پاکستان کی شمالی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ آزاد قبائل کو ایک عرصہ سے یہ منفرد حیثیت حاصل ہے کہ ان کا نظام اور کلچر باقی ملک کے لوگوں سے مختلف ہے۔ فرنگی حکمرانوں کے دور میں یہ ’’آزاد علاقہ‘‘ کہلاتا تھا اور افغانستان اور روس سے فاصلہ قائم رکھنے کے لیے ’’بفر زون‘‘ کا کام دیتا تھا۔ جبکہ قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی اس حیثیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی اور پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود اس خطہ کا انتظامی اور عدالتی نظام ملک کے دیگر حصوں سے جداگانہ ہے۔ اس خطہ کو فرنگی تسلط کے دور میں تحریک آزادی کے ’’بیس کیمپ‘‘ کا درجہ حاصل تھا اور شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ ، حاجی صاحب ترنگ زئیؒ ، مولانا عبد الرحیم پوپلزئیؒ ، اور فقیر ایپیؒ جیسے عظیم مجاہدین آزادی کی تگ و تاز کا مرکز زیادہ تر یہی علاقہ رہا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ موجودہ قومی اسمبلی میں اس خطہ کو عوام کے براہ راست ووٹوں سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملا ہے اور اس علاقہ کے مستقبل کے عدالتی اور انتظامی ڈھانچے کے بارے میں مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ یہاں اس وقت قبائل کا جرگہ سسٹم رائج ہے اور بعض معاملات کے فیصلے علماء کرام سے شریعت اسلامی کی روشنی میں لیے جاتے ہیں۔ جبکہ انتظامی اور عمومی عدالتی اختیارات دستوری طور پر وفاق پاکستان کے نمائندہ پولیٹیکل ایجنٹ کو حاصل ہیں جو قانونی طور پر اس خطہ میں سیاہ و سفید کا مالک سمجھا جاتا ہے اور اس کی بات کم و بیش ہر معاملہ میں حرف آخر تصور ہوتی ہے۔
چند سال قبل سوات، دیر اور مالاکنڈ کے علاقوں میں نفاذ شریعت کی تحریک چلی اور عوام ہزاروں کی تعداد میں اس مطالبہ کے ساتھ سڑکوں پر آئے کہ ان کے علاقہ میں شریعت اسلامیہ کی عملداری قائم کی جائے۔ یہ دیکھ کر قبائلی علاقہ جات میں بھی علماء اور دینی کارکنوں نے انگڑائی لی اور مختلف حلقوں کی طرف سے نفاذ شریعت کے مطالبات سامنے آنے لگے۔
نفاذ شریعت کے حوالہ سے ہماری قومی تاریخ کے دامن میں یہ المیہ بھی موجود ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف یہ کہ ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کی طرف نصف صدی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ بعض ایسے علاقے جہاں قیام پاکستان کے وقت عدالتی سطح پر شرعی قوانین نافذ تھے انہیں بھی پاکستان میں شمولیت کے ساتھ ان شرعی قوانین سے محروم کر کے وہاں انگریزی دور سے چلے آنے والے نو آبادیاتی قوانین نافذ کر دیے گئے۔ مثلاً بلوچستان میں ریاست قلات، سندھ میں ریاست خیرپور، پنجاب میں ریاست بہاولپور، اور سرحد میں سوات کی ریاست میں عدالتی سطح پر شرعی قوانین نافذ تھے، قاضی عدالتیں موجود تھیں، انصاف بلا فیس ملتا تھا، مقدمات کے فیصلے جلد ہو جاتے تھے اور لوگوں کو سالہا سال تک عدالتوں کے دھکے نہیں کھانے پڑتے تھے۔ مگر ان ریاستوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوتے ہی شرعی عدالتیں ختم کر دی گئیں اور انہیں ملک کے عمومی قانونی نظام سے منسلک کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن علاقوں میں جزوی طور پر شرعی قوانین نافذ چلے آرہے تھے انہیں بھی قاضی عدالتوں اور شرعی قوانین کی عملداری سے محروم کر دیا گیا۔
چند سال قبل مالاکنڈ ایجنسی میں نفاذ شریعت کی تحریک کے دوران راقم الحروف کو سوات جانے کا موقع ملا اور وہاں مختلف طبقات کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو شرعی قوانین کے نفاذ کے حق میں وہاں کے عوام کی ایک بڑی دلیل یہ بھی تھی کہ ہمیں تو شرعی عدالتیں اور قرآنی قوانین میسر تھے جنہیں ختم کر کے ’’فاٹا ریگولیشن‘‘ کے نام سے ایک نیا انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ دیا گیا تھا۔ اس لیے اب جبکہ عدالت عالیہ نے ’’فاٹا ریگولیشن‘‘ کو خلاف آئین قرار دے دیا ہے تو ہمیں انگریزی قانون کی طرف دھکیلنے کی بجائے شرعی عدالتیں واپس کر دی جائیں۔
یہی دلیل قبائلی علاقہ جات کے علماء کرام اور دینی کارکن دے رہے ہیں کہ انہیں پولیٹیکل ایجنٹ کی صورت میں نہیں بلکہ شرعی قوانین اور قاضی عدالتوں کی شکل میں عدالتی نظام ملنا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ قبائلی علاقہ جات کا موجودہ نظام عبوری اور ہنگامی ہے جسے کوئی باضابطہ اور مستقل سسٹم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس سسٹم کی تبدیلی اور اس کی جگہ کسی مربوط اور منظم سسٹم کا نفاذ ناگزیر ہوگیا ہے۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ قبائلی علاقوں کے دیندار عوام کے اس موقف پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ انہیں نوآبادیاتی سسٹم کے ساتھ منسلک کرنے کی بجائے شرعی قوانین دیے جائیں۔
گزشتہ دنوں دارالعلوم حنفیہ چکوال کے سالانہ اجتماع میں سینیٹ آف پاکستان کے سابق رکن مولانا قاضی عبد اللطیف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی اس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی اور اپنی اس تجویز کا ذکر کیا کہ قبائلی علاقہ جات سے شرعی قوانین کے عملی نفاذ کا بطور تجربہ آغاز کر دیا جائے تو اس سے نہ صرف پاکستان کے دیگر علاقوں کے عوام کو شرعی قوانین کی افادیت اور برکات سے آگاہی حاصل ہوگی بلکہ ان لوگوں کے خدشات و شبہات کا بھی ازالہ ہوگا جو بلاوجہ شرعی قوانین سے خوفزدہ ہیں۔ اور محض فرضی تحفظات کے سہارے نفاذ اسلام کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ قاضی صاحب کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقہ جات کی آبادی سرکاری طور پر ۷۰ سے ۸۰ لاکھ بیان کی جاتی ہے جبکہ عوامی حلقوں کے مطابق یہ آبادی کسی طرح بھی ایک کروڑ سے کم نہیں ہے۔ اگر ان علاقوں کو شرعی نظام کے ایک ڈھانچے کے تحت مربوط کر دیا جائے تو یہ ایک اچھا خاصا تجرباتی یونٹ بن سکتا ہے جو ملک کے باقی حصوں کے لیے بھی شرعی قوانین کی برکات و ثمرات کے لحاظ سے ایک مثالی خطہ ثابت ہوگا۔
سچی بات یہ ہے کہ قبائلی علاقہ جات کے تاریخی پس منظر، جغرافیائی محل وقوع اور اس خطہ کے عوام کے مخصوص کلچر اور رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں مولانا قاضی عبد اللطیف کی یہ تجویز پسند آئی ہے کہ اگر پورے پاکستان کو شرعی قوانین اور اسلامی نظام کی عملداری کا میدان بنانے میں ابھی کچھ لوگوں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کا حجاب باقی ہے تو ابتدائی تجربہ کے طور پر قبائلی علاقہ جات کو مکمل شرعی قوانین کی عملداری کی تجربہ گاہ بنایا جائے۔ اس سے اس خطہ کے عوام کو مروجہ آمرانہ سسٹم سے نجات ملے گی اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق شرعی قوانین کی عملداری سے بہرہ ور ہوں گے جس سے پاکستان کے باقی علاقوں کے لوگوں کا خوف بھی دور ہوگا اور وہ اسلامی قوانین کی افادیت و ثمرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ جبکہ ہمارے نزدیک اس کا ایک فائدہ اور بھی ہوگا کہ اس خطہ کے دیندار عوام کو سرحد سے دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی جہاں شرعی نظام اپنی مکمل شکل میں نافذ ہو رہا ہے اور اس سے زیادہ دیر تک آنکھیں بند رکھنا اس خطہ کے لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔