قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق

   
جامعہ رحمانیہ، ماڈل ٹاؤن، ہمک، اسلام آباد
۲۳ مارچ ۲۰۱۶ء

۲۳ مارچ کا دن اسلام آباد اور راولپنڈی میں گزرا۔ مغرب کے بعد راولپنڈی کینٹ میں مصریال روڈ کے ایک شادی ہال میں جمعیۃ اہل سنت کے زیر اہتمام ’’یوم پاکستان‘‘ کے حوالہ سے ایک کانفرنس کا اہتمام مولانا قاضی شفیق الرحمن اور ان کے رفقاء نے کر رکھا تھا۔ اور حضرت مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا مفتی مجیب الرحمن اور دیگر علماء کرام کے علاوہ راقم الحروف نے بھی اس میں گزارشات پیش کیں۔ جبکہ اس سے قبل بعد از نماز ظہر جامعہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن ہمک اسلام آباد میں چار بچوں کا حفظ قرآن کریم مکمل ہونے پر تقریب تھی اور جامعہ رحمانیہ کے مہتمم حافظ سید علی محی الدین نے اسے یوم پاکستان اور حفظ قرآن کریم کی تکمیل کے مشترکہ پروگرام کی شکل دے دی تھی۔ راقم الحروف نے اس میں جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ! آج یوم پاکستان ہے۔ ۱۹۴۰ء میں آج کے دن لاہور میں وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جو تحریک پاکستان کا نقطۂ آغاز بنی اور ہر سال آج کے دن اس کی یاد کو تازہ کیا جاتا ہے۔ مگر اس ساتھ جامعہ رحمانیہ کے چار حفاظ کا حفظ قرآن کریم مکمل ہونے کی تقریب بھی ہے اس لیے میں قرآن اور پاکستان کے حوالہ سے ہی کچھ باتیں کہنا چاہوں گا۔

قرآن کریم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک تعلق تو یہ ہے کہ پاکستان کے نام سے ایک الگ ملک کے قیام کا مطالبہ اس لیے کیا گیا تھا کہ برصغیر میں رہنے والے کروڑوں مسلمان اپنی الگ مذہبی و تہذیبی شناخت رکھتے ہیں۔ اور اپنے اس امتیاز کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے لیے ہندو اکثریت کی تہذیب کے ساتھ مشترکہ طور پر چلنا مشکل ہے۔ اس لیے وہ اپنا الگ ملک چاہتے ہیں تاکہ اپنی تہذیبی شناخت کو باقی رکھ سکیں اور معاشرتی و ریاستی امور میں قرآن و سنت کے احکام کی عملداری قائم کر سکیں۔ چنانچہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد اپنی بیسیوں تقاریر و بیانات میں اس کا اظہار کیا۔ بلکہ ایک موقع پر قائد اعظم سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کا دستور ہمارے پاس پہلے سے قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے اور وہی ہمارے دستور و قانون کی بنیاد ہوگا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قرآن کریم جس طرح چودہ سو سال قبل سیاسی و معاشرتی حوالہ سے قابل عمل تھا اسی طرح وہ آج بھی قابل عمل ہے اور ہماری راہنمائی کرتا ہے۔

قرآن کریم کے ساتھ پاکستان کا دوسرا تعلق یہ ہے کہ دستور پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ عوام یا کسی گروہ و خاندان کی نہیں تسلیم کی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو دستور کی اساس قرار دیا گیا ہے جو قرآن کریم کے ارشاد ’’ان الحکم الا للّٰہ‘‘ کا ترجمہ ہے اور دستور پاکستان کی بنیاد ہے۔ دستور پاکستان کے حوالہ سے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ وہ جمہوریت کے اس معروف تصور کو قبول نہیں کرتا کہ حاکمیت اعلیٰ عوام کی ہے اور پارلیمنٹ مکمل طور پر خودمختار ہے۔ بلکہ ہمارے دستور کی تین بنیادیں بالکل واضح ہیں۔ ایک یہ کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ دوسری یہ کہ حکمرانی کا حق کسی گروہ یا خاندان کا نہیں بلکہ عوام کے منتخب نمائندے ہی حکومت کریں گے۔ اور تیسری یہ کہ پارلیمنٹ اور حکومت مکمل خودمختار نہیں بلکہ قرآن و سنت کی پابند ہیں۔ یہ پاکستان اور قرآن کریم کے تعلق کا دوسرا پہلو ہے۔

مگر قرآن کریم اور پاکستان کے تعلق کے ایک تیسرے پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ دنیا بھر میں قرآن و سنت کے حفظ اور فہم دونوں حوالوں سے پاکستان کو جو امتیاز اس وقت حاصل ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حفظ قرآن کریم کا سب سے مضبوط نیٹ ورک پاکستان میں ہے اور حفاظ کی تعداد بھی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے پاکستان میں زیادہ ہے۔ جبکہ دنیا کے دوسرے بہت سے ممالک میں قرآن کریم کے حفظ کی تدریس کی خدمات میں بھی پاکستان کے قراء و حفاظ سب سے نمایاں ہیں۔ میں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں پاکستانی قراء کو حفظ قرآن کریم کی تدریس کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جنوبی افریقہ، ہانگ کانگ، اور کینیا جیسے ممالک میں حفظ قرآن کریم کے ایسے مدارس موجود ہیں جن میں پاکستانی قراء کرام خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ میں نے سب سے کم عمر کا حافظ قرآن کریم امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں دیکھا ہے جس نے چھ سال کی عمر میں حفظ قرآن کریم مکمل کر لیا تھا۔ وہ بنوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست حافظ عبد الغفار صاحب کا بیٹا ہے جو امریکہ میں پیدا ہوا اور وہیں اپنے والد سے قرآن کریم حفظ کیا۔

میں نے ہانگ کانگ میں حفظ قرآن کریم کے متعدد مدارس کا مشاہدہ کیا ہے جو ہمارے دوست پاکستانی عالم دین مولانا قاری محمد طیب کی نگرانی میں سینکڑوں بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ اور یہ بات یقیناً آپ حضرات کے لیے تعجب انگیز خوشی کا باعث ہوگی کہ حرم مکہ یعنی مسجد حرام میں حفظ قرآن کریم کا پہلا مدرسہ ہمارے ایک پاکستانی مخیر بزرگ الحاج محمد یوسف سیٹھیؒ کی توجہ اور محنت سے قائم ہوا تھا جن کا تعلق ایک نومسلم خاندان سے تھا اور گکھڑ کے قریب راہ والی میں ان کی گتہ فیکٹری مشہور تھی۔ حرم مکہ کے اس پہلے مدرسہ کے استاد پاکستانی قاری الشیخ خلیل احمد حفظہ اللہ تعالیٰ تھے اور ان کے شاگردوں میں امام الحرمین الشیخ عبد اللہ بن السبیل ؒ بھی شامل ہیں۔ خود میرے حفظ قرآن کریم کے استاذ محترم حضرت قاری محمد انور مدظلہ نے پینتیس برس تک مدینہ منورہ میں حفظ قرآن کریم کی تدریسی خدمات سر انجام دی ہیں۔ اب یہ دونوں بزرگ علیل اور صاحب فراش ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

آج یوم پاکستان اور چار بچوں کا حفظ قرآن کریم مکمل ہونے کے موقع پر میں قرآن کریم اور پاکستان کے اس تعلق کی بات کرتے ہوئے خوشی اور فخر محسوس کر رہا ہوں۔ لیکن ہم اس نعمت عظمیٰ کی کیا قدر کر رہے ہیں؟ یہ بات بہرحال توجہ طلب ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کے ساتھ مستحکم تعلق نصیب کریں اور پاکستان کو قرآن و سنت کی تعلیمات و احکام کا گہوارہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۳۱ مارچ ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter