۱۶ نومبر کے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے اور یہ سطور قارئین کے سامنے آنے تک انتخابی جوش و خروش انتہائی عروج تک پہنچ چکا ہو گا۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے میدانِ عمل میں آنے سے اس وقت ملک دو واضح کیمپوں میں تقسیم ہو چکا ہے:
ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو اس ملک کی دینی روایات اور نظریاتی تشخص کے برعکس خواتین کی قیادت کو مسلط کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور اس کے انتخابی جلسوں میں ’’ہے جمالو‘‘ کی تھاپ پر ’’بھٹو ازم‘‘ کے نعرے ملک کو ۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۷ء کے تلخ اور دلخراش دور کی طرف واپس لے جانے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ وہ کربناک دور ہے جب شرفاء کی پگڑیاں اچھالی گئیں، سیاسی کارکنوں کو تذلیل کے شرمناک مراحل سے گزارا گیا، عوام کے منتخب نمائندوں کو اسمبلی سے اٹھا کر باہر پھینکا گیا، لسانی منافرت اور علاقائی عصبیت کا بیج بویا گیا، حق گوئی کے جرم میں سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کو شہید کیا گیا، عوامی جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت کو قوم پر مسلط کر دیا گیا، سیاسی مقدمات اور گرفتاریوں کو ملک کی عام روایت اور روزمرہ کا معمول بنا دیا گیا، اور شاہی قلعہ اور چونی منڈی کے عقوبت خانوں کو ناکافی سمجھتے ہوئے دلائی کیمپ جیسی اذیت گاہوں کا اہتمام کیا گیا۔ آج پیپلز پارٹی اسی ’’بھٹو ازم‘‘ کا پرچم اٹھائے ووٹ کے ذریعہ ملک کے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے، اور وہ جہاں عورتوں کی قیادت کا جوا پاکستانی عوام کے گلوں میں ڈالنے کے ۔ ۔ ۔ سیکولر ریاست بنانے ۔ ۔ ۔ ایٹمی پلانٹ کے معائنہ کا موقع دینے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
دوسری طرف اسلامی جمہوری اتحاد ہے جس کا سب سے بڑا مقصد پاکستان میں اسلامی قوانین کی بالادستی قائم کر کے اسے صحیح معنوں میں ایک نظریاتی اسلامی ریاست بنانا ہے۔ اور قومی سیاست کو شرافت اور اصول پرستی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے معاشی، قانونی اور معاشرتی مسائل کو حقیقت پسندانہ بنیادوں پر حل کرنا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا منشور زیر نظر شمارہ میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسے دیکھ کر بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ (اتحاد) کے عزائم کیا ہیں اور اس کی قیادت کے ذہن میں ملک کے مستقبل کا نقشہ کیا ہے۔
اس وقت ملک کے تمام ووٹر سخت ترین آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں، پاکستان کے مستقبل کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے، اور ووٹروں نے ۱۶ نومبر کو ووٹ کی پرچی کے ذریعہ فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان میں ۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۷ء کا دور واپس لا کر ’’بھٹو ازم‘‘ کی حکمرانی قائم کرنی ہے یا اسلامی قوانین کی بالادستی اور ملک کے دفاعی استحکام کو ایٹمی قوت کے ذریعہ مضبوط بنانے کا عزم رکھنے والی مثبت سیاسی قوت کو سامنے لا کر ملک کو ترقی و استحکام کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے۔
ملک دو راہے پر ہے، ایک طرف اخلاقی انارکی، لادینیت اور سامراجی قوتوں کا آلۂ کار بننے کا راستہ ہے، دوسری طرف اسلامی نظریات کی سربلندی، ملکی استحکام اور قومی خودمختاری کی شاہراہ ہے۔ اور قومی زندگی نے ان دو واضح راستوں میں سے کس راہ پر اپنے سفر کا آغاز کرنا ہے، اس کا فیصلہ ۱۶ نومبر کو آپ کے ووٹ کی پرچی نے کرنا ہے۔ اس لیے ووٹروں کی دینی اور قومی ذمہ داری ہے کہ وہ ذات، برادری، دھڑے، طبقہ اور علاقہ ہر قسم کی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے ووٹ کا استعمال کریں، اور ووٹ کی پرچی کے ذریعہ لا دین قوتوں کو فیصلہ کن شکست دے کر پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں۔