے ہیں۔ اپنے حساب سے ان کے ذہنوں میں نیک اعمال کی ایک بڑی فہرست ہوتی ہے، لیکن دنیا میں وہ نیکیاں برباد کر کے چلے جاتے ہیں۔ نیکیاں ہوتی ہیں، اعمالِ خیر ہوتے ہیں، لیکن ضائع ہو جاتے ہیں۔
گویا، جو آدمی اعمالِ خیر نہیں کرتا، وہ بھی خسارے میں ہے، لیکن جو کر کے ضائع کر دیتا ہے، وہ ’’اخسر‘‘ ہے، وہ زیادہ خسارے میں ہے۔ ایک آدمی نے محنت نہیں کی، نتائج نہیں ملے، خسارہ ہے۔ ایک نے محنت کی ہے، نتائج ضائع ہو گئے ہیں، یہ زیادہ خسارہ ہے۔ تو قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نیکیاں کما کے ان کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔ نیکی اپنے وقت پہ کام آئے گی تو نیکی ہے۔ جب نیکیوں کے ساتھ انسان کی نجات کے فیصلے ہوں گے، ایمان اور اعمالِ صالحہ ترازو پر تلیں گے، اور اس بنیاد پر انسان کے مستقبل کے فیصلے ہوں گے کہ کدھر جانا ہے۔ اُس وقت تک جو نیکی اپنے پاس ہے وہ انسان کی نیکی ہے۔ اور جو اس سے پہلے کہیں اِدھر اُدھر ہو گئی ہے وہ انسان کی نہیں ہے۔ وہ خسارہ ہے، مشقت ہے۔ اس لیے جہاں نیکیاں کمانے کا حکم دیا گیا ہے وہاں نیکیوں کی حفاظت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ جہاں اعمالِ صالحہ نہ کرنے کو خسارہ کہا گیا ہے، وہاں اعمالِ صالحہ کر کے ضائع کر دینے کو اس سے بڑا خسارہ کہا گیا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے، اور بہت سی احادیث میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اعمال کی نشاندہی کی ہے جن اعمال سے انسان کی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ پڑھی ہوئی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں، دی ہوئی زکوٰۃ ضائع ہو جاتی ہے، کیے ہوئے حج ضائع ہو جاتے ہیں۔ کوئی بڑی سے بڑی نیکی ہے، وہ اس کھاتے میں چلی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں بھی بہت سے اعمال کی نشاندہی گئی ہے اور احادیثِ مبارکہ میں بھی بہت سے اعمال کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان میں سے دو تین کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
مثلاً قرآن کریم میں اللہ رب العزت ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’یا ایھا الذین اٰمنوا لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذیٰ‘‘ (البقرۃ ۲۶۴)۔ صدقہ خیرات کی توفیق ہوتی ہے، اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا موقع ملتا ہے، تو اپنے صدقے کو من اور اذیٰ کے ساتھ ضائع نہ کرو۔ من اور اذیٰ صدقے کا وائرس ہے۔ صاف کر دیتا ہے۔
من اور اذیٰ کیا ہے؟ مفسرین فرماتے ہیں ’’من‘‘ ہے کسی کو روبرو جتلانا۔ کسی پر خرچ کیا ہے، کسی کے کام آئے ہیں، کسی کی ضرورت پوری کی ہے، کسی کی مشکل میں اس کو سہولت دی ہے۔ اور پھر اس کو جتلایا ہے کہ میں نے تمہارا فلاں کام کیا تھا، میں اتنے پیسے دیے تھے، فلاں مشکل سے نکالا تھا۔ یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سخت ناپسندیدہ ہے۔ اتنی ناپسندیدہ ہے کہ اللہ پاک اس کو بطلانِ عمل فرما رہے ہیں: ’’لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذیٰ‘‘۔ اس کی وجہ مفسرین یہ بیان فرماتے ہیں کہ دیکھیں یہ ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ صدقہ خیرات کیا ہے؟ اللہ رب العزت نے اس کے بارے میں دو تین باتیں بڑی واضح فرمائی ہیں۔ فرمایا، تم خیر کے کاموں پہ خرچ کرتے ہو، سوسائٹی کے مساکین، ناداروں پہ خرچ کرتے ہو، مستحق افراد پہ خرچ کرتے ہو، تو کہاں سے کرتے ہو؟ ’’مما رزقناھم ینفقون‘‘ (البقرۃ ۳) ہمارے دیے ہوئے میں سے کرتے ہو، اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے۔ بڑی صاف سی بات کی ’’مما رزقناھم ینفقون‘‘ ہمارے دیے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ دوسری بات فرمائی، ہمارے کہنے پر دیتے ہو۔ ہمارے دیے ہوئے میں سے دیتے ہو، ہمارے کہنے پر دیتے ہو، واپسی کے وعدے پر دیتے ہو، اور واپسی بھی کم سے کم دس گنا کی گارنٹی ہے۔ یہ قرضہ ہے۔
اللہ پاک اس کو قرضے سے تعبیر کرتے ہیں ’’من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا‘‘ (البقرۃ ۲۴۵)۔ فرمایا، اس کو نہیں دے رہے، مجھے قرضہ دے رہے ہو۔ اور یہ واحد قرضہ ہے جس پر سود جائز ہے۔ ایک دو گے، دس دوں گا۔ کم سے کم دس دوں گا۔ سات سو بھی دے سکتا ہوں۔ ستر تو رمضان میں دوں گا ہی۔ ’’واللہ یضٰعف لمن یشاء‘‘ (البقرۃ ۲۶۱)۔ مجھے قرضہ دے رہے ہو یار، اسے کیا دے رہے ہو؟ اور کم از کم دس گنا کی گارنٹی پہ دے رہے ہو۔ اس کے ساتھ کیا احسان ہے تمہارا؟ اس کو کیا کہتے ہو، میں تمہارے ساتھ یہ نیکی کی تھی۔ اس کو کہا تو نیکی برباد۔ اس کو کہتے ہیں ’’من‘‘ روبرو جتلا دینا۔
اور ’’اذیٰ‘‘ کہتے ہیں پسِ پشت، اس کی غیر موجودگی میں۔ کسی ضرورت مند کے کام آیا ہے، کسی یتیم، مسکین، بیوہ، مستحق، کسی اللہ کے بندے کے کام آیا ہے تو اس کے پسِ پشت، غیر حاضری میں کسی کے سامنے اس انداز سے ذکر کرنا کہ اس کو معلوم ہو تو تکلیف ہو، یار مجھ پر نیکی کی تھی تو یہ کیا کیا۔ اس کو اذیٰ کہتے ہیں۔
اللہ رب العزت قرآن کریم میں فرماتے ہیں، ایمان والو! مَن کے ساتھ بھی صدقہ باطل ہو جاتا ہے، اذیٰ کے ساتھ بھی صدقہ باطل ہو جاتا ہے۔ تمہارا معاملہ میرے ساتھ ہے، میرے ساتھ رکھو۔ میرے کہنے پہ دے رہے ہو، میرے ساتھ معاملہ رکھو۔ تمہارا معاملہ میرے ساتھ ہے، اُس کے ساتھ نہیں ہے۔ تو فرمایا اس سے نیکی برباد ہو جاتی ہے، اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
یا مثلاً جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’ان الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ حسد انسان کی نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ حسد کیا ہے؟ کسی دوسرے کو اچھی حالت میں دیکھ کر تکلیف محسوس کرنا۔
کسی پڑوسی کو، کسی رشتہ دار کو، کسی دوست کو، کسی ساتھی کو، کسی کو اچھی حالت میں دیکھ کے اگر تو آدمی خوشی محسوس کرے، اللہ پاک کا شکر ادا کرے، یا اللہ پاک اس پہ احسان کیا تو نے، اور اپنے لیے تمنا کرے کہ یااللہ مجھ پہ بھی کر۔ اس کو رشک کہتے ہیں، یہ تو قابلِ ستائش جذبہ ہے۔ کسی کو منصب میں ترقی دیکھی، مال میں ترقی دیکھی، علم میں ترقی دیکھی، احترام میں ترقی دیکھی، کسی حوالے سے اس کو اچھی حالت میں دیکھا، مکان اچھا دیکھ لیا اس کا، گاڑی اچھی دیکھ لی، کوئی دنیا یا دین کی کوئی بڑی بات دیکھ لی اور دل میں خوشی محسوس کی، یا اللہ! اس پہ تو نے احسان کیا، مجھ پہ بھی کر دے۔ یہ تو ہے رشک، یہ تو قابلِ ستائش جذبہ ہے۔
اسی کو الٹا لیں۔ مجھے نہیں دیا تو اس کو کیوں دیا ہے؟ تکلیف محسوس کرنا۔ اس کا نام حسد ہے۔ میرے پاس نہیں ہے تو اس کے پاس کیوں ہے؟ وہی جذبہ مثبت ہو تو رشک ہو جاتا ہے، وہی منفی ہو جائے تو حسد ہو جاتا ہے۔ حسد میں انسان کا دل جلتا ہے۔ جیلسی اسی کو کہتے ہیں۔ حسد میں انسان کا دل جلتا ہے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، دل تو جلتا ہی ہے، اس آگ میں نیکیاں بھی جل جاتی ہیں۔ یہ دھیمی دھیمی آگ جو ہے نا، یہ نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے ’’ان الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب‘‘ حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
یا مثال کے طور پر ایک روایت میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات سمجھائی ہے مثال دے کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، صحابہؓ سے پوچھا: ’’من المفلس؟‘‘ مفلس کسے کہتے ہو؟ دیوالیہ کون ہوتا ہے؟ قلاش کسے سمجھتے ہو؟ یا آج کی زبان میں ڈیفالٹر کون ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا ’’یا رسول اللہ من لا درہم لہ ولا دینار‘‘ جس کی جیب میں درہم دینار نہیں ہے وہ مفلس ہے۔ جو اپنے واجبات ادا نہیں کر سکتا، اپنے تقاضے پورے نہیں کر سکتا، اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتا، اپنے ذمے قرضے ورضے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، وہ ڈیفالٹر ہے، وہ مفلس ہے۔ فرمایا، ٹھیک ہے، تمہارے ہاں مفلس یہی ہے، لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اللہ کے ہاں مفلس کون ہے؟
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اللہ کے ہاں مفلس کون ہے۔ فرمایا، قیامت کا دن ہو گا، حشر کا میدان ہو گا، اللہ کی عدالت ہو گی، حساب کتاب چل رہا ہو گا، آوازیں پڑ رہی ہوں گی ’’سرکار بنام فلان‘‘۔ باری باری پیش ہو رہے ہوں گے۔ ریکارڈ بھی پیش ہو رہا ہو گا، بندہ بھی پیش ہو رہا ہو گا۔ اللہ پاک کو ہر چیز کا علم ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اللہ کے علم سے مخفی نہیں ہے۔ اللہ پاک ہم سے زیادہ ہمیں جانتا ہے۔ میری حرکتوں کو اللہ پاک مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اللہ پاک ہم سے زیادہ ہم کو جانتا ہے۔ ہمیں بہت سی باتیں بھول جاتی ہیں، اس کو بھولتی نہیں ہیں۔ بہت سی باتیں ہمیں یاد نہیں رہتیں۔ بلکہ قرآن پاک میں ہے، جب انسان اپنا نامہ اعمال دیکھے گا تو حیران ہو کر کہے گا ’’مال ھذا الکتاب لا یغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصاھا‘‘ (الکہف ۴۹) چھوٹی موٹی ہر بات لکھی ہوئی ہے اس میں۔ انسان کو اکثر یاد ہی نہیں ہے، لکھی ہوئی ہے، یہ بھی کیا تھا، یہ بھی کیا تھا، یہ بھی کیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک آدمی پیش ہو گا اللہ کی عدالت میں۔ فرشتے اس کا ریکارڈ پیش کریں گے۔ یا اللہ اس کے پاس بہت نیکیاں ہیں۔ انبار نیکیوں کے لے کر پیش ہو گا۔ بڑی نمازیں، بڑے روزے، بڑے حج، بڑی زکاتیں، بہت کچھ ہو گا اس کے پاس۔ اللہ تبارک و تعالیٰ پوچھیں گے۔ پتہ تو اس کو ہے، لیکن عدالت کا پراسیس پورا کریں گے۔ سوال جواب بھی ہوں گے، وہاں فردِ جرم بھی عائد ہو گی، انکار بھی ہوگا، گواہ بھی پیش ہوں گے، گواہوں پر جرح بھی ہو گی، سب کچھ ہو گا، سارا عدالت کا پراسیس وہاں پورا ہو گا۔ انکار بھی کریں گے، یا اللہ، میں نے تو نہیں کیا۔ پھر شہادتیں پیش ہوں گی، دستاویزات پیش ہوں گی، گواہ پیش ہوں گے۔ گواہوں پر بھی جرح ہو گی، یہ تو تھا نہیں، یہ کیسے گواہی دے رہا ہے۔ سب کچھ ہو گا۔
فرشتے ریکارڈ پیش کریں گے۔ یا اللہ، اس کے پاس بڑی نیکیاں، بڑے عمرے، بڑے حج، بڑا کچھ ہے اس کے پاس۔ اللہ پاک فرمائیں گے، کوئی لین دین والا بھی کوئی ہے؟ یا اللہ، وہ لائن لگی ہوئی ہے۔ وہ لائن لگی ہوئی ہے۔ ایک ایک کر کے آئیں گے وہ۔ کوئی کہے گا یا اللہ مجھے گالی دی تھی اس نے بلا وجہ۔ اب دنیا میں تو ہے چلو تم بھی کچھ کہہ لو یار۔ آخرت کا قانون یہ نہیں ہے۔ وہ ریاست الگ ہے، اس کا قانون ہی الگ ہے۔ اِس کی نیکیاں نکالو، اُس کو دو۔ یا اللہ، مجھے تھپڑ مارا تھا۔ یا اللہ، میرا فلاں نقصان کر دیا تھا اس نے۔ دو بھئی۔ آ رہے ہیں۔ یا اللہ، میں اس کا پڑوسی تھا، یہ تگڑا آدمی تھا، مکان بنایا میری دو فٹ زمین رگڑ گیا، میں کچھ نہیں کر سکا۔ اس کو بھی دو بھئی۔ یا اللہ، اس نے عدالت میں گواہی دی تھی میرے خلاف، میرا دو کروڑ کا مکان گیا۔ مکان میرا تھا، اس کی گواہی پر میرے ہاتھ سے گیا۔ اس کو بھی دو بھئی۔ حتیٰ کہ ایک مرحلہ آئے گا، فرشتے کہیں گے، یا اللہ! نیکیاں تو ختم ہو گئیں۔ وہ جو انبار نیکیوں کے لے کر آیا تھا وہ نمٹ گیا۔ اس کے بیلنس میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن تقاضے باقی ہیں۔ اب اللہ پاک فرمائیں گے، الٹی گنتی کرو بھئی۔ اب ان کے گناہ نکالو، اس کے کھاتے میں ڈالو۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، مفلس وہ ہے، ڈیفالٹر وہ ہے، جو نیکیوں کے انبار لے کر اللہ کی عدالت میں پیش ہو گا لیکن جب حساب کتاب سے فارغ ہو گا تو گناہوں کے گٹھڑ اٹھا کر جہنم میں جا گرے گا۔ نمازیں کوئی لے گیا، حج کوئی لے گیا، عمرے کوئی لے گیا، زکاتیں کوئی لے گیا، صدقے خیرات کوئی لے گیا۔ وہ اس کے نہیں ہیں، دوسروں کے ہیں۔ تو اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں ’’قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا‘‘ کیا ہم تمہیں خبر دیں، کہہ دیجیے ان سے، کہ اعمال کے اعتبار سے زیادہ خسارے والا کون ہے؟ وہ جو نیکی کرتا ہے، ضائع ہو جاتی ہے۔ ’’الذین ضل سعیھم فی الحیاۃ الدنیا‘‘۔ سعی ہے لیکن دنیا میں ہی برباد کر کے چلا گیا۔ اور میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم میں بھی، احادیث مبارکہ میں بھی، ایسے اعمال جن کے ساتھ نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں، وہ قرآن پاک نے بھی بہت سی بیان کی ہیں۔ ایک دفعہ میں گننے بیٹھا تھا، اس وقت میرے ذہن میں چند باتیں جو آئیں وہ گیارہ بارہ تک پہنچی تھیں، کہ جن کے ساتھ نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ ایک کا ذکر اور کروں گا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ یہ بھی وبا آج کل عام ہے ہماری۔ ہر اخبار میگزین بھرا ہوتا ہے۔ ہفتہ کیسے گزرے گا، مہینہ کیسے گزرے گا، اگلے سوموار کو کیا ہو گا، اس سے اگلے منگل کو کیا ہو گا۔ میں کہتا ہوں ہمیں یہ نہیں پتہ کہ آج رات کیا ہو گا، آپ اگلے سوموار کی بات کر رہے ہیں۔ نجوم۔ حدیث میں آتا ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’من اتیٰ كاھنا‘‘ جو کسی کاہن کے پاس اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے گیا، چالیس دن کی پڑھی ہوئی نمازیں اس کی برباد ہو گئیں ’’لم تقبل لہ صلاۃ اربعین لیلۃ‘‘ چالیس راتوں کی، چالیس دنوں کی پڑھی ہوئی نمازیں ضائع ہو گئیں۔
یہ وہ اعمال ہیں جن کے ساتھ نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں، جن کے ساتھ اعمالِ صالحہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ تو رمضان المبارک کے حوالے سے مجلس میں بیٹھے ہیں، میں اپنے آپ کو سب سے پہلے، اور اپنے مخاطبین کو سامعین کو ناظرین کو اس کے بعد، آج کے رمضان کے حوالے سے یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ بہت زیادہ نیکیاں کمائیں، جتنی زیادہ کما سکیں، جتنی زیادہ کما سکیں، اس میں کوئی قید نہیں ہے، کوئی حد نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوئی حد نہیں رکھی۔ میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے نیکیوں پر کم سے کم کی حد تو بیان کی ہے، زیادہ سے زیادہ کی کسی پر نہیں کی۔ یہ تو کہا ہے ’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا‘‘ (الانعام ۱۶۰)۔ دس سے کم نہیں دوں گا، یہ تو گارنٹی دی ہے، کسی بھی نیکی کا۔ لیکن تلاش کرتے ہوئے مجھے بھی نصف صدی ہو گئی ہے، کسی نیکی پر [نہیں کہا] کہ اس سے زیادہ نہیں دوں گا، اللہ کے ہاں کوئی کمی نہیں ہے۔ جتنی زیادہ کما سکیں کمائیں۔ اور یہی نیکیاں ہی کام آئیں گی۔ لیکن نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی حفاظت اس سے زیادہ ضروری ہے۔ ایک آدمی سارا دن گھر بیٹھا ہوا ہے کوئی کام نہیں کیا، شام کو جیب خالی ہے، یہ بھی نقصان میں ہے۔ لیکن ایک نے سارا دن محنت کی ہے، کچھ ہزار بارہ سو کمایا ہے، شام کو آیا ہے، جیب کی حفاظت نہیں کی، راستے میں جیب کٹ گیا ہے، یہ بھی خسارے میں ہے۔ لیکن زیادہ خسارے میں کون ہے؟
تو میں یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی حفاظت کا بندوبست بھی کرنا چاہیے اور ان اعمال سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جن اعمال کے ساتھ انسان کی کی ہوئی نیکیاں، اعمال، خیر کے کام ضائع ہو جاتے ہیں، باطل ہو جاتے ہیں، حبط ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائیں اور نیکیاں کمانے کی توفیق دیں اور اپنی نیکیوں کی حفاظت کی توفیق دیں۔
ایک بات کہہ کر بات ختم کرتا ہوں۔ دیکھیے نماز پڑھنے میں تو دس منٹ لگتے ہیں، پندرہ لگ جائیں گے، بیس لگ جائیں گے، وہ تو پندرہ بیس منٹ کا عمل ہے۔ لیکن اس کی حفاظت کرنی کہاں تک ہے؟ کہاں تک اس کو لے جانا ہے؟ بارڈر کراس کرنے تک میرے ساتھ ہو گی تو میری ہے۔ مرتے دم تک اس کی حفاظت کرنی ہے۔ عمل کرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے، حفاظت کا پیریڈ بہت لمبا ہے۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی واٰلہ واصحابہ و بارک وسلم۔