(چیمبر آف کامرس گوجرانوالہ میں حفظ القرآن کریم کے مقابلوں کی سالانہ تقریب سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں بزم حفاظ کرام گوجرانوالہ اور اس کے امیر قاری محمد فاروق انور صاحب (مدرس جامعہ نصرۃ العلوم) کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ تسلسل اور حوصلہ کے ساتھ حفظ قرآن کریم کے مقابلوں کی اس سالانہ تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں، اور چیمبر آف کامرس کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک اچھی تقریب کے لیے یہ ہال فراہم کیا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اور اس طرز کی تقریبات ایسے اداروں میں وقتاً فوقتاً ہوتی رہنی چاہئیں، اس سے برکات کا ماحول رہتا ہے اور اجر و ثواب بھی ملتا ہے۔ جبکہ میں باہر سے تشریف لانے والے معزز قراء کرام جناب قاری اخلاق احمد مدنی، جناب قاری محمد عارف سیالوی اور قاری محمود الحسن صاحب کو خوش آمدید کہتا ہوں جنہوں نے اس تقریب کو رونق بخشی اور بزم حفاظ کرام کی حوصلہ افزائی کی ،اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازیں،آمین۔
میرا معمول یہ ہے کہ جب کوئی بچہ قرآن کریم حفظ مکمل کرتا ہے اور اس کے آخری سبق یا دستار بندی کی تقریب میں شرکت کا مجھے موقع ملتا ہے تو دو چار باتیں بطور نصیحت عرض کیا کرتا ہوں۔ چونکہ یہ تقریب بھی حفظ قرآن کریم کے حوالہ سے ہے اس لیے وہ باتیں یہاں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے حفاظ کو بہت فضیلت سے نوازا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث مبارکہ میں حفاظ کے بیسیوں اعزازات و امتیازات کا تذکرہ فرمایا ہے جو قیامت کے دن قرآن کریم کے حافظوں کو عطا ہوں گے۔ ان میں سے ایک کا تذکرہ کروں گا کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حافظ قرآن کریم کو اپنی برادری اور خاندان کے دس افراد کی سفارش کا حق دیں گے جو اس کی سفارش پر جنت میں داخل ہوں گے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اعزازات کا احادیث مبارکہ میں ذکر ہے لیکن آنحضرتؐ نے یہ اعزازات اور امتیازات ہر حافظ کے لیے بیان نہیں کیے بلکہ اس کی شرائط بھی بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’من تعلم القرآن‘‘ جس نے قرآن کریم سیکھا یعنی یاد کیا ’’وحفظہ‘‘ اور اس کو یاد رکھا ’’وعمل بہ‘‘ اور اس پر عمل کیا، اس کو اللہ تعالیٰ اس اعزاز سے نوازیں گے۔
اس لیے صرف قرآن کریم یاد کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ اسے زندگی بھر یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی حافظ اپنی غفلت اور بے توجہی کی وجہ سے قرآن کریم یاد کرنے کے بعد بھول گیا تو اس کے لیے سخت وعید اور سزا کا بھی ذکر احادیث مبارکہ میں کیا گیا ہے۔ پھر قرآن کریم پر عمل بھی ا س کا لازمی تقاضہ ہے اور قرآن کریم پر عمل کا ایک سادہ سا معیار آپؐ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ ’’فأحل حلالہ وحرم حرامہ‘‘ اس کے حلال کو حلال سمجھے اور حرام کو حرام سمجھے۔ یعنی قرآن کریم نے حلال و حرام کے جو دائرے بیان کیے ہیں ان کی پابندی کرے، اپنے معمولات میں، کھانے پینے میں، لین دین میں، کار و بار میں، معاملات میں اور زندگی کے تمام امور میں حلال و حرام کے فرق کو ملحوظ رکھے۔ چنانچہ حفاظ کرام سے گزارش ہے کہ وہ قرآن کریم کو یاد کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے بعد میں یاد رکھنے کا بھی اہتمام کریں اور خاص طور پر حفاظ کے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیں۔
دوسری بات حفاظ کرام سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’ان افواھکم طرق القرآن‘‘ کہ تمہارے منہ قرآن کریم کے راستے ہیں۔ اس ارشاد کی روشنی میں گزارش ہے کہ ہم منہ سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں، اس لیے منہ اور کان قرآن کریم کے آنے جانے کے راستے ہیں، ایک راستہ سے قرآن کریم آتا ہے اور دوسرے سے جاتا یعنی ادا ہوتا ہے، ان راستوں کو پاک صاف رکھنا بھی قرآن کریم کے ادب و احترام کا تقاضہ ہے۔
جب بڑوں سے دوستی لگاتے ہیں تو آنے جانے اور اٹھنے بیٹھنے کے مقامات ان کے مطابق رکھنے پڑتے ہیں۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ ’’اونٹوں والوں سے یاری لگائیں تو دروازے اونچے رکھنے پڑتے ہیں‘‘۔ اگر کسی بادشاہ نے گھر آنا ہو تو اٹھنے بیٹھنے کی جگہ بھی ان کے شایان شان بنائی جاتی ہے اور آنے جانے کے راستوں کو بھی صاف رکھا جاتا ہے، گلیاں نالیاں صاف کی جاتی ہیں، راستے میں پھول بچھائے جاتے ہیں، چونا بکھیرا جاتا ہے اور خوشبو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم بادشاہ کا کلام ہے اور کلاموں کا بادشاہ ہے۔ اس کے آنے جانے کے راستوں کو پاک صاف رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ اسی کان سے قرآن کریم سنا جائے اور اسی سے گانے بھی سنے جائیں، گالیاں بھی سنی جائیں، جھوٹ بھی سنا جائے، غیبت بھی سنی جائے اور فضول باتیں بھی سنی جائیں۔ اور یہ بات بھی ادب و احترام کے خلاف ہے کہ جس زبان سے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اسی سے جھوٹ بھی بولا جائے، گالیاں بھی دی جائیں، گانے بھی گائے جائیں اور بے ہودہ باتیں بھی کی جائیں۔ یہ باتیں ہمارے مزاج اور کلچر کا حصہ بن گئی ہیں اور ہمارے روز مرہ معمولات میں شامل ہو گئی ہیں اس لیے ہمیں زیادہ محسوس نہیں ہوتیں لیکن یہ سب کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتی ہیں۔ جھوٹ بولنا، کسی کی غیبت کرنا، کسی پر بہتان باندھنا، کسی کو گالی دینا، گانے گانا اور بے ہودہ گوئی کرنا سب کبیرہ گناہ ہیں۔
قرآن کریم نے ان باتوں سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے اس لیے قرآن کریم کی تلاوت اور سماع کو ان کے ساتھ خلط ملط کرنا قرآن کریم کے ادب و احترام کے منافی ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نارا ض ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ناراض ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اگر معزز مہمان کا اس کی شان کے مطابق احترام نہ کیا جائے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے اور دوبارہ اس گھر میں نہیں آتا۔ چنانچہ ہمیں اپنے گھر کے ماحول کو، اپنی زبانوں اور اپنے کانوں کو ایسی باتوں سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ قرآن کریم ہم سے خوش ہو اور اس کی برکات ہمیں حاصل ہوتی رہیں۔