مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کو سو سال مکمل ہونے پر قادیانی حضرات تو یہ پورا سال صد سالہ تقریبات کے طور پر منا رہے ہیں، لیکن مسلمانوں کی مختلف جماعتوں نے بھی اس موقع پر تقریبات کا اہتمام ضروری سمجھا ہے، چنانچہ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی جمعیۃ علماء پاکستان نے ۲۴ مئی کو مینارِ پاکستان لاہور کے گراؤنڈ میں ”ختم نبوت کانفرنس“ منعقد کی، مجلس احرار اسلام نے ۲۵ مئی کو چناب نگر میں ”ختم نبوت سیمینار“ کا انعقاد کیا، مرکزی جمعیت اہلحدیث نے ۲۶ مئی کو چنیوٹ میں ”خاتم النبیینؐ کانفرنس“ کا اہتمام کیا، جبکہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیرِ اہتمام ۲۶ مئی کو ایوانِ اقبال لاہور میں اعلیٰ سطح پر ”ختم نبوت کانفرنس“ کی شاندار محفل بپا ہوئی اور قادیانیوں کے بارے میں مسلمانوں کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے ان کانفرنسوں میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے عہد کی تجدید کی گئی۔
راقم الحروف کو چناب نگر کے ”ختم نبوت سیمینار“ اور ایوانِ اقبال لاہور کی ”ختم نبوت کانفرنس“ میں اس سلسلہ میں جو گزارشات پیش کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے، ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں نے قرآن کریم کی آیت کریمہ (آل عمران: ۱۱۲) آپ کے سامنے پڑھی ہے، وہ یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”یہودیوں پر ذلت مسلط کر دی گئی ہے اور وہ اس سے سوائے اس کے نہیں نکل سکیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی تھام لیں یا لوگوں کی رسی کو تھامیں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف رجوع یا دنیا کی قوتوں میں سے کسی قوت کا سہارا لیے بغیر وہ دنیا میں عزت کا مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ایسا ہوا ہے کہ گزشتہ دو ہزار برس سے یہودی دنیا میں مارے مارے پھرتے رہے اور بالآخر انہیں کم و بیش اب سے پون صدی قبل جو ریاست اور اقتدار حاصل ہوا ہے، وہ امریکا کے سہارے سے اور مغربی ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے اور اسی وجہ سے اب تک قائم بھی ہے۔
لیکن ہمارا آج کا موضوع یہودیت نہیں، بلکہ قادیانیت ہے اور میں نے یہ آیت اس مماثلت کی وجہ سے پڑھی ہے جو یہودیت اور قادیانیت میں پائی جاتی ہے اور میں اس کا مختلف حوالوں سے تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
اس کی ایک صورت تو سامنے دکھائی دے رہی ہے کہ قادیانی جو خود کو مسلمانوں میں شمار کرانے پر بضد ہیں، انہیں دنیا بھر میں کسی جگہ بھی مسلمان حلقوں میں عزت کا مقام حاصل نہیں ہے۔ وہ امریکا، یورپی یونین اور مغربی قوتوں کے سہارے اپنا وجود قائم رکھنے پر مجبور ہیں اور مغربی ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی تھوڑی بہت سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن اس کے علاوہ ہماری قومی تاریخ کے دو بڑے راہنماؤں نے بھی اپنے اپنے انداز میں قادیانیت کو یہودیت سے تشبیہ دی ہے۔ ایک مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ ہیں، جنہوں نے قادیانیت کو یہودیت کا چربہ قرار دیا تھا اور دوسرے پاکستان کے سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہیں، جن کے بارے میں ان کے آخری ایام میں اڈیالہ جیل میں ان کی نگرانی کرنے والے فوجی افسر کرنل رفیع الدین نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ
”بھٹو مرحوم آخری دنوں کی ملاقاتوں میں ان کے سامنے قادیانیوں کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک بار اس تاثر کا اظہار کیا کہ انہوں نے (یعنی بھٹو مرحوم نے) منتخب پارلیمنٹ کے ذریعہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کا جو فیصلہ کرایا ہے، وہ آخرت میں ان کے لیے نجات اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنے گا۔ اور دوسری بات یہ بتائی کہ یہ قادیانی چاہتے تھے کہ پاکستان میں انہیں وہی مقام حاصل ہو، جو امریکا میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک کی کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہو۔“
اس لیے میں اس آیت کریمہ کا حوالہ دیتے ہوئے قادیانیت کی قیادت کو پرخلوص مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی صورت حال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں کہ وہ کب تک امریکا اور مغربی ممالک کے سہارے اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے؟ ان کے لیے اب اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا کہ وہ اسلام کی طرف واپس آ جائیں اور مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت اور دیگر دعاوی سے برأت کا اعلان کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کا حصہ بن جائیں، ان کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا جائے گا اور انہیں سینے سے لگایا جائے گا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انہیں ہمیشہ امریکا اور مغربی ممالک کا دم چھلا بن کر وقت گزارنا ہو گا، اس کے علاوہ ان کے لیے اب کوئی راستہ باقی نہیں ہے۔
دوسری بات جو میں قادیانیوں کے قائدین سے ”الدين النصيحۃ“ کے جذبہ کے ساتھ پورے خلوص سے کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اگرچہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک صدی گزار لی ہے اور انہوں نے شاید اپنے خیال میں بہت پیشرفت بھی کر لی ہو گی، لیکن تاریخ کے تناظر میں صورت حال جوں کی توں ہے اور ایک صدی قبل کا جو منظر تھا آج بھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے اب سے ایک صدی قبل جب نبوت کا دعویٰ کیا اور مسلمانوں سے علیحدگی کا راستہ اختیار کیا تو ان کا سب سے پہلا مقابلہ علماءِ لدھیانہ سے ہوا تھا، جنہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر قرار دے کر اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور اسی جدوجہد کے تسلسل کو حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے سنبھال لیا تھا۔ قادیانیت کے خلاف دوسرا بڑا مورچہ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ کا تھا، جن کا خود مرزا قادیانی سے آمنا سامنا ہوا اور تیسرا بڑا مورچہ حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کا تھا، جن کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کی آخر وقت تک مباہلہ کے لیے چیلنج بازی ہوتی رہی۔
یہ تینوں مورچے ایک سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی قائم ہیں اور تینوں نے قادیانیوں کی صد سالہ تقریبات کے پس منظر میں اپنے موقف کا اظہار ضروری سمجھا ہے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کے قافلہ نے اپنا مورچہ مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں لگایا ہے، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی جماعت نے چنیوٹ میں مورچہ بندی کی ہے اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے کاروان نے احرار نگر اور ایوانِ اقبال لاہور میں بڑے مورچے کا اہتمام کیا ہے۔ صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ یہ مورچے الگ الگ لگے ہیں، لیکن موقف سب کا ایک ہے اور سب جگہ ایک ہی طرح کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ تینوں مورچے اکٹھے لگتے تو لطف کچھ اور ہوتا، مگر تنوع کا بھی اپنا ایک مزہ ہوتا ہے اور ان تینوں مورچوں نے قادیانیت کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور قادیانیت کے بارے میں ملتِ اسلامیہ کا اجتماعی موقف آج بھی یہ ہے کہ انہیں کسی صورت میں ملتِ اسلامیہ کا حصہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے اور وہ اب بھی بدستور مسلمانوں کے نزدیک ایک غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے خارج الگ اقلیت ہی کا درجہ رکھتے ہیں۔
اس پس منظر میں بھی قادیانی قیادت سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اپنی ایک صد سالہ محنت کا نتیجہ دیکھ لیں۔ ایک صدی سے ان کی تمام تر تگ و دو کا مرکزی نکتہ یہ چلا آ رہا ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت اور دعاوی پر ایمان بھی رکھیں اور انہیں مسلمانوں کے وجود کا حصہ بھی تسلیم کیا جائے، لیکن اب تک ایسا نہیں ہو سکا اور اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں مسلمانوں کا کوئی بھی طبقہ قادیانیوں کو اپنے ساتھ بٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے، نہ مسلمان ملکوں میں اور نہ ہی غیر مسلم ملکوں میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے اور میں قادیانیوں کو پورے اعتماد کے ساتھ یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اگلے سو برس بھی اس کے لیے محنت کر کے دیکھ لیں اور اس کے لیے پورا زور صرف کر لیں، نتیجہ اس سے مختلف نہیں ہو گا اور ان کو ان کے موجودہ عقائد اور مذہب کے ساتھ ملتِ اسلامیہ کا حصہ قرار دیے جانے کا قیامت تک کوئی امکان نہیں ہے۔
اس لیے قادیانیوں سے میری گزارش ہے اور مسلمانوں کے ان اجتماعات کے ذریعہ میں قادیانی قیادت کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس صورت حال کا جائزہ لیں اور ایک ایسے کام میں اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں جو کبھی نہیں ہو سکتا اور دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کر لیں۔
- ایک یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت اور جھوٹے دعاوی سے برأت کا اعلان کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کے چودہ سو سالہ اجماعی عقائد کے ساتھ مسلمانوں میں واپس آ جائیں۔ ہم انہیں سینے سے لگائیں گے، ان کا خیر مقدم کریں گے اور ان کو آنکھوں پر بٹھائیں گے۔
- اگر یہ بات ان کے مقدر میں نہیں ہے تو پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ خواہ مخواہ مسلمان کہلانے کی ضد اور ہٹ دھرمی ترک کر کے اپنے مذہب کا الگ نام اور الگ شناخت طے کر لیں اور دوسرے غیر مسلم گروہوں کی طرح وہ بھی رہیں۔ اگر ہم دوسرے غیر مسلم گروہوں اور اقلیتوں کا وجود تسلیم کرتے ہیں اور ان کے جائز حقوق کا احترام کرتے ہیں تو قادیانیوں کا بطور غیر مسلم اقلیت وجود تسلیم کرنے اور ان کے جائز اقلیتی حقوق کا احترام کرنے میں بھی کوئی انکار نہیں ہے، لیکن اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کے ٹائٹل کے ساتھ قادیانیوں کے وجود اور حقوق کو ہم نے نہ پہلے کبھی تسلیم کیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں دور دور تک اس کا کوئی امکان موجود ہے۔