بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں وفاق ہائے ایوان ہائے صنعت و تجارت اور مرکز الاقتصاد الاسلامی بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا شکرگزار ہوں اس محفل کے اہتمام پر اور اس جدوجہد کے آغاز پر اور اس کے بعد حاضری کا موقع دینے پر۔ میں دو تین باتیں مختصراً عرض کروں گا۔
سود کا خاتمہ۔ اس کا ایک دائرہ تو عالمی ہے۔ سود کا خاتمہ نسلِ انسانی کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر اس وقت تک سود پر جو ریسرچ ہوئی ہے، آج کے ماہرین مجموعی طور پر اس بات پہ متفق ہیں کہ سودی سسٹم نے انسانی نسل کو خلفشار کے سوا، مفاد پرستی کے سوا، اور جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہی جملہ آج سے چوہتر سال پہلے تہتر سال پہلے قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ سودی مغربی اصولِ معیشت نے دنیا کو جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ میں ان کا جملہ نقل کرتے ہوئے؛ آج بات بہت آگے بڑھ گئی ہے اور آج کے ماہرینِ معیشت متفق ہیں اس پر کہ سود نے نسلِ انسانی کو فائدہ دیا ہو گا، نقصان زیادہ دیا ہے۔ ’’اثمھما اکبر من نفعھما‘‘۔ یہ سود کے بارے میں آج کے عالمی ماہرین کی رائے ہے اور نتیجہ ہے اس بحث کا جو اب تک ہوئی ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ؛ اس وقت سودی معیشت دنیا کو کنٹرول کر رہی ہے، متبادل جب تک میدان میں نہ ہو، یہ تو اصول ہے فطرت کا سماج کا کہ ’’وبضدھا تتبین الاشیاء‘‘۔ متبادل کسی سسٹم کو منظم نہیں ہونے دیا جا رہا۔ ایک سسٹم رول کر رہا ہے۔ اور تقابل کی فضا، جس سے بہتر کی طرف جانے کا لوگوں کو موقع ملتا ہے، وہ نہیں ہے۔ عالمی ضرورت ہے کہ غیر سودی بینکاری اور اسلامی اصول نافذ ہوں، عملی طور پر ان کو کام کرنے کا موقع دیا جائے، تاکہ نسلِ انسانی کو آزادانہ فضا میں موقع ملے کہ وہ دیکھیں کہ یہ ہمارے لیے فائدے مند ہے یا وہ فائدے مند ہے۔ ایک دائرہ تو یہ ہے۔
ایک ہمارا دائرہ ہے ملتِ اسلامیہ کا اور پاکستانی قوم کا۔ سب سے پہلے تو قائد اعظم کا وہ ارشاد؛ قیامِ پاکستان کے مقاصد میں اسلامی نظام صرف سیاست میں نہیں، معیشت میں بھی، تجارت میں بھی؛ اور سٹیٹ بینک کا قائد اعظم کا وہ اعلان؛ ہماری قومی ضرورت بحیثیت پاکستان کے کہ یہاں سودی نظام ختم ہو۔
پھر ہماری ضرورت؛ ملک کے تمام دساتیر بالخصوص ۷۳ء کا دستور جو اس وقت نافذ العمل ہے، دوٹوک کہتا ہے، وعدہ کرتا ہے نہیں، گارنٹی دیتا ہے کہ ختم کرنا ہے۔
پھر اس کے بعد ہماری قومی معیشت اس وقت جن بحرانوں کا شکار ہے، جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے، جس دھند میں پھنسی ہوئی ہے، اس کی بنیادی وجہ سود ہے۔ آج ہم قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آج ہم بین الاقوامی جکڑبندی میں بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس بے بسی کی زنجیریں سود ہے۔ جب تک ہم سود سے نجات حاصل نہیں کریں گے، ہم اپنی قومی معیشت کو خودمختاری کے دائرے میں نہیں لا سکیں گے۔ اور جب تک معیشت خودمختاری کے دائرے میں نہیں آئے گی اس وقت تک ہم اپنی منزل کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔
ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور دینی ضرورت تو خیر ہے ہی۔ مجھے پہلے ذکر کرنا چاہیے تھا لیکن میں آخر میں ذکر کر رہا ہوں۔ دینی ضرورت تو ہماری ہے ہی۔ ہم مسلمان ہیں، قرآن پاک پہ ایمان رکھتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں، حضورؐ کے ارشادات پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ ہماری مستقل ضرورت ہے کہ ہم اپنے تمام کاموں کو اس دائرے میں لائیں۔
یہ میں عرض کر رہا ہوں کہ ہماری عالمی ضرورت بھی ہے، قومی ضرورت بھی ہے، دینی ضرورت بھی ہے، معاشی ضرورت بھی ہے۔ اس کے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ یہ اجتماع ہو رہا ہے۔ میں آپ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اس پہ مختلف علاقوں کے فورم موجود ہیں جو کام کر رہے ہیں، ایک فورم کی میں بھی نمائندگی کرتا ہوں، مشترکہ تمام مکاتبِ فکر کے نمائندوں کا لاہور میں ہے ’’تحریکِ انسدادِ سود پاکستان‘‘۔ میں حضرت کو یقین دلاتا ہوں کہ جتنے جہاں جہاں کام ہو رہے ہیں، ان شاء اللہ آپ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ آج کی یہ قیادت، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب، جناب سراج الحق صاحب، جناب پروفیسر ساجد میر صاحب، آج کی یہ قیادت جو فیصلہ کرے گی، مختلف حلقے جو کام کر رہے ہیں، ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہیں، ان شاء اللہ آپ کے کارکن ہیں، اور ان شاء اللہ العزیز ملک کو سود کی لعنت سے نجات دلانے کے لیے جو بھی آپ طے کریں گے اس کے لیے ہم کارکن کے طور پہ کام کریں گے۔

